اجتماعی شادی کی منفرد تقریب
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اجتماعی شادی کی تقریبات ہمارے معاشرے کا ایک منفرد مذہبی و ثقافتی حصہ ہیں۔ مختلف سماجی ادارے اجتماعی شادیوں کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ کراچی کے فلاحی ادارے "حوا علم الشفائ ٹرسٹ" کے زیر اہتمام اجتماعی شادی کی تقریب ٹرسٹ کے قائم کردہ اسپتال "فاطمہ کٹنی کیئر سینٹر واقع سرجانی ٹآون میں منعقد ہوئی جس میں راقم الحروف کو شرکت کا شرف حاصل ہوا ۔ ذیل میں اس تقریب کی روئیداد اور اسلام میں نکاح کی اہمیت کے حوالے سے مختصر بیان کیا گیا ہے
|
|
تقریبات میں شرکت ایک عام سے بات ہے ،
عمومی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں لوگ سب سے زیادہ شادی کی
تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ عمل متعدد اعتبار سے فوقیت اور
فضیلت کا حامل ہے۔ نکاح یا شادی ایک ایسا فعل ہے کہ جس کی بنیاد پر ہی یہ
دنیاپھلی پھولی، شادی محض انسانی خواہشات کا نام نہیں اور نہ ہی جذبات و
احساسات کی تکمیل اس کا مقصد ہے۔ یہ ایک ایسا فرض اور ایسی سنت ہے کہ جس کی
ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اسے اپنے سنت
قراردیا ۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ’’النکاح من سنتی‘‘
،’نکاح کرنا میری سنت ہے‘۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے متعدد آیات میں نکاح
کرنے ، کن سے نکاح کیا جائے، کتنے نکاح کیے جائیں اور دیگر احکامات کا ذکر
بہت واضح الفاظ میں کیا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت (221) میں مشرک عورتوں سے
نکاح نہ کرنے کاکہا گیا، سورہ النساء کی آیت (3) میں دو دو یا تین تین یا
چار چار نکاح کرنے کی بات کی گئی ترجمہ ’’اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو
کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تواُن کے سوا جو عورتیں تم کو
پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چارچار اُن سے نکاح کر لواور اگراس بات کا
اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے)
یا لونڈی جس کے تم مالک ہو اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤگے‘‘۔ اسی سورہ کی
آیت 22تا 24 میں کن سے نکاح کیا جائے اور کن سے نکاح نہ کیا جائے کی تفصیل
ہے۔ اسی طرح سورۃ الاعراف (7) آیت (189) ترجمہ ’’ وہ اﷲ ہی ہے جس نے تمہیں
ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جَنس سے اُس کا جوڑا بنا یا تاکہ اس کے
پاس سکون حاصل کرے‘‘۔سورۃ الرعد(13) آیت (38) ترجمہ ’’اے محمد ﷺ تم سے پہلے
بھی ہم بہت سے رسُول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنا
یا تھا‘‘۔سورۃ النساء آیت نمبر ایک(۱) ترجمہ’’ اے لوگواپنے پروردگار سے ڈرو
جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا
اور ان دونوں سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘۔مفسرِقرآن حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی ؒ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس آیت میں
پیدائش کی تین صورتوں کا بیان ہے ایک تو جاندار کا بے جان سے پیدا کرنا
جیسے آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ۔ دُوسرے جاندار کا جاندار سے بلا
طریقہ توالد متعارف پیدا ہوناجس طرح حضرت حّواحضرت آدم علیہ السلام کی پسلی
سے پیدا ہوئی ہیں۔اور تیسرے جاندار سے جان دار سے بطریقِ توالدِ متعارف
پیداہونا جیسا کہ اور آدمی آدم و حّوا سے اِس وقت تک پیدا ہوتے آرہے ہیں ۔
اور فی نفسہٖ عجیب ہونے میں اور قدرت کے سامنے عجیب نہ ہونے میں تینوں
صورتیں برابر ہیں‘‘۔ پہلا نکاح آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا ہوا۔علامہ
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی ایک تصنیف میں آنحضرت محمد ﷺ پر درود بھیجنے کی
فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور
حضرت حواکی بھی ولادت ہوگئی ۔ اب آدم علیہ السلام نے اماں حوا کا قرب چاہا
تو اﷲ رب العزت نے روکا ملائیکہ کو حکم دیا کہ رک جاؤ تمہارا نکاح کراتے
ہیں ، نکاح کے بعد تم مہر ادا کرنا تب ’حوا‘ تمہارے لیے’ آدم ‘حلال ہوگی۔
آدم علیہ السلام نے پوچھا پروردگار نکاح اور حجاب و قبول تو ٹھیک ہے لیکن
مہر کیا دونگا؟شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ’’مدارج البنوت‘ میں بیان کیا
اور بھی کئی مصنفین نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا ہے ۔ آپ(حضرت آدمؑ) نے
عرض کیا میرا مہر کیا ہوگا۔ تو باری تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے فرمایا کہ
آدم تو اور حوا دونوں مل کر میرے مصطفی پر 2 مرتبہ درود پڑھ لینا۔ دونوں نے
تین مرتبہ یا20 مرتبہ مصطفی پر درود پڑھا تو حضرت حوا ھلال ہوگئیں۔دنیا میں
آدم و حوا کی ملاقات مکہ میں جبل رحمت پر ہوئی تھی۔ یہ ایک چھوٹی سے پہاڑی
ہے ہر سال حجاج اکرم اسی جبل رحمت پر جمع ہوتے ہیں اور خطبہ حج سنتے
ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جتنے بھی نبی آئے تمام کی شادیاں ہوئیں
اور اﷲ نے انہیں اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔
نکاح انبیاء کی سنت ہے، قرآن کریم میں انبیاء کی ازواج اور ان کی اولادوں
کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت اوراسے آدھا ایمان
اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔متعدد احادیث
مبارکہ و سیرت کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ پیر انتظام الدین موتی نے اپنے
مضمون ’نکاح کی اہمیت‘ (جنگ 14 اکتوبر2016ء) میں لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ
جب بعض صحابہ کرامؓ نے عبادت و ریاضت میں یکسوئی و دلچسپی کے پیش نظر
آنحضرت ﷺ سے اپنی شہوت کو ختم کر دینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت ﷺ نے
ایسا کرنے سے منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا
قرار دیا‘‘۔اسی طرح حجتہ الوادع کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’میں
تمہیں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی وصیت کرتا ہوں ، وہ
تمہارے پاس امانت ہیں، ان کے بارے میں اﷲ سے ڈرو‘‘۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا ’’تم میں جو کوئی نکاح کی طاقت ، استطاعت رکھے تو اسے نکاح کرلینا
ہی چاہیے کیونکہ وہ نگاہ کو جھکنے والا شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والا ہے
اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا ، اسے چاہیے کی وہ روزہ رکھے کیونکہ
وہ ڈھال ہے‘‘۔احکاماتِ خدا وندی اور ارشاداتِ نبوی ﷺ سے نکاح کی اہمیت واضح
ہوجاتی ہے۔ شادی انسان کی اہم فطری ضرورت اوراس کی بقا و تحفظ کی ضامن ہے۔
ظہور اسلام سے قبل بھی حجاب و قبول کا طریقہ رائج تھا،تمام انبیاء نے
شادیاں کیں۔ اگر شادیوں اور کثیر اولاد کایہ سلسلہ نہ ہوتا تو دنیا کس طرح
آباد ہوتی، زمانہ جاہلیت میں مرد و عورت کے باہمی تعلق کے متعدد طریقے رائج
تھے ،ظہور اسلام کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اپنے طرز ِعمل سے حجاب و قبول کا جو
طریقہ بیان فرمایا مسلمانوں کے لیے وہی بہتر ، فطرت و حکمت کے عین مطابق
ہے۔ شادی میں دیگر احباب کی معاونت اور ملاپی کرادار اہمیت رکھتا ہے۔ مرد
کی جانب سے اس کے والدین یا سرپرست عورت کے اولیاء اور سرپرستوں کو پیام
دیتے ہیں اور ضروری معاملات طے ہوجانے کے بعد باقاعدہ نکاح کی رسم انجام
پاتی ہے۔ دنیا میں جیسے جیسے حوص، لالچ ، لمحوں میں امیر بننے کی خواہش ،
مادہ پرستی اور دنیاوی ضروریات غالب آنا شروع ہوئیں بے شمار قسم کی برائیاں
معاشرہ میں پیدا ہوگئیں۔ ان میں سے ایک برائی شادی کو اپنے لیے امارت کا
ذریعہ بنانے کی خواہش بھی ہے۔ یہ بات عام ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار
لڑکیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں ہوپاتی کہ ان کے والدین جہیز دینے کی
استطاعت نہیں رکھتے۔ جس کے نتیجے میں لڑکیوں کی عمریں ڈھلتی چلی جاتی ہیں
اور معاشرے میں دیگر مسائل اور مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ بھی معاشرتی مسئلہ
سامنے آجاتا ہے۔شادی نہ ہونے کی وجوہات اور بھی ہیں لیکن ان میں سے ایک
لڑکی کے والدین کا امیر و کبیر نہ ہونا ہے۔ جہاں ایک جانب معاشرہ میں بے
شمار خرابیاں پائی جاتی ہیں اسی جانب بے شمار اچھائیاں اور خوبیاں بھی ہیں۔
شادی جیسے اہم فریضے میں انفرادی طور پر معاونت کرنے کی رسم مسلم معاشرے
میں بہت قدیم ہے۔ پھر معاشی ضروریات نے اس انفرادی خدمت کو بھی معاش سے
نتھی کردیا اور انفرادی خدمت انجام دینے والوں نے ’شادی دفتر ‘ قائم کر لیے
اور وہ اس کام کا معاوضہ لینے لگے اوریہ بھی دیگر کاروبار میں سے ایک بن
گیا، لیکن انسانوں کے ملاپ میں خدمت کا جذبہ ختم نہیں ہوا آج بھی بے شمار
لوگ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر یہ خدمت انجام دے رہے ہیں ،ایک ہی
وقت میں کئی کئی جوڑوں کو شادی کے بندھن میں جوڑنا اور ان کے لیے سامان
ضروری کا اہتمام کرنے کو ’’اجتماعی شادی ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اجتماعی شادی کا تصور مسلم معاشرہ میں ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے بھی
پایا جاتا ہے اجتماعی شادی میں شادی کے تمام تراخراجات بشمول جہیز متعلقہ
فلاحی ادارہ برداشت کرتا ہے ۔ پاکستان میں متعدد فلاحی ادارے ایسے ہیں جو
اجتماعی شادیوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جیسے الغوثیہ ویلفیئر آرگنائزیشن،
منہاج القرآن ویلفیئر فاؤنڈیشن، ایدی فاؤنڈیشن، جذبہ فاؤنڈیشن، امام خمینی
ٹرسٹ، انصار برنی اور صارم برنی ٹرسٹ ، حوا علم الشفاء ٹرسٹ کے علاوہ کئی
ادارے اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مجھے گزشتہ دنوں ’حوا علم
الشفاء ٹرسٹ ‘کے زیر اہتمام اجتماعی شادیوں کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔
پاکستان میں انسانیت کی خدمت کو عوامی سطح پر عام کرنے کا تاج بلا شرکت
غیرے عبدالستار ایدھی مرحوم کے سر سجا ہے۔ اس سے قبل بھی انسانیت کی خدمت
کی جارہی تھی ، انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر بھی لیکن اسے عام لوگوں
تک ایک خاص طریقے اور ڈھنگ سے پہنچانے میں ایدھی مرحوم کا اہم کردار ہے۔ اب
ہمارے ملک میں کئی شخصیات عبد الستار ایدھی کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور
انسانیت کی فلاح کے بے شمار کام انتہائی خوش اسلوبی سے انجام پارہے ہیں۔ ان
میں سے ایک ’حوا علم الشفاء ٹرسٹ ‘ کے بانی و چیر ٔ مین جناب واحد علی
رحمانی بھی ہیں۔ان کی خدمات کابنیادی مقصد بلا تفریق لوگوں کو معیاری صحت
اور تعلیمی خدمات فراہم کرنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے 1990ء میں
کراچی میں متوسط لوگوں کی بستی سرجانی ٹاؤن میں ’فاطمہ کٹنی کیئر اسپتال‘
قائم کیا ، یہ اسپتال ستمبر2013سے گردے کے مریضوں کی خدمات انجام دے رہا ہے
۔ یہ اسپتال ڈائیلاسیز کے لیے پچاس بیڈ پر مشتمل ہے ۔ اس میں اب تک
12ڈائیلاسیز مشینیں کام کر رہی ہیں اس اعتبار سے اسے کراچی میں ڈائیلاسیز
کاتیسرا بڑا اسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ڈائیلاسیز ایک مہنگا علاج ہے لیکن اس
سینٹر میں غریبوں اور ناداروں کو ڈائیلاسیز جیسے مرض کو مفت علاج فراہم کیا
جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے علاقے سخی حسن کے قریب ’شیخ آئی اسپتال‘ بہت
عرصہ سے غریب و نادار افراد کی خدمت میں سرگرم عمل ہے۔
اجتماعی شادی کی تقریب سرجانی ٹاؤن میں واقع فاطمہ کڈنی کیئر اسپتال کے
احاطے میں منعقد ہوئی۔ ہم جب تقریب میں پہنچے تو متعدد الیکٹرنک میڈیا کی
گاڑیاں تقریب کی کوریج کے لیے باہر موجود تھیں، مہمانوں کے لیے دوہال مختص
تھے ، شروع کے بڑے پنڈال میں دولھا اور دلھنوں کے عزیز رشتہ دار بڑی تعداد
میں موجود تھے ،اندازہ ہورہا تھا کہ لوگوں کی اکثریت متوست طبقے سے تعلق
رکھتی ہے، اند ر کے پنڈال میں اسٹیج پر نو (9)دولھا ، رحمانی صاحب اور نکاح
خواں موجود تھے، شادی کی اہمیت پر بیان بھی ہورہا تھا، اسی پنڈال میں ایک
جانب نو جوڑوں کا جہیز الگ الگ اور ایک جیسا جہیز سجا ہوا تھا جس میں ایک
عام متوسط خاندان کے استعمال میں آنے والی ضروری اشیاء شامل تھیں جیسے
مسیری، الماری، پنکھا، استری،کراکری، برتن، کپڑے اور دیگر سامان شامل تھا ۔
نکاح کی رسم شروع ہوئی ایک ایک کرکے ہر دولھا اور دلھن کے وکیل اور گواہوں
کو اسٹیج پر بلا یا گیا اور حجاب و قبول کی رسم ادا کرائی گئیں۔ نکاح
ہوجانے کے بعد دلھنوں کو بھی اسٹیج پر ان کے اپنے اپنے دولھا کے ساتھ بٹھا
دیا گیا۔نکاح کے بندھن میں بندھنے والے تمام دولھا اور دلھنیں شاد اور خوش
نظر آرہے تھے۔حوا ٹرسٹ کے توسط سے ان نو(9) لڑکوں اور لڑکیوں کو نئی زندگی
شروع کرنے کا ایسا سہارا نصیب ہوا جسے وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔غریبوں ،
ناداروں، مسکینوں ، مفلسوں کی مدد کرنا تو عام سے بات ہے جسے اﷲ نے توفیق
دی ہوتی ہے وہ کرتا ہی ہے لیکن شادی کے بندھن میں اس انداز سے باندھ دینا
انسانیت کی بڑی خدمات ہے۔ اس طرح کے کاموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
صاحبِ استطاعت لوگوں کو حوا علم الشفاء ٹرسٹ اور اس جیسے فلاحی اداروں کی
دل کھول کر مدد کرنی چاہیے ۔رحمانی صاحب اور ان کی ٹیم کے تمام اراکین قابل
مبارک ہیں کہ انہوں نے دن رات محنت سے خدمتِ انسانی کا یہ عظیم کارنامہ
انجام دیا۔ لوگوں نے تصاویر لیں اور بنوائیں، میڈیا نے انٹر ویوز کیے،
سیلفیاں بھی لینے والوں نے لیں، ہر دولھا اور دلھن کے چہرہ پر خوش گوار
تاثرات نمایاں تھے۔ عزیز رشتہ دار بھی بہت خوش تھے۔ رحمانی صاحب سے ملاقات
ہوئی اور ان کے ہمراہ تصویر بھی بنائی گئی۔ تمام مہمانوں کی تواضع کی گئی۔
میں واحد رحمانی صاحب سے برائے راست تو واقف نہیں تھا ایک مرتبہ ان کے
اسپتال جانا ہوا وہاں ان سے ملاقات بھی ہوئی ، با اخلاق، ملنسار اور
انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار شخصیت ہیں۔ در اصل میرا چھوٹا بیٹا حافظ
نبیل صمدانی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے حوا علم الشفاء ٹرسٹ کے اسپتال
’’فاطمہ کٹنی کیئر سینٹر اسپتال کے ڈائیلاسیز سینٹر کا نگراں ہے۔ اس اسپتال
کا ڈائیلاسیز سینٹر اسی کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔ اس حوالے سے میں حوا
ٹرسٹ اور’فاطمہ کٹنی کیئر سینٹر اسپتال ‘ سے بخوبی واقف ہوں۔ ٹرسٹ کے
آنکھوں کے اسپتال میں بھی غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کا بہت ہی کم پیسوں
میں بہ آسانی اور معیاری علاج فراہم کیا جارہا ہے۔
اجتماعی شادی کی روایت عام ہے ۔ پاکستان میں متعدد فلاحی ادارے یہ خدمت
انجام دے رہے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ادارے منہاج القرآن ویلفیئر
فاؤنڈیشن کے اہتمام شادیوں کی سالانہ اجتماعی تقریب منعقد ہوتی ہے، گزشتہ
دنوں منعقد ہونے والی تقریب میں 20مسلمان اور چار مسیحی جوڑے شادی کے مقدس
رشتے میں بندھے ، پارا چنار میں 50جوڑوں کی اجتماعی شادی کی تقریب کرم
ایجنسی کے علاقے پارہ چنار میں منعقد ہوئی، جذبہ فاؤنڈیشن کے تحت 50اجتماعی
شادیوں کا اہتمام کیا گیا، مئی2016میں الغوثیہ ویلفئر آرگنائیزیشن کے زیر
اہتمام اجتمائی شادیوں کا میلہ سجایا جاتا ہے، اس دن 135جوڑوں کی شادی کا
اہتمام کیا گیا۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں میں بھی اجتماعی شادی کی
تقریبات کا رواج پایا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا میں شادی کی اجتماعی تقریب
میں50ممالک کے چار ہزار جوڑوں نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا عہد کیا، یہ
تقریب یونی فیکشن چرچ میں منعقد ہوئی جہاں پر 4ہزار جوڑوں کے علاوہ 12ہزار
جوڑے انٹر نیٹ پر شادی کے بندھن میں بندھے۔ چرچ میں اجتمائی شادی کی تقریب
دیکھنے 20ہزار افراد نے شرکت کی۔
فلاحی ادارے جو اجتمائی شادیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں قابل مبارک باد
ہیں۔وہ ایک ایسی انسانی خدمات انجام دے رہے ہیں جس کا کوئی نعمل بدل نہیں۔
معاشرے میں پائی جانے والی بہت بڑی خرابی کا سدِباب ، اﷲ کے دربار سے اجر ِ
عظیم کے حقدار اوریہ عمل ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جن خاندانوں کو شادی کے
بندھن میں باندھا ان کاخاندان جیسے جیسے پھلے پھولے گا، پروان چڑھے گا اس
کا اجر ملتا رہے گا۔ ایسے بے شمار والدین ہمارے ارد گرد موجود ہیں کہ جن کی
بیٹیاں صرف اس وجہ سے گھر میں جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں
کہ ان کے والدین انہیں جہیز نہیں دے سکتے۔ اول تو جیز جیسے لعنت اور برائی
کو ہی ختم ہوجانا چاہیے لیکن بعض مجبوریاں ایسی آڑے آجاتی ہیں کہ انسان بے
بس ہوکر رہ جاتا ہے۔ اﷲ ہمیں بھی نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |
|