فی زمانہ ایک قول مشہور ہے کہ ظلم پر مبنی
نظام تو چل سکتا ہے مگر انصاف سے عاری نظام نہیں چل سکتامگر راقم اس قول سے
اتفاق نہیں کرتا کیونکہ راقم کا ماننا ہے کہ جب کسی معاشرے میں ظلم انتہا
تک پہنچ جاتا ہے تو انصاف درگور ہو جاتا ہے دونوں ایک دوسرے کی زد ہیں یا
تو انصاف پر مبنی نظام چلتا ہے یا پھر ظلم کا نظام جب انصاف قائم ہو تو ظلم
کا خاتمہ ہو جاتا ہے یا پھر ظلم ہونے لگے تو انصاف ختم ہو جاتا ہے خیر یہ
ایک لمبی بحث ہے راقم کا ماننا ہے کہ امن انصاف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے جو
ظلم کو ختم کئے بغیر قائم ہو ہی نہیں سکتا کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی
کا راز مضبوط نظام انصاف پر منحصر ہے جہاں مساوی اور بلاتفریق نظام عدل
قائم ہو جائے وہاں تفریق کی عجاج نہیں رہتی انصاف تہذیب انسانی اور اس پر
قائم نظام معاشرت کی بنیادی ضرورت ہے جسے پورا کئے بغیر مثالی معاشرت کا
خواب کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا دنیائے عالم میں بے شمار ایسے ممالک
کی مثالیں ہیں جنہوں نے اپنے نظام عدل میں موجود نقائص کو دور کرتے ہوئے
قانون کو بالادست بنا لیا اور ترقی کی منزلیں عبور لیں بات نزدیک سے لے لیں
تو ہمارا ہمسایہ ملک چین جس نے پاکستان کے بعد آزادی حاصل کی اور آج دنیا
کے طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا بلکہ چین آج واحد
ملک ہے جو دنیا کی معیشت پر راج کر رہا ہے اس ملک نے سب سے پہلے اپنا نظام
عدل ٹھیک کیا جب انصاف کی فراہمی آسان ہو گئی اور امتیاز ختم ہو گیا تو اس
ملک کی معیشت ،حکومت ، بہتر سے بہترین ہو گئی قانون کی بالادستی نے چین
کیلئے راہیں ہموار کر دیں ایک وقت یہ بھی آیا کہ چین کا وزیر اعظم اور عام
آدمی بھی سائیکل پر سوار نظر آیا جو اس ملک کے قانون کی بالادستی کی زندہ
مثال بنا وہاں اگر کوئی بھی انسان قانون شکنی کا مرتکب پایا گیا تو بلا
تفریق اس کو اس کے جرم کی سزا دی گئی اب وہاں ادارے اتنے مضبوط ہو گئے ہیں
کہ ایک عام سپاہی بھی کسی اعلیٰ شخصیت کو قانون شکنی پر باآسانی گرفتار کر
لیتا ہے جس کو کسی اعلیٰ شخصیت کے ارتکاب جرم پر گرفتاری کیلئے کسی منسٹر
کی اجازت نہیں لینا پڑتی ہم نے امریکہ میں قانون کی بالادستی کی ایک مثال
بھی دیکھی کہ جب امریکی صدر جارج پش کی بھتیجی اپنی کسی ہاسٹل میٹ سے جھگڑی
تو عام پولیس آفیسرز نے اسے وہاں پہنچ کر گرفتاری کر لیا قطع نظر اس کے کہ
اس لڑکی کا تعلق امریکہ کے ایک صدر سے ہے ہمارا المیہ ہی رہا ہے کہ ہمیں
وراثت میں ایک قانون ملا جس کی ایک ٹانگ مشرق تو دوسری مغرب میں ہے اس خلاء
سے بے شمار قانون شکن اور بااثر افراد بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں ہمارے
نظام عدل میں خامیاں موجود رہیں جنہیں دور کرنے کی کبھی سعی نہ کی گئی
دیکھنے میں آیا ہے کہ تفتشی افسرکی ملی بھگت سے منت گھڑت وقوعہ بنا کر
جھوٹے مقدمات کا اندراج کروایا جاتا ہے جس سے بے شمار بے گناہ افراد کو
چھتر پریڈ کے بعد جیل یاترا کروائی جاتی ہے جہاں اکثر ایسے افراد جرائم کے
راستوں پر چل نکلتے ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عدالتوں میں زیر
التواء مقدمات انتے طویل ہو جاتے ہیں کہ اکثر سائلین مقدمات کی پیروی ہی
چھوڑ دیتے ہیں جبکہ با اثر افراد اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر قانون سے
کھیلتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب رہتے ہیں اور غریب انصاف نہ
ملنے سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اس کی ایک زندہ مثال حال ہی میں پوری
دنیا نے دیکھی کہ ایک غریب شخص کو انیس سال بعد جھوٹے مقدمے میں سے بری کیا
گیا مگر بہت دیر ہو چکی تھی جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بے گناہ دو
سال قبل ہی زندگی کی بازی ہار گیا اس بے گناہ شخص کی موت نے شاید ان عدلیہ
کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلا دیا ہے اب لگ رہا ہے کہ حالات سدھار کی
جانب آئیں گے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے
انقلابی اور پختہ عزائم سے پنجاب میں نظام عدل کو ٹھیک کرنے کیلئے کمر کس
لی ہے جنہوں نے ماتحت عدالتوں کو مخاطب کرکے واضح اور دو ک ٹوک پیغام دے
دیا کاہل ،سست ،منفی رویوں اور مشکوک شہرت کے متحمل جوڈیشل افسران اپنا
بوری بستر باندھ کر رکھیں اضلاع میں سیشن ججز حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ
ماتحت عدالتوں میں تعینات جوڈیشل افسران کی کارکردگی کی نگرانی کریں اور
جوڈیشل افسران کی تشخیصی رپورٹ میرٹ پر پوری دیانتداری سے لکھیں جوڈیشل
افسران کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹریننگ
ورکشاپش کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے ،کورٹ رومز اور نظریہ ضرورت
کے تحت عدالتوں میں تعمیرات کی جائیں گی اب تک اس ملک کو دیا ہے اور کیا دے
سکتے ہیں اس کسوٹی پر خود کو پرکھنے کی ضرورت ہے پنجاب میں عدلیہ کا سربراہ
ہونے کے ناطے تمام فاضل جج صاحباں سے ملکر یہ عہد کرتا ہوں کہ انصاف کی
بالادستی کیلئے دن رات محنت کروں گا اور ایمان اتحاد و تنظیم کے سنہری
اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغازکریں گے کیس مینیجمنٹ سسٹم
کے تحت مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے گا مظلوم کی داد رسی اور فوری
انصاف کی فراہمی ترجیحات ہیں اس امر میں کسی قسم کی سستی برداشت نہیں کروں
گا اضلاع میں عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے خصوصی عدالتوں پر
بھرپور توجہ دی جائے گی ماضی میں عدم توجہی کے سبب ایک خلاء سے کارکردگی کو
شدید نقصان پہنچا جس اب مربوط حکمت عملی سے موثر بنایا جائے گا فاضل و
ماتحت عدالتوں کے مابین خلیج کو کم کرکے قریب روابط قائم کئے جائیں گے تاکہ
نگرانی کا عمل کسی قسم کے خلل کا شکار نہ ہو ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کا
جائزہ لینے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے فاسٹ ٹریک
اپائنٹمنٹ سسٹم کے نام سے ڈیجیٹل ایپلی کیشن بنائی جائے گی جس کے ذریعے
ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کو کو باریک بینی سے مانیٹر کیا جائے گا ایکس
کیڈ کورٹس کیلئے سنئیر جج صاحبان اور عوامی نمائندوں پر مشتمل کونسلز بنائی
جائیں گی تاکہ معمولی نوعیت کے مقدمات کے جلد از جلد فیصلے ہوں صوبائی
محکموں کو عدالت میں نہیں بلانا چاہتے اسلئے وہ فوکل پرسنز نامزد کریں تاکہ
عدلیہ کے کام میں تاخیر نہ ہو بعض مقدمات ایسے ہیں جن کو محکموں کی سطح پر
حل کیا جا سکتا ہے ایسے مقدمات محکموں کی عدم دلچسپی سے عدالت میں بوجھ
بڑھا رہے ہیں اگر محکمے کمیٹیاں تشکیل دے کر کام شروع کر دیں تو ان مقدمات
کو محکموں میں ہی نمٹا یا جا سکتا ہے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے یہ
فرمودات یقینا انقلابی ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان فرمودات پر مکمل
علمدرآمد یقینی بنایا جائے چیف جسٹس صاحب کے عزائم بتا رہے ہیں کہ شاید
پنجاب کی سطح پر نظام عدل میں تبدیلیاں رونماء ہوں گی جو تمام صوبوں اور
خاص کر وفاق کیلےء مشعل راہ ثابت ہوں گی مگرایک حقیت سے ہم آنکھیں نہیں
موند سکتے کہ دعویداریاں ہمیشہ سے ہی ہماری سماعتوں کو محضوظ کرتی ہیں مگر
عملاً کوئی کام نظر نہیں آتا ہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی
شاہ صاحب کی نیک عزائم تو دیکھ چکے ہیں اﷲ کرے ان عزائم پر عملاً کام بھی
ہو اور فرسودہ نظام قانون میں بہتریاں آئیں ظاہر ہے جب عدالتوں میں انصاف
ملے گا تو قانون مضبوط ہو گا سائلین کی داد رسی ہو گی اور معاشرے سے
ذیادتیاں اور جبر ختم ہو گا لیکن پس پردہ ایک تلخ حقیقت بھی ہماری منتظر ہے
جس کو نظرانداز نہیں کر سکتے وہ یہ کہ کرپشن کی بیماری نے ہمارے محکموں کو
برباد کر کے رکھ دیا اب کوئی بھی عدالت ہو پیسے کا بغیر انصاف کے خواب
دیکھنا دیوانے کا خواب بن چکا ہے ایک کلرک سے لیکر سٹینو ،اہل مد ،ریڈر سب
کے سب پیسے پر چلتے ہیں اب ان خامیوں اور برائیوں کو دور کئے بغیر آپ نظام
میں عدل میں انصاف کی فراہمی کیسے ممکن بنائیں گے ؟ یقینا ان بنیادی
بیماریوں کا علاج کئے بغیر صحت مند نظام عدل کا قیام کار کٹھن ہوگا مگر ہمت
جواں ہو تو مشکلات آپکا راستہ نہیں روک سکتیں اگر یہ اقدامات ہو گئے اور ان
بیماریوں کو ٹھیک کر لیا گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں قائم نظام عدل
میں نہ صرف بہتریاں آئیں گی بلکہ اس کے ثمرات معاشرے پر بھی اثر انداز ہوں
گے اسی آس پردعا گو ہوں کہ اﷲ کرے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی
شاہ صاحب کے قولی نیک عزائم ،فعلی نیک عزائم بن جائیں یہ اپنے نیک مقاصد
میں کامیاب ہوں ۔ |