میڈیا کا کردار سماج کی ضرورتوں اور ان کے
مسائل کو بغیر حذف واضافہ کے،بڑی ایمانداری کے ساتھ حکومتی سطح یا اعلی
حکام تک لانا ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جلد مثبت حل تلاش کیا جا سکے،اسے ہم
عوام کا ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں،بلکہ یہ ایک ایسی کڑی ہے جو عوام کو حکومت
سے جوڑنے کا کام کرتی ہے،مگر موجودہ میڈیا کے رویے اور کارنامے سے یہ سب
جھوٹ اور جھوٹ ہی دکھائی دیتا ہے۔ایسا نہیں کہ اس محکمہ میں سوفیصدی ایسے
ہیں،مگر اکثریت ان بےپرواؤں اور غیر ذمہ داروں کی ہے یا پھر یہ کسی پارٹی
کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
سکے کے عوض بیچ لی دنیا اپنی
مفلسوں کے آہ کی پرواہ نہ کی
میڈیا کی طاقت کو ایوانوں میں چوتھی طاقت کے طور تسلیم کیا جاچکا ہے لیکن
اس میدان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے کہ ان سے عوامی مسائل کو زیر بحث تو
لانا دور اسے محسوس بھی نہیں کرتے اور صرف پارٹیوں اور دلوں کی چاپلوسی
کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور اگر ایسا کچھ نہیں ملتا تو مختلف مذاہب ادیان کے
ذاتی مسائل کو کچھ ایسا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ان کے جذبات مجروح
ہوں۔
ابھی کی بات ہے جھاڑکھنڈ میں منہاج کو پولیس بربریت کا سامنا ہوا اور وہ
جان سے بھی گئے، جے این یو میں نجیب نامی نئے اسٹوڈنٹ کو ہاسپٹل کے اندر
وارڈن کی موجودگی میں بےدردی سے پیٹا گیا،جان سے مارنے کی کوشش کی گئی اور
اب وہ گزشتہ 4 دنوں سے لاپتہ ہے مگر اس سے نہ تو یونیورسٹی آتھارٹی کو کوئی
لینا ہے اور نہ پولیس حکام کو اور میڈیا کی بات تو ہم کرتے ہی نہیں۔موجودہ
محرم میں بہار کے متعدد اضلاع،مغربی بنگال اور دیگر جگہوں میں فرقہ وارانہ
فسادات کو لے کر مسلمانوں میں ہنوز خوف وہراس کا ماحول ہے،نئی ہٹی حاجی
نگر(مغربی بنگال)کے لوگ ڈر میں جی رہے ہیں مگر اعلی حکام کی چُپی اس بات کا
واضح ثبوت ہے کہ ایسا انہیں کے اشارہ پر ہوا،ورنہ کیا بلوائی فورسز کی
آنکھوں کے سامنے اپنے ننگے پن اور کھلی بربریت کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟ہرگز
نہیں! ایسے وقت میں اگر میڈیا نے خود کو کسوٹی پر ثابت نہ کیا تو عوام کے
اندر سے ان کا کچھ بھی باقی اعتماد اٹھ جائے گا اور اس برادری کے سر جسے ہی
حق گوئی کا میڈل کبھی گلے میں ڈالا جاتا تھا اور ان کے بےباک قلموں اور دو
ٹوک طرز تحریر سے حکومتیں اپنی خیر منانے لگتی تھیں،لاکھوں مظلوموں کا خون
ہوگا،بیواؤں کی آہیں،اور یتیموں کی سسکیاں ہوں گی۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے
کہ اس میڈیا برادری کا ہی بہت بڑا کردار رہا کہ آج بستیاں پھونک دی
گئیں،گھروں کو اجاڑ دیا گیا،بسیرا،ٹھکانہ،سہاگ سب کچھ اجڑ گیا معصوم ماؤں
اور بہنوں کا، بیوہ ہو گئیں،بچے یتیم ہوگئے مگر تم تھے کہ اپنے پارٹی کی
ڈفلی بجانے میں رہے،حکومتی جماعتوں کی جی حضوری ایسی کہ گویا اس کے زر خرید
غلام ہو۔تُف اور افسوس ہے ایسی مطلبی اور خودغرض زندگی پر جس میں اپنی
آرائش وزیبائش اور رکھ رکھاؤ کا تو خوب خیال کیا،اپنی حیثیت بنانے میں
نیتاؤں کے تلوے چاٹے،ان کی جوتیاں سیدھی کیں،ماں بہن کو گالیاں
سنوائیں،لیکن اس ذمہ داری کو طاق پر ڈال دیا جسے تمہاری روح کا حصہ ہونا
چاہئے،اور جسے نہ ادا کر تم بےچین ہوجاتے کہ آج مجھ سے بہت بڑا ظلم ہوا کہ
میرا قلم کسی مظلوم کی حمایت میں خاموش رہا۔اس سے قبل کہ وقت تمہیں سنبھلنے
کا موقع ہی نہ دے خود کو سنبھالا دو اور اپنی ذمہ داری کے تئیں اتنے بیدار
ہو جاؤ کہ ظلم اگر تمہیں دیکھ لے تو وہ فنا ہوجائے، ظالم کی نظر تم پر پڑے
تو وہ پیٹھ پھیر کا بھاگتا دکھائی دے۔
میری اس تحریر میں جذباتیت کا عنصر گرچہ ہے مگر یہ حقیقت سے پرے بھی نہیں،
ایسا نہیں کہ ایماندار صحافی ناپید ہیں، مگر تنہا چنا بھانڈ نہیں پھوڑتا۔
ضرورت ہے یکتائی کی،ایمانداری اور ذمہ داری کے تئیں سنجیدہ ہونے کی اور
ایسا اسی وقت ہوگا جب ہم اپنے پیشہ پر نظر ثانی کریں گے اور اپنے پچھلے
کاموں کا تجزیہ کریں گے۔اللہ حق بولنے کی توفیق سے نوازے۔ |