نعرہ مستانہ
(Tariq Hussain Butt, UAE)
محرم کا مہینہ ایک ایسا مقدس مہینہ
ہے جس میں میں شہادتِ حسین کا واقعہ ہر ایک کی زبان پر ہوتا ہے۔انسان جیسے
جیسے اس واقعہ پر سوچتا جاتا ہے وہ ورطہِ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔چشمِ فلک
نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی فرد اسلام کی ھقانیت اور اس کے
حق کی خا طر اپنے اعزاء و اقارب کو اﷲ کی رضا کی خاطر قربان کر دے۔قافلہِ
حسین میں شیرخوار بچے بھی تھے ،خو اتین بھی تھیں ،جوان بھی تھے اور عمر
رسیدہ افراد بھی تھے لیکن کسی کو بھی موت کا خوف نہیں تھا ۔ اگر ہم محرم کے
پورے عشرے کا ببنظرِ عمیق جائزہ لیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں چنداں کوئی
دشواری نہیں ہوتی کہ قافلہ حسینی کا ہر ایک فرد اپنے موقف پر کوہِ گراں
تھا۔کسی لمحے بھی اس قافلے کے کسی فرد میں کہیں کوئی ضعف نہیں د یکھا گیا
کہیں کوئی کمزوری نہیں دیکھی گئی اور کہیں کوئی خوف کا شائبہ نہیں دیکھا
گیا۔ہر فرد اپنے ایمان کی قوت سے اس میدان میں ڈٹا ہوا تھا جسے میدانِ
کربلا کہا جاتا ہے۔اپنی جان کو قربان کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور پھر
اپنے جگر گوشوں کی قربانی تو انسانی فہم سے ماورا ہے۔کون ہے جو اپنے لختِ
جگر کو اپنے موقف کی خاطر قربان کر دے؟انسان ہمیشہ سے اپنی اولاد اور اپنے
جگر گوشوں کو کسی بھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن واقعہ کربلا میں
ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ امامِ عالی مقام حضرت امام حسین نے اسلام کی سر
بلندی اور استحکام کی خاطر اہلِ بیعت کی وہ قربانی پیش کی جس پر انسانیت
ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔حضرت امام حسین، حضرت علی اور حضرت ٖ فاطمہ زہرہ کے
فرزند ہونے کی جہت سے قابلِ احترام تھے۔نواسہِ رسول ﷺ ہونے کی جہت سے ان کا
مرتبہ بھی طے شدہ تھا لیکن حضرت امام حسین کی عظمت اس قربانی میں مضمر تھی
جو انھوں نے میدانِ کربلا میں پیش کی تھی۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ا
قتدار کی جنگ تھی۔کیا اقتدار کی جنگ ایسے لڑی جاتی ہے؟ کیا دنیا کی کوئی
ایسی جنگ بھی ہے جس میں قا فلے کا ہر فرد نہتا ہو؟۔اقتدار کی جنگ تو لاؤ
لشکر کے ساتھ لڑی جاتی ہے اور تیرو تفنگ سے لیس ہو کر دشمن کے خلاف صف
آرائی کی جاتی ہے لیکن امام کے قافلے میں ایسا کوئی عنصر نہیں تھا۔اہلِ
بیعت کا قافلہ جو یزید کی یزیدیت کا پردہ چاک کرنے کے لئے نکلا تھا وہ جنگی
سازو سامان سے لیس نہیں تھا بلکہ بالکل نہتا تھا ۔اس قافلے کا واحد مقصد یہ
تھا کہ رسو ل اﷲ ﷺ کے دین کو فاسق حکمرانوں سے بچایا جائے،اسے وراثتی زہر
سے پاک کیا جائے۔اسے فسق و فجور کے حا ملین سے آزادی دلوائی جائے،اسے ظالم
و جابر حکمران سے نجات دلوائی جائے اور اسے ملوکیت کے آہنی پنجوں سے رہائی
دلوائی جائے۔ اس راہ میں ایک ایسا مقام آگیا جہاں انھیں اپنی جانوں کے
نذرانے پیش کرنے پڑے تو انھوں نے کیسی حیل و حجت سے کا م نہیں لیا بلکہ دل
کی کامل رضا مندی سے اپنی جان اسلا م کی خاطر قربان کر دی اور یوں دنیا میں
وہ سچائی کی ایسی مثال بنے جس کا موازنہ کسی بھی قربانی سے نہیں کیا جا
سکتا کیونکہ امامِ عالی مقام کی قربانی ذاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر
نہیں بلکہ دین کے فروع کی خاطر تھی۔،۔
شاہ است حسین ،پا دشاہ است حسین۔۔۔دین است حسین،دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست، د ر دستِ یزید ۔۔۔حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
شعبِ ابی طالب وہ پہلی سخت آزمائش تھی جس سے رسول اﷲ ﷺ کو گزارا گیا
تھا۔تین سالوں تک اس گھاٹی میں رہنا ہی آنے والے زمانوں میں سرکارِ دو عالمﷺ
کے اندر اس صبر اور برداشت کی آبیاری کی گئی تھی جس نے آنے والے زمانوں میں
سرکار ِ دو عالم ﷺکے مشن کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔اسی دور
میں رسول اﷲ ﷺ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ ۃ الکبری کا انتقال ہوا اور آپ کے
چچا ابو طالب اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ان دونوں ہستیوں نے جس طرح سرکار دو
عالمﷺ کا ساتھ دیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ رسول
اﷲ ﷺ نے اس سال کو عام الخزن (غم کا سال) کا نام دیا۔ شعب ِ ابی طالب میں
رسوا ل اﷲﷺ تین سال تک رہے اور ان تین سالوں میں بھوک اور پیاس سے جب بچے
بلکتے تھے تو پتھروں کے دل بھی لرز اٹھتے تھے لیکن آقائے دو جہاں نے آزمائش
کی ان گھڑیوں کو بھی برداشت کیا۔مشرکوں کی ا یذا رسانیاں جب اپنی انتہاؤں
تک پہنچ گئیں تو پھر کچھ لوگوں نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی ۔خدا کا
کرنا ایسا ہوا کہ وہ معاہدہ جوشعبِ ابی طالب میں بنو ہاشم کی جلا وطنی کا
پروانہ تھا اسے دیمک لگ گئی اور یوں تین سالوں کے بعد شعبِ ابی طالب کی یہ
اذیت ناک گھڑیاں ختم ہوئیں۔طائف کا سفر ایک ایسا واقعہ ہے جس میں سنگدلی کی
انتہا کر دی گئی تھی۔اوباش نوجوانوں نے رسول اﷲ ﷺ پرجس بے رحمی سے سنگ باری
کی اس سے رسول ا ﷲ ﷺ لہو لہان ہو گئے۔اتنا خون بہا کہ آپ ﷺ کے لعلین مبارک
خون سے لت پت ہو گئے۔اپنی جان بچانے کے لئے آپ ﷺ جس جگہ کی پناہ لیتے طائف
کے اوباش اسی جگہ پہنچ جاتے اور آپ ﷺ پر پتھروں کی بارش کر دیتے۔آخرِ کار
اپنی جان بچانے کی خاطر آپﷺ ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے جس سے
سنگ باری کا یہ طوفان تھم گیا۔یہ وہی سفرِ طائف ہے جس میں اﷲ تعالی نے جبر
ائیل امین کو بھیجا کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان طائف کی بستی کو الٹ دے لیکن
رسول اﷲ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا تھا ْآپ ﷺ کا کہنا تھا کہ مجھے یقین
ہے کہ ایک دن اسی بستی سے ایسے لوگ پیدا ہوں گئے جو ایمان کی دولت سے
سرفراز ہو کر اسلا م کی قوت میں اضافہ کا موجب بنیں گئے اور پھر ایسا ہی
ہوا۔،۔
انسانی زندگی میں آزمائشیں اور ا متحانات ہمیشہ سے انسانوں کے اوصاف کو جلا
بخشتے ہیں۔یہ آغاز میں بڑے ترش اور کڑوے لگتے ہیں لیکن صبر کا پھل بڑا
میٹھا ہوتا ہے ۔ان کی وجہ سے انسانوں میں وہ خصا ئص پیدا ہو جاتے ہیں جس کی
وجہ سے یہ ہر میدان میں فاتح بنتے ہیں۔آزمائشوں سے گزرنا ہر انسان کے بس کی
بات نہیں ہوتی۔ معدودے چند لوگ آزمائش کی گھڑیوں سے گزرتے ہیں۔اکثر لوگ آز
مائشوں میں ہمت ہار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ سودے بازی کر لیتے ہیں ،کچھ حالات کے
جبر کے سامنے ٹوٹ جاتے ہیں،کچھ بک جاتے ہیں ،کچھ مفادات کے سامنے سرنگوں ہو
جاتے ہیں اور کچھ سختیوں کو سہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ لیکن ایک بات طے ہے
کہ جس کی نے بھی آزمائش کی گھڑیوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا وہ امر ہو
گیا۔پاکستان کی تاریخ میں معدودے چند ایسے لوگ گزرے ہیں جھنوں نے صداقت کی
خاطر جھکنے سے انکار کر دیاتھا۔پچاس کی دہائی میں مو لانا سید ابو اعلی
مودودی وہ پہلی شخصیت تھے جھنوں نے پھانسی کی سزا پر حاکمِ وقت سے رحم کی
اپیل نہ کی۔ذولفقارعلی بھٹو وہ دوسری شخصیت تھے جھنوں نے سزائے موت پر اپیل
نہ کرنیکا فیصلہ کیا تھا۔ان کا موقف تھا کہ وہ پاکستان کے آئینی حکمران ہیں
اور جنرل ضیا ا لحق ایک غا صب ہے جس نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ
کر لیا ہے لہذا اس غا صب کے سامنے وہ اپیل نہیں کریں گئے۔انھوں نے اپنے اسی
موقف کی وجہ سے پھانسی کا پھندا چوم لیا تھالیکن غا صب کے سامنے اپنی زندگی
کی بھیک مانگنے سے انکار کر دیاتھا۔ان کا یہ جرات مندانہ موقف ان کی ایک
نئی حیات کا پیام بر بنا ۔ اپنی کئی بشری کمزوریوں کے باوجود وہ آج پاکستان
کے غیر متنازع قائد تصور ہوتے ہیں اور اپنی اسی ڈٹ جانے کی ادا کی وجہ سے
ابھی تک عوام کے اذہان میں زندہ ہیں کیونکہ سچائی کی خاطر ڈٹ جانے والے موت
سے بھی مات نہیں کھاتے ۔موجود ہ سیاسی ماحول میں عوام کسی ایسے ہی قائد کے
منتظر ہیں جو ان کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے میدانِ عمل میں نکلے
اور اس فرسودہ اور گھٹیا نظام کو بدل دے۔عوام ایسے لیڈر کی راہ میں آنکھیں
بچھانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔کاش کوئی قائد ایسا نعرہ مستانہ بلند کرے جو
مودوہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا کر لے جائے۔میری ذاتی رائے
ہے کہ اس فرسودہ نظام کو ختم ہونا ہے کیونکہ نا انصافی تا دیر قائم نہیں رہ
سکتی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کوئی مردِ قلند اپنی کشتیاں جلا
کر میدان میں نکلے گا۔اس کا نعرہ مستانہ ہی ہی موجودہ نظام کی شکست ہو گی
،۔۔۔۔۔، |
|