سرسیداحمدخان:تعلیمی افکارکی معنویت

انیسویں صدی فی الجملہ ہندوستانی مسلمانوں کے زوال کی صدی تھی،اس دوران ہمہ گیر سطح پر ایسے انقلابات رونماہوئے ،جنھوں نے مسلمانوں کومن حیث المجموع ایک حاشیہ نشیں قوم بنادیا،ان کی سیاسی سطوت جاتی رہی،فکری ڈھانچے پر ضرب پڑی،علمی مراکزاستعماری طوفان کی لہروں میں تہہ و بالا ہوگئے، معاشرتی طورپرمسلمانوں کے پاس ماضی کی یادگاروں کے علاوہ کچھ نہیں بچا؛یہ سب ہوا،مگراس صدی کی ایک اورخاص بات یہ رہی کہ ہندوستانی مسلمانوں میں فکری و علمی انقلاب کی نشأتِ ثانیہ کی بنیاد بھی بہت جلد پڑگئی،حالات دگرگوں تھے،حادثات قدم قدم پر نئی نئی صورتوں میں پیش آرہے تھے، انگریز جوکبھی تجارت و کاروبارکے مقصدسے یہاں واردہوئے تھے،اب وہ اس ملک کی رنگارنگ طاقت بن چکے تھے اوراس ملک کے اصل شہری ان کے رحم و کرم پر تھے،سیاسی طورپروہ ہندوستان کوغصب کرچکے تھے اوراب ان کاارادہ تھاکہ ہندوستانیوں کے علمی مآثرومنابع کوبھی مکمل طورپرناکارہ بنادیا جائے؛ تاکہ اس ملک میں ان کی حکومت اوریہاں کے باشندوں کواپنے زیردست رکھنے کاعرصہ درازسے درازتر ہوتاچلاجائے،مگرایساہونہیں پایا۔

کیوں کہ انہی دنوں میں دینی ومذہبی محاذپردیوبند(1866ء)کی نموداوراس کے نوسال بعد(1875ء)علی گڑھ کاظہوربطورخاص ہندوستانی مسلمانوں کی حیاتِ نوکی علامت کے طورپرسامنے آئے۔اس سے قطعِ نظرکرتے ہوئے کہ بعض وجوہ سے ان دونوں عظیم تعلیمی اداروں کے مابین خلیج حائل ہوگئی اورکئی بار کوشش کے باوجوددونوں اداروں میں وہ قرب قائم نہیں ہوسکا،جس کوہم آہنگی کانام دیاجاسکے،دونوں عظیم تراداروں نے اپنے اپنے شعبہ ہاے کارمیں نمایاں خدمات انجام دیے اوران کاسلسلہ تاہنوزپوری خصوصیت وقوت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔اِس وقت ہمارے زیرِ تحریرعلی گڑھ تحریک کے بانی سرسیداحمد خان اورہندوستانی مسلمانوں میں تعلیمی روح پھونکنے کے حوالے سے ان کی قابلِ قدرکوششوں کاذکرہے۔

سرسیداحمد خان کے بہت سے مذہبی وفکری رجحانات اورافکار سے اختلاف کے باوجوداس حقیقت کااعتراف ان کے مداح و ناقدین ہر کسی کوہے کہ انھوں نے حالات کے پیشِ نظرمسلمانوں کی تعلیم کاجوخاکہ بنایاتھا،وہ ضروری تھااوروہ چاہتے تھے کہ ہندی مسلمانوں کی نسلِ آیندگاں علم و تہذیب، فکروتدقیق اور کمالات و فضائل کے میدان میں دنیاکی دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہے،ہندوستانی مسلمانوں کی نشأتِ ثانیہ کے حوالے سے سرسیدکانظریہ بالکل واضح،شفاف اور اُجلاتھا،اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے؛یہی وجہ ہے کہ تحریکِ علی گڑھ کے بال و پرنکلنے کے بعدہی اس پر نقدواشکال کاسلسلہ شروع ہوگیاتھا،مگرانھوں نے اپنے مشن کوجاری رکھا،انھوں نے اپنے علم و نظرکے ذریعے سے مسلمانوں کویقین دلانے کی کوشش کی کہ قوموں کامستقبل جن علوم سے وابستہ ہے،ان سے دامن کش رہ کرمسلمان آگے نہیں بڑھ سکتے،احوال بدل رہے ہیں،تہذیبوں کے سانچے اور قومی شناخت کے ڈھانچے بدل رہے ہیں،وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کاغالب طبقہ انگریزی زبان اورانگریزی علوم سے وحشت زدہ ہوکرشدت سے اس سے کنارہ کش ہورہاہے،جبکہ ملک کااکثریتی طبقہ موقع سے فائدہ اٹھاکرتمام تراعلیٰ علمی و عملی شعبوں میں برتری وسرخ روئی حاصل کرتاجارہاہے،ان کی نگاہوں کے سامنے تھاکہ سیاسی طورپرتومسلمان پستی کے شکارہیں ہی؛لیکن اگر ان کے اندربروقت علمی شعورکوبیدارنہ کیاگیا،توآنے والی کئی صدیوں تک شایدانھیں اٹھنے کاموقع نہ ملے،سووہ حالات کی سنگینی کے باوجودچنداحباب وہم مشرب افراد کے ساتھ کام میں جٹ گئے،1859ء میں مرادآبادمیں ایک مدرسہ قائم کیا،جہاں دینی علوم کے ساتھ انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی،1863ء میں غازی پورمیں ایک سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی،جس کامقصدانگریزی علوم کواردواور فارسی میں منتقل کرناتھا؛تاکہ ہندوستانیوں کوبھی نئے علوم سے آشنائی ہواوروہ بھی علمی شعبوں میں رونماہونے والے تازہ انقلابات سے باخبر ہوسکیں،1866ء میں اسی ادارے سے ایک اخبار جاری کیا،جواردووانگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوتاتھااوراس کامقصد برطانوی حکومت کوہندوستانی مسلمانوں کے جذبات واحساسات اوران کے مسائل و ضروریات سے مطلع کرناتھا،1869ء میں سرسیدنے اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلینڈ کاسفرکیااوراس دوران کیمبریج وآکسفورڈیونیورسٹیوں کے طریقہ ہاے تعلیم،مضامینِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کوقریب سے دیکھااورپھر واپس آکرانھوں نے باقاعدہ اے ایم یوکے لیے جدوجہد کرناشروع کی،1875ء میں سرسیدکوابتدائی کامیابی ملی اورایک اسکول قائم ہوا،جسے دوسال بعدکالج کا درجہ دے دیاگیااورپھر1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔

علی گڑھ تحریک یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے برصغیر کے مسلمانوں کی علمی و اجتماعی زندگی پر کیااثرڈالا،اس کااندازہ لگانابہت مشکل نہیں ہے؛کیوں کہ گزشتہ دوصدیوں میں مسلم حلقے سے نکلنے والے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ،بیشترسیاسی رہنما،اعلیٰ درجے کے مفکرین کا رشتہ راست طورپر یابالواسطہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے رہاہے،سرسیداحمد خان کواس اعتبار سے ایک بابصیرت اور دوربیں انسان تسلیم کیاجاناچاہیے کہ انھوں نے حالات کے رخ کووقت رہتے بھانپ لیااور بھانپاہی نہیں؛بلکہ اپنی قوم کواس سے باخبر بھی کیااوراس پر مستزاداُن حالات کا مقابلہ کرنے کے وسائل بھی مہیا کردیے۔اُس وقت جن لوگوں نے ان کی تحریک سے اختلاف کیاتھا،آج ان کے نسلی و فکری وارثین بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبورہیں کہ مسلمانوں کوعصری علوم کے نام پرنئے علمی آفاق تک رسائی سے دوررکھناقابلِ تعریف عمل نہیں تھااوراس کی وجہ سے فی الجملہ مسلمانوں کوہی نقصان ہوا،مذہب و فکرکے بہت سے پہلووں پر سرسیدکی آراقابلِ ردہیں؛لیکن تعلیم کے سلسلے میں ان کاجوشعور تھااوردنیادیکھنے کے بعداُنھوں نے تعلیم کی اشاعت و ترویج کاجوخاکہ مرتب کیاتھا،اس سے ہر باشعور انسان کو حالیہ ڈیڑھ سوسالہ ہندوستانی تاریخ کوسامنے رکھتے ہوئے کم ازکم اب توموافقت کرناہی پڑے گا۔خود وہ لوگ ،جوعلی گڑھ تحریک یاسرسیدکے ابتداء اً مخالف و نقادتھے،انھوں نے بھی جب صورتِ حال کے درون تک دیکھا،تووہ بھی اس کی اہمیت و ضرورت کے قائل ہوگئے اورسرسیدکی جدوجہد کوسراہے بغیر نہ رہے۔لسان العصراکبرالہ آبادی علی گڑھ تحریک کے بہت بڑے نقادرہے،مختلف پہلووں سے انھوں نے اس تحریک کی چٹکی لی،اس کے نظام ِتعلیم پر طنز کیا،نصاب اور واضعینِ نصاب کوآڑے ہاتھوں لیااور اپنے مخصوص لب و لہجے میں ایک سے بڑھ ایک کاٹ داراشعارکہے،ان کی ایک رباعی بہت مشہوراور زبان زدِخاص و عام ہے،جس میں انھوں نے دیوبند،ندوہ اور علی گڑھ کانہایت مختصر الفاظ میں تقابل پیش کیاہے:
ہے دلِ روشن مثالِ دیوبند
اور ندوہ ہے زبانِ ہوش مند
علی گڑھ کی بھی تم اک مثال لو
بس مہذب پیٹ اِک اس کوکہو

اس میں کلام نہیں کہ دیوبندکاکارنامہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ و نگہبانی کے حوالے سے نمایاں ترین ہے اوراپنی تاسیس سے لے کر تاایں دم اس نے دینی علوم کی ترویج اوراس کے مختلف شعبوں کوفروغ دینے میں اہم ترین کارنامہ انجام دیاہے،اسی طرح ندوہ بھی اپنے مقاصدِ تاسیس کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہے،البتہ علی گڑھ کے بارے میں اکبرالہ آبادی کاخیال وہی خیال تھا،جس کا اظہار علماے ہندیااور بہت سے لوگ کرتے تھے اورظاہراً لگتابھی یہی تھا؛لیکن انہی اکبرالہ آبادی کوبہت جلد محسوس ہواکہ سرسیدنے بھی جوکام کیا،اس میں مسلمانوں کی خیر خواہی ہی پوشیدہ تھی اورپھرانھیں کہناپڑاکہ:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں،سیدکام کرتاتھا
نہ بھولوفرق جوہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جوچاہے کوئی،میں تویہ کہتاہوں اے اکبر!
خدابخشے ،بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

مسلمانوں کی تعلیم کے حوالے سے سرسیدکے افکارنے علامہ اقبال کوبھی حددرجہ متاثرکیا،ان کی نظم’’سیدکی لوحِ تربت‘‘کے اشعاراُن فیضانات کاشاہ کارہیں،جواقبال کوسرسیدسے حاصل ہوئے:
مدعا تیرااگر دنیا میں ہے تعلیم ِدیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
تو اگرکوئی مدبر ہے، تو سن میری صدا!
ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا
عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 22085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.