نتائج میں خامیاں ’’استاد‘‘ کو پابند کیا جائے !

ہر سال کی طرح امسال بھی میٹر ک اور انٹر کے نتائج آنے کے بعد اپنے نتائج پر تحفظات کے حوالے سے احتجاجی طور پر سڑکوں سے نکلنے والے طلبا و والدین کے ساتھ ساتھ طالبات بھی کثیر تعداد میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہی ہیں اور اب مرتبہ اس میں تعداد اور شدت زیادہ ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تعلیمی بورڈزمیں مارکنگ کے معاملے میں نااہلیاں بڑھتی جارہی ہیں چیک اینڈ بیلنس کا نظام مفقود ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ زبان خلق نقارہ خدا کے مترداف ہوتی ہے۔ جبکہ بورڈز کے چیئرمینز اور اعلی افسران اس پر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کے ریونیو میں کئی گنا اضافہ بھی اس طریقے سے ہوتا ہے

نتائج کا انتظار اور امتحان میں کامیابی روز اول سے ہی انسان کی سرشت میں شامل رہی ہے اور وہ اپنے افعال و امور کی بنیاد پر نتائج کا خواہاں تو ہوتا ہی ہے بلکہ اس کی خواہش تویہ بھی ہوتی ہے کہ بغیر بیج بوئے کھیتی حاصل ہوجائے اور کچھ لوگ قسمت کے دھنی بھی ہوتے ہیں اور اس طرح سے کامیابی بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن وہ افراد جنہوں نے دن رات محنت لگن سے امتحانات کی تیاری کی ہواور کامیابی کا تناسب اسی فیصد ہو اور نتیجہ فیل آجائے تو اس کیلئے اس روز قیامت سے کیا کم ہوگا اس کی سوچوں تمناؤں اور خواہشوں کو تہہ و بالا کرنے کیلئے کا فی ہوگا۔سر کا گھومنا دنیا کا چکر کھانا اسے بند گلی میں کھڑا کرنے کے مترداف ہوتا ہے ایسے میں اس کے ذہن میں الٹے سیدھے خیالات پرورش پاتے ہیں اور کچھ ان میں سے انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں خود کو نظام تعلیم کی خامیوں ،بداعمالیوں اور بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں

شہزاد احمد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا طالب علم تھامیٹرک میں پچاسی فیصد نمبر حاصل کرنے والے کا فرسٹ ایئر میں فیل ہوجانا اچنبھے کی بات تھی جس پر اس نے خود کشی کرلی ۔افسوس ناک اور دلچسپ بات یہ کہ جب ری چیکنگ کی گئی تو وہ پاس تھا مگر وہ اس دنیا میں نہیں تھااور اسی طرح گذشتہ تین سالوں میں بیس سے زائد طالب علموں نے فیل ہونے پر خود کشی کی تھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ اس حد تک جاتا ہے تو اس میں ذمہ دار کون ہے؟ والدین، گھریلو ماحول، تعلیمی بورڈ، پیپر مارک کرنے والے استاتذہ یا پھر خود طلبہ ۔اگر اس میں کہیں پرقصور طلبہ کا ہے تو لازمی طور تعلیمی بورڈز اور بالخصوص وہ پیپر چیک کرنے والے اساتذہ ہیں جو صرف بنڈل کو مکمل کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ بنڈل جتنے زیادہ چیک ہونگے معاوضہ اتنا ہی زیادہ ملے گا اس سے کسی کا مستقبل تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے کوئی جان سے جاتا ہے تو چلاجائے انہیں تو صرف اور صرف پیسے بنانے سے غرض ہے اور گذشتہ دو تین سالوں سے تو یہ پریکٹس عام ہو چکی ہے اور مارکنگ میں غلطیوں کی بھر مار اس قدر سامنے آئی ہے کہ رہے نام اﷲ کا ۔

قارئین کرام! افسوناک بات یہ ہے کہ اگر سٹوڈنٹ ری چیکنگ (ری کاونٹنگ)کی درخواست دے توپہلے فی مضمون 750روپے بورڈکو ادا کرنے پڑتے تھ اوراب 1100 روپے فی مضمون کے چارج کئے جارہے ہیں اور پھر ایک مخصوص فارمیٹ کا لیٹر سب امیدواروں جاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ہم نے آپ کاپیپر چیک کر لیا ہے اور اس میں کوئی کمی یا خامی نہ پائی گئی ہے پھر بھی اگر آپ خود آکر دیکھنا چاہتے ہیں تو فلاں تاریخ کوبورڈ میں حاضر ہوں اس لیٹر کے بعد نوے فیصد طلبا اسی پر اکتفا کر لیتے ہیں اور جو دس فیصد بورڈ کے دفتر جا دھمکتے ہیں ان میں سے 99فیصد کو اپنے پیپرز میں غلطیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور کچھ کے نمبر ز بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن !لیکن!اس غلط مارکنگ کرنے والے "استاد"سے کوئی بازپرس نہیں کی جاتی اور کیسے ہوکہ ایسے ہی لوگ تو بورڈ کے ریونیومیں اضافے کا سبب بنتے ہیں یعنی خود بھی کھاتے ہیں اور بورڈ کو بھی مستفید کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں بیچارے غریب اور نادار طلبا اور والدین پرچوں کو چیکنگ اور ری چیکنگ کا معیار اور طریقہ کار طلبہ کیلئے اس قدر سنگین اور گھمبیر بن چکا ہے کہ اس معاملہ میں ان کی حالت اس شخص جیسی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہو اور اپنے تیئں تمام ترکوششوں کے باوجود وہ کامیاب نہ ہوسکے تو پھر وہ خود کو موجوں کے حوالے کر دیتا ہے کہ اب قسمت میں بچنا ہوا تو بچ جائیں گے ورنہ موت تو مقدر ہوچکی ہے اس سارے عمل میں ـ"دریاــ"اور مرکزی نقطہ پیپر چیک کرنے والا وہ ٹیچر ہے جو لاکھوں کروڑوں بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے لیکن افسوس اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ایف اے، بی اے پاس کرکے بھرتی ہونے والا ٹیچر سائنس کے مضامین کی چیکنگ کررہا ہوتا ہے جسے آکسیجن اور ہائیڈروجن کی خاصیت تک معلوم نہیں ہوتی کہ ان کے ملنے سے پانی بنتا ہے نتیجتا وہ ٹیچر بہت سے بچوں کے فیل ہونے کا سبب بنتا ہے اور قانون وہی ہے کہ غلط ہو گیا تو ہوگیا اب کوئی چارہ نہیں ۔اس نظام کو تبدیل ہونا چاہئے اور مرتکب ٹیچر کو بھی نشان عبرت بنانا چاہئے

پاکستان میں آئے روز نت نئے تجربات نے تعلیم کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ تعلیم جیسے حساس شعبے کو سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے تختہ مشق بنالیا ہے آئے روز نئے نئے تجربے کرکے تعلیم کو مذاق بنادیا گیا ہے ۔ گذشتہ 67 سالوں میں پاکستان میں آنے والی ہر سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے پیچھے جس طرح سے بیورو کریسی اپنی پالیسیاں تھوپتی ہے اسی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی یہی حال ہے ۔ اگر ہم ترقی یافتہ اقوام کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ ہوگا کہ آج جس مقام پر جنوبی کوریا اور ملائیشیا کھڑے ہیں وہ سب کا سب تعلیم کی ترقی و اہمیت کے سبب ہی ہے جبکہ پاکستان میں ہماری تعلیمی پالیسی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا منظر پیش کررہی ہے ۔آئے روز کے تجربات ہماری ناقص گرفت اورعدم مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔یہ ساری تمہید اور باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اب پھر امتحانات کے نتائج آچکے ہیں اب بھی مسئلہ جوں کا توں ہے۔طلبا و طالبات اپنے نتائج سے مطمئن نہیں۔ری چیکنگ درخواستوں کی بھرمار ہے طلبا اور والدین کے ساتھ ساتھ خود بورڈزکے ممبران بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں اور طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ والدین بھی پوری طرح سے اس میں involveنظر آتے ہیں تو ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ نت نت نئے تجربات کرنے کی بجائے پہلے سے موجود سسٹم کو بہتر بنایا جائے اور ایجوکیشن سیکٹر کو مزید تختہ مشق نہ بنایا جائے تاکہ مزیدطالب علموں کو خودکشی سے بچایا جاسکے اور انہیں ملک وقوم کیلئے معاون و مددگار بنایا جاسکے علاوہ ازیں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے "استاد"کو بھی پابند کیا جائے اور ان کی کوتاہیوں پر ان کی اہلیت کو مستقل ختم کرکے نظام کو شفاف بنایا جائے ۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211783 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More