انسانوں میں ایک گروہ تو منکرینِ ذاتِ باری
تعالیٰ ہے۔جو سِرے سے عقیدۂ توحید پر ایمان لانے سے قاصر ہیں۔دوسرا وہ گروہ
ہے جووجودِ باری تعالیٰ کو مانتے ہیں ۔لیکن کلامِ الٰہی اور نبی آخرالزمان
کو ماننے سے گُریزاں ہے۔تیسرا گروہ ایسا ہے۔جو مسلمان ہے اور رب کے حضور
جزوِایمان کے مطابق دن رات میں ۶۴ سجدے بھی لگاتے ہیں۔ اور ہر سجدہ میں ربی
الاعلیٰ کا اقرار بھی کرتے ہیں۔لیکن افسوس کہ یہی اقرار صرف سجدہ میں زبان
پر وِرد تک ہی رہتا ہے۔ایمان کا تقاضا یہ نہیں ۔بلکہ اقرارٌبااللّسان کے
ساتھ تصدیق ٌبِاالقلب بھی ایمانیات کا تقاضا کرتی ہے۔
جب بحیثیت مسلمان اٰمنتُ بااﷲ، وکُتُبہِ ، وَرُسُلِہ کا اقرار کیا۔تو پھر
لازم ہو گیا کہ زندگی میں اُن احکامات کی بجا آوری کرنا جو اﷲ ربّ العزت نے
کلامِ پاک اور رسولِ کریمﷺ کے ذریعے ہمیں بتائی ہیں۔گویا صرف زبانی ایمان
لانا ہی کافی نہیں ۔بلکہ مسلمان کے ذمہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت
محمّد ﷺ کی حیاتِ طیبہ، ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرامؓ کی مبارک زندگیوں کو
اپنے لیے نمونہ بنائے۔
حیرت کی بات یہ ہے۔کہ مسلمان ہوتے ہوئے اپنے پیارے بیٹوں کے نام عمر ، علی
،عثمان اور حمزہ رکھتے ہیں۔بیٹیوں کے نام عائشہ، کلثوم وغیرہ رکھتے
ہیں۔لیکن عملی زندگی میں یہ لختِ جگر کسی اور کے پرستار بن جاتے ہیں۔انڈین
میوزک کے دلدادہ نکلے۔ تو عمر اور عائشہ نے گانا سیکھنے کیلئے غیر مسلموں
کی شاگردی اختیار کی اور سرِعام گانا گانے لگے۔سٹیج پر ڈانس کرکے لوگوں کے
دل بہلانے لگے۔کہیں ڈرامہ یا فلم میں اچھا کردار ملیں۔تو کہیں اشتہارات میں
دو چار ٹِکے کے بدلے مختلف قسم کے تصاویر شوٹ کیے۔فیشن شوز اور ملبوسات کی
نمائش میں نامی گرامی ڈیزائنرز سے فون کالز موصول ہو جائے ۔یا پھر بالی ووڈ
فلم میں کاسٹ کرنے کیلئے کسی ڈائریکٹر سے ہاں کا اشارہ ملے۔تو گھر پر میڈیا
والوں کا تانتا بندھارہتا ہے۔والدین سے بھی انٹرویوز لیے جاتے ہیں۔اور
والدین کیمرہ کے سامنے اﷲ کے حضور خوشی کے آنسو گھیراتے ہیں۔دِن رات اﷲ سے
دعا کرتے ہیں۔کہ یااﷲ ! میری بیٹی کلثوم کی فلم کو سُپر ہِٹ کر دیں۔یااﷲ!میرے
جِگر گوشے عُمر اور عائشہ کی فلاں البم ریلیز ہو رہی ہے۔اِن کے البم کو
سپپر ہِٹ کر دیں۔انڈیا ،امریکہ اور برطانیہ میں کامیاب میوزک کنسرٹ کا
انعقاد کرکے واپسی پر ماں باپ ائیرپورٹ پر پھولوں کے ہار پہناتے ہیں۔
اُمت کی مسلمان بیٹیاں سلمان خان ، شاہ رُخ خان کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں
بنا کرفخر محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح مسلمان بیٹے مختلف اداکاراؤں کو اپنی
چوائس سمجھتے ہیں۔اپنے جسم کی بناوٹ ، کپڑوں کی ڈیزائن اور ہئیرسٹائل سب
کچھ غیروں کے ساتھ مماثلت کر گئیں۔حال یہ ہے کہ اب برطانیہ کا ایک عیسائی
یا یہودی ، ہندوستان کا ایک ہندواور پاکستان کا ایک ماڈریٹ مسلمان تہذیب
اور پسند و ناپسند میں یکساں ہو گئے۔گویا اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کی
تہذیب کے پرستاربن گئے۔
نوجوان کے ہاتھوں میں تسبیح اور تلوار کی بجائے ٹی وی کی طرح بڑا ٹچ سکرین
موبائل اور کانوں میں ہیڈ فون لگائے سوتے اور جاگتے موسیقی سُننے کا عادی
ہوتا ہے۔پگڑی اور داڑھی مردوں کی پہچان ہوا کرتی تھی۔اب پگڑی تو درکنار،
لڑکی اور لڑکے میں تمیز کرنا بھی مشکل ہو گیا۔گھر کی چار دیواری سے باہر
نکلتے ہوئے شٹل بُرقعہ ہماری مائیں ،بہنیں اسطرح زیب تن کیے ہوتی۔کہ کوئی
ان کی پاؤں کی انگلیوں کو بھی نہ دیکھ پاتا۔غیر محرم کے ساتھ بات کرنا تو
گُناہِ کبیرہ سمجھتے تھے۔امہات المومنین سادگی اور حیاکے پیکر تھیں۔کبھی
میک اپ لگا کر باہر نہیں نکلیں۔ اب مسلمان بیٹی اداکارہ بن کر غیر محرم کے
ساتھ ڈائیلاگ کرتی ہے۔ ہماری گھروں سے تو حیا کا جنازہ نکل گیا۔
بات صرف حیا تک محدود نہیں۔ بلکہ زندگی میں ہر قسم کے لین دین اور چال چلن
میں اُن کے فرامین اور نقشِ قدم پر کاری ضربیں لگائیں۔ہمیں تو زندگی میں
اوامر و ممنوعات کے درس دئیے گئے۔حلال کمانے اور حرام کی کمائی سے بچنے کی
تاکید کی گئی۔آج کوئی دوسرے مسلما ن بھائی کی جائیداد اور دولت پر قابض
ہے۔کوئی جعلی پیر اور تعویذ گنڈہ بن کر سفید کپڑوں میں سادہ لوح عوام کو
لوٹ رہا ہے۔کسی نے حجاجِ کرام کو لوٹا تو کوئی عوام کومولویوں کے اعتماد کا
بھرم دے کرڈبل شاہ کا روپ دھار گئے۔ستم بالائے ستم کہ ایک مسلمان اپنے
دوسرے بھائی کے اُجرتی قتل پر آمادہ ہو گیا۔قرآن مجید میں تو ہمیں یہ بتایا
گیا۔کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اُس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔
اسلام میں سودسے بچنے اور سودی کاروبار کرنے والوں پر لعنت بھیجی گئی
ہے۔مسلمان کو دولت کی پرستارئیت نے اﷲ سے دشمنی پر مجبور کیا۔اب حال یہ
ہے۔کہ سودی کاروبار بھی کرتے ہیں۔اور مسجد میں دعا کرتے ہیں کہ یااﷲ !میری
مال میں برکت عطا فرما۔ پیروکار کسی اور کا ہو پرستاری میں کسی اور کا ہو
گیا۔
نوجوان کی سَر پر ٹوپی رکھی دیکھی گئی۔تو مُلاّ کا نام دیتے ہیں۔بچے کی
تلاوت سُنی تو سَر ہِلادئیے۔لیکن کوئی اچھا سا گانا سُنا گیاتو گلے میں ہار
ڈالنے کے ساتھ ہر محفل میں وہی گانا سُنانے کو کہتے ہیں۔اُمت کے نوجوان
لڑکے اور لڑکیاں عُریانیوں اور فحاشیوں کے دِلرُبا بن گئے۔سفید ریش بوڑھا
بھی موسیقی کے ساتھ ناچنے لگا۔مسلمان ڈالرز، پاؤنڈز، بالی ووڈ اور ہالی ووڈ
تک رسائی میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرنے لگ گیا۔دولت کمانا اور عیش و
عشرت کرنا زندگی کا مقصود بن گیا۔ مسلمان کیلئے محمدﷺ رول ماڈل ہے اور وہ
اپنے لیے کسی اور کو رول ماڈل بنا گیا۔
مسلمان اپنے دین سے منہ موڑ گیا۔تو اُن پر اپنی زندگیاں تنگ کر دی۔بدامنیوں
اور شروفسادنے شہروں اور دیہاتوں میں ڈیرے ڈال دئیے۔خودکشیوں کا رُجحان
بڑھنے لگا۔شوگر،بلڈپریشر،کینسر اور ایڈز جیسی موذی امراض سے پریشان ہو
گئے۔وجہ یہ ہے کہ پروردگارسے ایمانیات میں جو وعدہ کیا گیا تھا۔اُس قول میں
ہم صادق نہیں رہے ۔اورعملی زندگی میں کسی اور کو دل دے بیٹھے۔ |