نیوٹن نے کچھ صدیوں پہلے بتایا تھا کہ ہر
عمل کا ایک یکساں ردعمل ہوتا ہے, سرکاری بابو نے کچھ روز قبل صحافی کو تھپڑ
رسید کرکے بتایا کہ عزت نفس کو ٹھیس پہنچے توجوابا یکساں نہیں دوگنے ردعمل
کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابل کی سٹی گم کر دینی چاہیے اور عوام الناس کی
اکثریت اپنے سرکاری بابو کے اس دلیرانہ ردعمل پر نا صرف خوش ہیں بلکہ
واشگاف لفظوں میں سپورٹ بھی کررہے ہیں اور ہمیں اس پر قطعی کوئی اعتراض
نہیں کہ یہ سرکاری بابو اور عوام الناس کا زاتی معاملہ ہے!!
دوسری طرف صحافی پر بھی فرد جرم عائد ہوچکی ہے اور کیوں نہ ہو سارے عقل کے
اندھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے مذکورہ ویڈیو کو ہر زاویۂ سے ملاحظہ کر چکے
ہیں,منظر میں صحافی, معصوم, خاموش کھڑے سرکاری بابو پر تاک تاک کر کڑوے
جملوں کے تیر پھینک رہی ہے, اسے للکار رہی ہے,اسے اکسارہی ہے,اور عقل کے
اندھے سماج میں اس کو ولن ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے.
منظر کو حقیقت سمجھنے والوں کی عقل بمشکل ہی پس منظر کے سانحوں تک پہنچ
پاتی ہے, اگر سرکاری بابو کا تھپڑ اس کا ردعمل تھاتو کیا یہ ممکن نہیں کہ
صحافی کا جارحانہ انداز بھی پس منظر میں پیش آنے والے سرکاری عملے کے کسی
عمل کا ردعمل ہو,ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر ہمارے سماج میں آن
ریکارڈ کو ہونا اور آف ریکارڈ کو نا ہونا سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس بارے میں
کچھ بھی کہنا وقت اور توانائی کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ,اصل معاملہ جو
درپیش ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی عزت نفس کوئی ایسی ہی انمول چیز ہے کہ اگر
کوئی اس سے چھیڑ چھاڑ کرے تو سماجی اقدار, انسانیت, لحاظ, مروت کو دفنا کر
زخم خوردہ عزت نفس کو ٹھنڈ پہچانے کے لئے جو دل چاہے کرگزرنا چاہیئے؟اور
کیا سرکاری بابو کی طرح یہ حق سرکاری بابو کو اس نازک وقت میں سپورٹ کرنے
والی بیچاری عوام الناس کو بھی حاصل ہے؟
آ ئیے ملاحظہ کرتے ہیں
کراچی کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال...
61 سال صالحہ بی بی تین جوان جہان فرمانبردار بیٹوں کی ماں ,بدقسمتی سے
بیمار رہنے لگیں,بیٹے کےساتھ اسپتال پہنچیں,ٹی بی تشخیص ہونے کے بعد انھیں
ایڈمٹ کرکے متعلقہ شعبہ کی طرف روانہ کر دیا گیا,بیٹا نحیف و نزار ماں کو
لے کر متعلقہ شعبہ کے استقبالیہ پر پہنچا اور استقبالیہ پر موجود سرکاری بی
بی (نرس )کو اپنی آمد کا مقصد بتایا,فراغت سے محظوظ ہوتی کرخت صورت سرکاری
بی بی نےدونوں ماں بیٹے کو اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر حقارت سے بولی
وہاں پھینک دو اس کو
ایک گندے سے بیڈ کی طرف اشارہ کرکے سرکاری بی بی اطمینان سے دوبارہ اپنی
خیالی دنیا میں مشغول ہوگئی,اور بیمار ماں کا بےبس بیٹا چپ چاپ اس کے کریہہ
چہرے کو دیکھ کر رہ گیا کیونکہ اسے اپنی ماں کا علاج کروانا تھا.
سفید پوش طبقہ میں قائم نادرہ کا دفتر
55 سالہ عوامی نمائندہ ہاشم بابا ,زیابیطس کا مریض,شناختی کارڈ گم گیا تھا
دوبارہ بنواناتھا سو کبھی نا ختم ہوتی دکھائی دینے والی لائن میں کھڑےکھڑے
جب ہمت جواب دے گئی تو کچھ دیر کے لئے وہیں سستانے کو بیٹھ گیا,شومئی قسمت
ایک اندھادھند دوڈے چلے آ نے والے سرکاری بابو,بابا جی کو دیکھ نہ سکے,شدید
تصادم ہوا, بابا جی بیچارےپہلے خود ایک طرف کو لڑھک کر زمین بوس ہوئے اور
پھر ان کی عزت نفس کو سرکاری بابو نے انتہائی مہارت سے کفن پہنایا اور
دفنانے کی ذمەداری اپنے ایک دوسرے ساتھی کو دے کر خود چلتے بنے,اس موقع پر
کچھ باضمیر لوگوں نے معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی تو انھیں بھی ان کی
اوقات یاد دلا دی گئی, اس کے بعد کھسیائے کھسیائے بابا جی تھکن سے بے حال
کھڑے کھڑے ہانپتے کانپتے رہے مگر دوبارہ بیٹھے نہیں.
درج بالا واقعات اور ان سے ملتے جلتے سانحات اس سماج کے معمول کا حصہ
ہیں,ہمارے سرکاری اداروں میں بیٹھے عوامی خدمت گار یعنی سرکاری بابو اور بی
بیوں کی کارکردگی اور کرم فرمائیوں سے کون واقف نہیں,کسی نے انھیں زاتی طور
پر بھگتا ہو یانہیں مگر سب جانتے ہیں,عوام الناس کی عزت نفس کا جلوس نکالنا
ہمارے سرکاری بابو اور بی بیوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور یہ کھیل اتنی
مہارت سے کھیلا جاتا ہے کہ پہلے مجمع کو پتہ چلتاہے کہ تماشا ہوا ہے پھر
مجمع کے تاثرات دیکھ تماشائی کو پتہ چلتا ہے کہ وہ تماشا بن چکاہے, اس نازک
وقت میں آپ کی عزت نفس لاکھ سر پٹخے مگر آپ پلٹ کر جواب نہیں دے سکتے گویا
عوام الناس کی عزت نفس بھی ان طرح عوامی ہوتی ہے,اسے کچل دو....مسل
دو....مگر جوابا سن.....فقط سناٹا! ......اورسرکاری بابو کی عزت
نفس....خصوصی عزت نفس....اس پر آنچ آئے تو زناٹے دار تماچہ!
سچ پوچھیں تو جیسے ماں سب کی سانجھی ہوتی ہے,عزت نفس بھی سب کی سانجھی ہوتی
ہے,عزت نفس پر وار ہو تو ہر انسان کی تڑپ یکساں ہوتی ہے مگر احساسات کو
تکلیف پہنچانا چونکہ کوئی جرم ہے,نہ قانون احساسات کے تحفظ کے لئے اپنی
خدمات پیش کرتا ہے,اس لئے ایسے مجرموں کو سزا اپنے بل بوتے پر دینی پڑتی
ہے.
سرکاری بابو نے تو اپنے زور بازو کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مجرم کو سزا دے
دی مگر وہ بیچارے عوام جو نہ جانے کب سے مذکورہ سرکاری بابو اور ان کے سنگی
ساتھیوں کے ہاتھوں مشق ستم بنے ہوئے ہیں,وہ اپنی عزت نفس کو کچلنے کے الزام
میں کس کو تھپڑ ماریں؟
|