تما م تر تشویش کے باوجود یہ بات
کتنی المناک ہے کہ انسانی دانش سب سے مہلک بیماری نفرت کا علاج کرنے میں آج
تک ناکام رہی ہے۔ معروف صحافی سلیم صافی صاحب کا ایک جملہـــ" بدتمیز سوشل
میڈیا " احقیقت پر مبنی ہے۔سوشل میڈیا اس وقت نفرتوں کی آماجگا ہ بن چکا ہے
۔
شہرت یافتہ ماڈل گرل قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کے روابط کو الیکٹرونک
اور سوشل میڈیا پر اس قد ر اُچھالا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے باب میں
ایک اور اضافہ ہوگیا ، اس قتل کی تمام تر ذمہ داری بھی ان ہی دونوں میڈیا
پر عائد کی جاتی ہے نفرتوں کی پبلیسٹی نے ایک صنف نازک کو موت کے گھاٹ اتار
دیا ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی دانش نفرتوں کے پھیلاو کو اپنی
حکمت سمجھ بیٹھی ہے یہ سلسلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری و
ساری ہے۔
خاتون اینکر اور ایف سی اہلکار کی تکرار کے بعد تھپڑ کی گونج پورے پاکستان
میں سُنی گئی اور اس کے بعد طوفان بد تمیزی کا سلسلہ سوشل میڈیا کی علم و
حکمت بنا ہوا ہے اس رویئے پر سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کیا
جاسکتا۔بدتمیز سوشل میڈیا کے حکمت سے مرصع حضرات خاتون کو سر بازار تھپڑ
رسید کرنے کو جائز قرار دینے یعنی دوسرے پہلو سے تشدد کو جائز قرار دینے پر
بضد ہیں۔ خاتون اینکر اور ایف سی اہلکار کے واقعے میں دونوں جانب سے پیشہ
ورآنہ تربیت کا فقدان نظر آرہا ہے اور بات صرف ایک جانب کی کی جارہی ہے
تاکہ ایسے مواقعوں پر تشدد اور عدم برداشت عام ہوجائے ۔ تمام اینکرز حضرات
کو محتاط رہنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہوگی خواہ وہ مرد اینکر ہو یا
خاتون کیونکہ سوشل میڈیا نے تشدد کے حوالے سے صنف نازک کے فرق کو بھی معدوم
کردیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر دن رات ہم جس دین کا کلمہ پڑھتے ہیں اُسی دین میں اگر غلام
کو تھپڑ مار دیا جائے تو اس کا کفارہ اُس غلام کو آزاد کر کے ادا کیا جاتا
ہے اسلام میں حالت جہاد میں بھی مجاہدین پر یہ پابندی عائد کی جاتی ہے کہ
کسی بھی صورت میدان جہاد میں بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارا جائے۔اس
حوالے سے سخت احادیث موجود ہیں۔ کسی بھی دلیل یا تاویل سے تشدد کو جائز
قرار نہیں دیا جا سکتا اور قران و احادیث ہمیں دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک
اور رویہ اختیار کرنے کی تربیت بھی دیتے ہیں ۔
ا س واقعے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ نادرا آفس کے کسی بھی برانچ پرعوام
کیساتھ جو ناروا سلوک برتا جاتا ہے اور جس طرح قانون کی دھجیاں اُڑائی
جاتیں ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں انہی برائیوں کو اُجاگر کرنا چینل
کا اہم مقصد تھا جسے اس واقعے نے سبوتاژ کردیا یا کرو ادیا گیا ۔ دراصل ایف
آئی آر میں نادرا کے برانچ مینجر کو نامزد کرنا چاہئے تھا کیونکہ اگر وہ
اپنے حجرے سے نکل کرمعاملات کو کنٹرول کرتا تویہ افسوسناک واقعہ پیش ہی
نہیں آتا۔افسوس تو اس بات کا ہے ہمارے ملک میں یہ سوچ پنپ چکی ہے کہ خراب
کو وقتی طور پر ہٹا د واور خرابی کو قائم رکھو ، اصل کردار نظر انداز ،
تھپڑ پر واویلاکیا خوب کردار ہے ہمارے میڈیا کا ۔ان پہلووں پر سوشل اور
الیکٹرونک میڈیا کے حکیم جالنوس اور بقراط طرز کے افراد غور فرمانے سے قاصر
ہیں۔ |