سوئزرلینڈ سے نئی بسیں کراچی آئیں
تھیں ،
باوردی و باادب کنڈیکٹر اور ڈرائیور،خودکار دروازے ،
مسافر وں کے سوار ہونے یا اُترنے پر ہی دروازہ کھلتا یا بند ہوتا تھا،
میں ابا کی گود میں بیٹھ تا تھا،کبھی کھڑا ہوکر شیشے سے باہر کے نظارے
دیکھتا،
بڑا ہو ا تو اسٹوڈنٹ کارڈ دکھا کر کم کرایے پر سفر کیا
آج تک یاد ہے وہ سہانا سفر مجھ کو۔
"تم کو کرایہ جیادا لگتا اے تو ماری گاڑی سے اُتر جاو"
منی بس کا کنڈیکٹر مرغا بنے شخص سے لڑ رہا تھا
اس کی بھیانک آواز نے مجھے جگا دیا۔ |