مسلم پرسنل لاء بورڈ ’’اُؤلوالأمر‘‘ کا بورڈ ہے جس کی اطاعت ضروری ہے

ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔ آج کا دور حق و باطل کی کشمکش کا دور ہے۔ حق والوں کے لئے ابتلا و آزمائش کا دور ہے۔ قرب قیامت کی آثار میں یہ بھی ہے کہ دنیا کی ساری قومیں مسلم قوم پر ایسی ٹوٹ پڑیں گی جیسے جنگلی جانور ، بھوکے شیر بکریوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ عالمی سطح پر سیاسی منظرنامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات کے موقع پر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رہنے ہی میں ہمارا ایمان ، اسلام اور ہماری عافیت و سلامتی اور نجات پوشیدہ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی ملحوظِ نظر رہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : اِس امت کو اﷲ کی طرف سے حفاظت و حمایت حاصل رہے گی مگر چند شرطوں کے ساتھ۔ ایک یہ کہ اس امت کے علماء ، حکمراں اور سیاست دانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملائیں کیونکہ اگر یہ علماء و فضلاء اور دینی مقتدر و رہنما جن کو امت مخلص ، بے لوث ، خدام دین سمجھتی ہے اور حق و باطل میں امتیاز کے لئے ان کے قول و فعل کو دلیل جانتی ہے ۔ یہ لوگ سیاسی کھلاڑیوں اور حکمرانوں کی اچھی و بری اور صحیح و غلط ہر بات میں تصدیق و تائید کرنے لگے تو امت اﷲ کی حفاظت و حمایت سے محروم کردی جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اُن دنیا پرست اور عہدہ پرست علماءِ سو کی وجہ سے حق و باطل میں امتیاز نہ رہے گا ، لوگ اُن کی وجہ سے حق کو حق اور باطل کو باطل نہیں سمجھیں گے ۔ بلکہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھ بیٹھیں گے اور دین سے دوری ہوجائے گی۔ بالآخر ہلاک اور تباہ ہوجائیں گے۔ اسی لئے اکثر علماءِ اسلاف نے بادشاہوں کے دربار میں حاضری اور اُن کی طرف سے دیئے جانے والے عہدوں اور مناصب کو قبول کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ امام ابوحنیفہؒ نے ابوجعفر منصور بادشاہ کی طرف سے عہدۂ قضاء پیش کئے جانے پر اُس سے انکار اسی بنیاد پر کیا تھا ۔ الغرض علماء سیاست دانوں اور ظالم حکمرانوں کے غلام ، مطیع و فرمانبردار بن جائیں گے اور اُن کی اچھی اور بری ہر بات میں ہاں میں ہاں ملائے تو اُس وقت اﷲ کی حمایت اور حفاظت اٹھا لی جاتی ہے۔ گذشتہ چند مہینوں قبل چند مٹھی بھر پیٹ بھرو …… اور جیب بھرو …… اس کی واضح مثال رہی ہے۔ لیکن قربان جایئے !حالیہ دور میں اسلامی ، دینی بڑی بڑی تنظیموں ، تحریکوں کے ذمہ دار علماء اور مقتدر ہستیوں کے جن کی مخلصانہ جرئتمندانہ جدوجہد اور بے مثال اتحاد اور اُن کی مثالی قربانیوں کی بدولت مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لئے یہی علمائے دین میمنہ اور میسرہ اور جانباز سپاہی ثابت ہوئے ہیں اور تمام مقتدر ہستیاں اور موقر علماء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مثالی اظہارِاتحاد پر ایوان سیاست میں بھونچال آگیا۔ ابھی تو اتحاد کا صرف اظہار ہوا ہے۔ اتحاد کا عملی مظاہرہ ابھی باقی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ میں رخنہ اندازی یا اسے بالکلیہ ختم کرنے کی نیت سے طلاق ثلاثہ کو موضوع بحث بنایا گیا اور امت میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی غرض سے ایسے حالات پیدا کئے گئے لیکن ہر کسی نے یہ دیکھ لیا کہ مسلمان دین و مذہب کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اور شریعت میں مداخلت اُن کی غیرت کو للکارنے کے مترادف تصور کرتے ہیں اور اس کے خلاف آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہندوستانی ، دینی و اسلامی بے شمار تنظیموں کے معمر ، سن رسیدہ بزرگ علمائے دین اور قابل اعتماد ہستیوں کا حق کے لئے ڈٹ جانا اور ہر طرح کے مقابلے کے لئے تیار رہنا یہی اُن کے ایمانی طاقت کا مظہر ہے اور حضورﷺ کے قول کی روشنی میں ایمان اور بزدلی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں ایمان ہے وہاں بزدلی نہیں ہوسکتی اور جہاں بزدلی ہے وہاں ایمان کا تصور کرنا محال ہے۔ امت مسلمہ کو اپنی عظمت رفتہ کی بحالی اور اسلامی وقار اور دینی تشخص کو باقی رکھنے کے لئے مسلم پرسنل بورڈ کے ہر حکم پر لبیک کہنا اور اُن کے حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہی اولوالامر ہے۔ قرآن حکیم کا واضح حکم یہی ہے کہ ’’اے ایمان والو! اﷲ ، رسولؐ اور اولوالامر کی اطاعت کرو۔‘‘ طلاق ثلاثہ و دیگر شعائر اسلام کے تحفظ کے لئے دستخطی مہم اسی سلسلے کی کڑی ہے ، اسے فرض اور واجب کا درجہ دیتے ہوئے دین اسلام اور شریعت اسلامی میں مداخلت کرنے والوں کو دندان شکن جواب دینے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔

ملک کے موجودہ حالات نہایت دردناک ، الم ناک اور افسوسناک ہے۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے ہر کلمہ گو مسلمان کو یک جٹ ہو کر ان کا سختی سے مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ اظہار یکجہتی ، اتحادی فضا کے عام ہونے کے ماحول کو پروان چڑھانا ، ساتھ ہی عملی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے ۔ آج بھی چند نام نہاد ، ضمیر فروش ، دین فروش ، ملت فروش ، میرجعفر و میر صادق کی سی صفات والے افراد ، قارونی مزاج کے حامل ، پیٹ بھرو …… اور جیب بھرو …… معمولی فائدے کی خاطر ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے احکامات کی خلاف ورزی ان کا شیوہ بنا ہوا ہے لیکن اِن چند مٹھی بھر افراد کی حرکت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ انھیں اُن کے اوقات بتائیں اور ان کا سماجی مقاطعہ کریں اور عملی اتحاد کو تادم آخر جاری و ساری اور باقی رکھیں، تب ہی مسلمانانِ ہند کی شناخت اور اسلامی تشخص کو باقی رکھنے میں ہم کامیاب و کامران ہوں سکیں گے۔ اِس نازک موقع پر ہماری طرف سے معمولی سی غفلت ، سستی و کاہلی اور کوتاہی ایک عظیم نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ غفلت سے بیدار ہونا اور گلشن اسلام کی حفاظت کے لئے سدسکندری بننا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ہندوستانی سطح پر ہر بڑے شہروں سے لے کر معمولی قصبوں اور دیہاتوں میں بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آواز پر لبیک کہنا احتجاجی دھرنے ، مورچے ، ریلیاں اور دستخطی مہم کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ جوان ، بوڑھے عوام ، خواص اور تمام ہی خواتین کو میدان عمل میں آنے کی سخت ضرورت ہے ؂
جب جب بھی وار قوم پر شیطان کرے گا
جم کر مقابلہ یہاں ایمان کرے گا
نہ منصف نہ حاکم نہ حکومت نہ عدالت
اب جو فیصلہ کرے گا وہ مسلمان کرے گا
٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.