صرف اونچی دکانیں ہیں ۔ پکوان بہت پھیکے ۔
ہر طرف ایک مافیہ کاراج ، سچائی اور حقیقت کسی کو نظر نہیں آتی ۔ جھوٹ اور
فریب ، مکاری اور جعلسازی زندگی کے ہر شعبے میں رقصاں نظر آتی ہیں ۔ تعلیمی
ادارے بھی اس خامی سے بچے ہوئے نہیں۔ جو مافیہ یونیورسٹیوں میں اس وقت غالب
آچکا ہے اس کے پاس اونچی دکان تو ہے ۔ پکوان بالکل بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ
تعلیمی اداروں میں سیاست زیادہ اور تعلیم کم نظر آتی ہے۔ ہر طرف Ph.D کا
سرخاب سجائے استاد نما لوگ استاد کی جگہ لے رہے ہیں۔ استاد کیا ہے اس کا
مرتبہ کیا ہے یہ Ph.Dمافیہ کے کسی فرد کو پتہ ہی نہیں ۔ وہ اگر صحیح معنوں
میں استاد ہوں تو اانہیں اپنے مقام کا اندازہ ہو ۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو
استاد مکاؤ مہم چلا رہے ہیں ۔ کم تعلیم یافتہ مگر Ph.D کا تاج سر پر سمائے
احساس کمتری کا شکاریہ لوگ ان کے پاس سب کچھ ہے مگر جونہیں ہے وہ علم ہے ۔
کٹ (Cut) اور پیسٹ (Paste) کا شاہکار ان کے مقالے گریڈوں کی ریس میں تو ان
کے بہت مدد گار ہیں۔ مگر علمی دوڑ میں یہ لوگ شرمناک حد تک پیچھے ہیں ۔ خود
کو اجاگر کرنے کے لیے یہ لوگ سیاسی لوگوں کے محتاج ہیں اور ان سیاسی ان پڑھ
لوگوں کے کا سہ یس۔ایک پروفیسر ہونا بہت بڑی بات ہے۔Ph.D ہونا اس سے بہت
چھوٹی بات ہے۔ پروفیسر میں علم ہوتا ہے، حلم ہوتا ہے، سوچ ہوتی ہے، ویژن
ہوتا ہے۔ جستجو ہوتی ہے، تحقیق ہوتی ہے۔بات کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے بات سننے
کا حوصلہ ہوتا ہے ۔اور وہ بہت کچھ ہوتا ہے جو آج کے Ph.D پروفیسر نماؤں میں
کہیں نظر نہیں آتا۔
موجود ہ حکومت پروہ کام کرتی ہے جس سے اس کی تشہیر ہو اور کوئی ایسا کام
کرنے کو تیار نہیں ہوتی جس کی پبلسٹی سے اس کو بھر پورفائدہ نہ ہو ۔ ہائر
ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو لیپ ٹاپ تقسیم
کئے جانے ہیں ۔ چونکہ کوئی حکومتی عہدید اس وقت میسر نہیں اس لئے یہ لیپ
ٹاپ تقسیم نہیں کئے جاسکتے ۔ ہائر ایجوکیشن کے عہدیداروں کو کسی بڑے آدمی
کی تلاش ہے اور ان کے نزدیک بڑا آدمی وہ ہے جس کا سیاسی اثر رسوخ بڑا ہو۔
جس کے ننام پر اخبار نویس اور صحافی کھینچے چلے آئیں۔ جس کی آمدکی برکت سے
سارا میڈیا موجود ہو ۔ جس سے کل کوئی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے
کہ یہ سب چھوٹی حرکتیں ہیں اور انہیں کرنے والے اور ایسی دکانیں سجانے والے
سبھی چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔
دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں بڑے لوگ استاد ہوتے ہیں ۔استاد ہونا ایک
اعزاز کی بات ہے اور پروفیسر وہ ہوتا ہے کہ جس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ علم
کی ترویج میں خرچ ہوگیا ہو۔ لوگوں کو سکھانا جس کا اوڑھنا بچھونا ہو۔
ہزاروں شاگرد جس سے فیض یاب ہوچکے ہو اورہزاروں جس سے فیض حاصل کرنے کے طلب
گار ہوں۔ پروفیسر ایک مرتبہ ہے جو علم کی ریاضت سے حاصل ہوتا ہے ۔ مگر پی
ایچ ڈی مافیہ نے پروفیسری کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ علم کی آخری ڈگری ایم
۔ اے یا ایم ایس سی ہے ۔ان سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی نہیں ہوتا ۔ اس سے آگے
ریسرچ ہے۔ اہم فل اور پی ایچ ڈی ریسرچ کی ڈگریاں ہیں ۔ ریسرچ کے لئے ایک
خاص مزاج ، ایک مخصوص ماحول اور کسیر سر مایہ درکارہوتا ہے ۔یہ سب چیزیں
ہماری یونیورسٹیوں میں مفقود ہیں۔ دنیا بھر میں جن یونیورسٹیوں میں باقاعدہ
ریسرچ ہوتی ہے ۔ان کا کیا ہوا نظر آتا ہے۔ اتفاق کی بات کہ دنیا کے 90 فیصد
سے زیادہ حقیقی ریسرچر Ph.D دفاعی اداورں سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ ہماری
یونیورسٹیوں کی زیادہ تر ریسرچ ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ میں بارہا
دعویٰ کر چکا ہوں اور کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی یا تو جعلی ہوتی ہے
یا جعلسازی سے ہوتی ہے۔ گریڈوں کی دوڑ میں جس کے پاس جتنی بڑی ڈگری ہوتی ہے
وہ خود کو اتنا بڑا استاد سمجھتا ہے۔ بچوں کو پڑھانے انہیں علم کی دولت سے
مال مال کرنے اور اچھی زندگی گزارنے کا فن دینے کی زیادہ ترپی ایچ ڈی اشخاص
میں صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ کبھی لوگ پروفیسروں کے انداز سے جان لیتے تھے کہ
وہ پروفیسر ہیں۔ موجودہ Ph.D چیخ چیخ کر بتاتے ہیں ـ ’میں پروفیسر ہوں‘ مگر
لوگ حیران ہو کر ان کی شکل دیکھتے ہیں۔
کوئی وقت تھا کہ پروفیسر ہونے کے لیے صلاحیت تجربہ اور علم کا جاننا ضروری
ہوتا تھا۔ اب پروفیسروہ ہوتا ہے جس کے پاس صلاحیت تجربہ اور علم ہو یا نہ
ہو۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری ضرور ہونی چاہیے ۔ اسے سیاست اور جوڑتوڑ کا ماہر
ہونا چاہیے۔ رہا تجربہ اور علم تو بہت سارے پی ایچ ڈی ایسے ہیں کہ جب کسی
کلاس میں جاتے ہیں تو طلبا کا اس بات پر ایمان مزیدپختہ ہوتا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ رازق ہے۔سوچتا ہوں کہ اگر رب نے رزق کو ذہانت سے وابستہ کر دیا ہوتا
تو ان پی ایچ ڈی حضرات کا کیا بنتا ۔ وقت آئے گا کہ حکومت کو یونیورسٹیوں
اور تعلیمی اداروں سے سیاست ختم کرنے کے لئے ذہین لوگوں کی خدمات حاصل کرنا
ہوگی اور پروفیسر ہونے کی پہلی شرط تجربہ ہوگی نہ کہ پی ایچ ڈی۔
موجودہ ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالر بھی عجیب ہیں انہیں کمپیوٹر کے بغیر کام
کرنا ہی نہیں آتا۔ اگر انہیں لیپ ٹاپ نہ ملیں تو وہ کام ہی نہیں کرسکتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بجائے فیلڈ میں کام کر کے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے وہ کمپوٹر سے
بنا بنایا ڈیٹا اٹھاتے ہیں اور سارے تیارشدہ کام کو لفظوں کے ہر پھیر کے
ساتھ اپنے نام سے پیش کرکے ڈگری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن
کے لوگ اگر احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں اور صحیح معنوں میں پڑھنے لکھنے
والے لوگ ہیں، اساتذہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں تو انہیں کسی بڑے آدمی کی
تلاش میں سیاست دانوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے ۔ حقیقی استاد بہت بڑا آدمی
ہوتا ہے۔ کسی اچھے استاد کو تلاش کریں اور اسے تقریب کی صدارت دیکر اپنی
تقریب کو بھی باوقار بنائیں اور بچوں کو بھی احساس دلائیں کہ اس پیشہ
پیغمبری سے بہتر کو ئی پیشہ نہیں اور اس پیشے سے وفا کرنے والوں ،
دیانتداری کرنے والوں سے بہتر اور بڑا کوئی نہیں ہوتا۔ روایت ہے کہ حضور ؐ
ایک دن مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ایک طرف لوگ عبادت میں مصروف تھے اور
دوسری طرف کچھ لوگ دوسروں کو پڑھانے میں۔ حضور رسول کریم ؐ نے کہا کہ دونوں
کام افضل ہیں مگر پڑھانا افضل ترین ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگو ر نے کہا ہے کہ استاد وہ ہے جو اپنی زندگی کو دیئے کی طرح
جلاتا ہے کہ اس کی روشنی میں دوسروں کو راستہ نظر آئے ۔ مگر ہمارے معیار
بدل گئے ہیں ۔ ہمارے ہاں پروفیسروہ ہے جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر فال نکالتا ہے
۔ کبھی کاغذوں کی مدد سے اور کبھی طوطے کی مدد سے۔ پروفیسر وہ ہے جو سرمائے
کے زور پر ایک پرائیوٹ یونیورسٹی بنالیتا ہے ۔ چاہے وہ استاد کی عظمت اور
مرتبے سے بہت گراہو ا خالص کاروباری ہی کیوں نہ ہو ۔ اپنی یونیورسٹی ہے تو
پروفیسر کیاوہ وائس چانسلر بھی ہوسکتا ہے پروفیسر وہ ہے جو کسی بھی داؤ پیچ
کی مدد سے Ph.D کرے ، جعلی ریسرچ پیپر تیار کرکے گریڈوں کی ریس میں آگے آئے
۔ یا پھر یہاں پروفیسر ہونے کے لیے احسن اقبال ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کسی کی
ایسی تیسی جو پوچھے کہ پروفیسر کیسے بنے۔ |