18اکتوبر 2016ء سعودی عرب سے آنے والی اس
خبر نے ساری دنیا میں حیرت کی لہر دوڑا دی کہ سعودی شاہی خاندان کے ایک چشم
وچراغ شہزادے اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بھتیجے کو
اقدام قتل کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی ہے۔12دسمبر2012ء کوسعودی شہزادے
ترکی بن سعود الکبیرسے دارالحکومت ریاض میں ایک جھگڑے کے دوران گولی چلی جو
اس کے دوست نوجوان کو جالگی ۔ عدالتی سماعت کے بعد جب اقدام قتل ثابت ہوگیا
تو مقتول کے لواحقین کو شاہی خاندان نے شرعی تقاضے کے مطابق دیت دے کرراضی
کرناچاہا جسے انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یوں مختصر عرصہ میں مقدمہ
کی کا رروائی مکمل ہونے کے بعد سزائے موت کے فیصلہ پر عمل درآمد کردیاگیا۔
سزائے موت کے بعد شہزادہ خالد بن سعودبن عبدالعزیز نے اس حوالے سے کہاکہ ہم
عدل وانصاف کو کبھی پس پشت نہیں ڈال سکتے ‘چاہے کچھ بھی ہو۔ دنیا کے دولت
مند ترین افراد میں شمار ہونے والے شہزادہ ولیدبن طلال (جنہوں نے کچھ ہی
عرصہ پہلے اپنی ساری دولت اﷲ کی راہ میں خدمت خلق کے کاموں میں وقف کرنے کا
اعلان کیا تھا)نے قرآن کی آیت ’’تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ‘اے عقل
والو‘‘پڑھتے ہوئے کہاکہ ہم نے اﷲ کاحکم پورا کیاہے‘ ہمیں اس کی کوئی
پریشانی یا ملال نہیں بلکہ اس کی خوشی ہے۔
جیل حکام نے بتایاکہ شہزادہ ترکی بن سعودکی سزائے موت پرعمل درآمد نمازظہر
کے بعد کیاگیا جس سے قبل شہزادے نے خاندان کے لوگوں ‘والدین اوربہن بھائیوں
سے ملاقات کی۔اس سے قبل اس نے ساری رات جاگ کر تلاوت قرآن اور نماز میں اﷲ
کے حضور آنسو بہاتے بسر کی۔ایک بار پھر مقتول کے لواحقین کو دیت پر راضی
کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ناکامی ہوئی توسزائے موت پرعمل کافیصلہ
سنادیاگیا۔شہزادہ ترکی بن سعود نے نماز ظہر کے ساتھ نماز عصربھی اداکی
کیونکہامکان تھاکہ جب تک سزائے موت پرعمل ہو‘نمازعصرکا وقت داخل
ہوسکتاہے۔اس کے بعد شہزادے نے اپنی وصیت لکھوائی اورپھر……سزائے موت پرعمل
کرنے کے بعد جسد خاکی لواحقین کے حوالے کردیاگیا توساتھ ہی مقتول کے ورثاء
کو سخت سکیورٹی میں گھرروانہ کیاگیا۔
عدل وانصاف پرمبنی اس تاریخی فیصلے پردنیابھرمیں حیرت کااظہار ہوا تو سعودی
شاہی خاندان کے ایک اورفردشہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود جوکہ ایک بڑے
کاروباری ادارے کے سربراہ ‘ ایک دانشور ‘تجزیہ کار اورلکھاری بھی ہیں‘انہوں
نے عالمی میڈیاکے لیے ایک مضمون تحریر کیاجس کاعنوان تھا’’سعودی شہزادے کو
سزا پرحیرانی کیوں؟‘‘انہوں نے لکھا کہ یہ واقعہ دنیاکے لیے حیران کن
تھالیکن اگریہ کسی کے لیے حیران کن نہیں تھاتووہ سعودی خاندان ہے کیونکہ ہم
جانتے ہیں کہ سعودی شرعی قوانین کی رو سے چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ
ہو‘سزاسے کبھی بچ نہیں سکتا۔ ویسے تو ہمارے نظام میں یہ کوشش بھرپور طورپر
ہوتی ہے کہ ایسے جرم کے بعد سزائے موت کے بجائے معافی یا دیت کے ذریعے
معاملہ نمٹادیاجائے۔اس کے لیے ملک کی انتہائی بارسوخ شخصیات حتّٰی کہ ملک
کے فرماں روا بذات خودبھی فریقین میں صلح کی کوشش کرکے سزائے موت سے بچاؤ
کاراستہ نکالتے ہیں لیکن اگرایسانہ ہوتو سزا پر عمل درآمد ہوتا ہے۔یہاں کسی
کو شاہی خاندان سے بھی تکلیف ہو تووہ براہ راست عدالت جاسکتاہے ۔ملک میں
ایسی بہت سی مثالیں موجودہیں کہ شاہی خاندان کے لوگوں کے مقابل مقدمات میں
عام شہریوں کو فتح وانصاف حاصل ہواہے۔ ہمارایہ فیصلہ شاہی خاندان کو ایک
بارپھراورہمیشہ یاد دلاتارہے گا کہ قانون سے کوئی بالاترنہیں۔ انصاف کا یہ
عمل ہر صورت جاری رہے گا۔ ہم بتاناچاہتے ہیں کہ سعودی شاہی خاندان کی طاقت
اور عزت کی وجہ اس کاعظیم سلسلۂ نسب ہی نہیں بلکہ اتحاد کی وہ طاقت ہے جس
نے اسے ایک لڑی میں پرو دیاہے۔1923ء میں ہماری موجودہ ریاست کی داغ بیل
ڈالی گئی جس نے ترقی کا ایک عظیم سفرطے کیاہے اوریہ سفر جاری رہے گا۔(ان
شاء اﷲ)
سعودی عرب میں سب کے لیے یکساں قانون کے اس عمل نے نبی کریمصلی اﷲ علیہ
وسلم کی مشہورحدیث مبارکہ کی یادبھی پھر سے تازہ کردی ہے جس میں اُمّ
المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: قریش کو مخزومیہ عورت کی حالت
نے فکر مند کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ وہ کہنے لگے: اس کے بارے میں رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا؟ دوسرے صحابہ نے کہا: اسامہ بن زید رضی
اﷲ عنہماکے علاوہ یہ جرأت کون کر سکتا ہے؟ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
محبوب ہے۔ لہٰذا اسامہ رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بات کی (سفارش
کی) تو آپ نے فرمایا: کیا تو اﷲ تعالیٰ کی حد میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات
نے ہلاک کیا: جب کوئی ان کا شریف (بڑا) آدمی چوری کر لیتا تھا تو اسے چھوڑ
دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کر بیٹھتا تھا تو اس پر حد قائم کر
دیتے تھے۔ اﷲ کی قسم! اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کر
لیتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ پھر آپ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم
دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا
: اس کی بہت اچھی توبہ ہوئی، بعد میں اس نے شادی کی۔ وہ میرے پاس آیا کرتی
تھی۔ میں اس کی حاجت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیان کر دیتی تھی۔
(نسائی)
آپ ؐنے فرمایا : اﷲ کی زمین پر اﷲ کی ایک حد جاری کرنے سے اس سے بھی زیادہ
رحمت وبرکت نازل ہوتی ہے کہ جتنی چالیس دن کی بارش سے حاصل ہوتی ہے۔
(الترغیب والترہیب)اسی عدل و انصاف کا حکم اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں یوں
دیا۔’’بیشک اﷲ تعالی عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ النحل)
سعودی عرب میں عدل وانصاف کے اس پیمانے نے وہاں امن وسکون کا زبردست ماحول
پیدا کیاہے ۔ آج وہاں دنیابھرکی اسلام دشمنی و مخالفت اور ہر طرح کی دن رات
کی سازشوں کے باوجود مثالی معاشرہ قائم ہے۔ سعودی عرب میں جن دنوں ایک
شہزادے کو سزائے موت دی جارہی تھی ‘انہی دنوں ہمارے ملک میں دنیانے سپریم
کورٹ سے ہونے والے دوعجیب وغریب فیصلے سنے جن میں سزائے موت کے دو الگ الگ
قیدیوں کو بری کیاگیاتھالیکن ایک بری ہونے والے شخص کو 2سا ل قبل فوت جبکہ
دوسرے بری ہونے والے کو سال پہلے سزائے موت دی بھی جاچکی ہے توساتھ مقدمات
بھی جاری تھے۔ اسلا م آبا د کے رہنے والے مظہر حسین کا تعلق نواحی علاقے
سہالہ سے تھا۔ 1997 میں اس پر اسماعیل نامی شخص کے قتل کا الزام لگا۔ پولیس
نے اسے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔پولیس کی ضمنیوں اور تفتیشی افسر کے
بیان پر مظہر حسین کو سزائے موت سنائی گئی۔مظہر حسین کی والدہ روتی رہی کہ
اس کا بیٹا بے گناہ ہے،والد مدعیوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ بے گناہ شخص کو
سزادلوا رہے ہیں۔مظہر حسین کے دو کمسن بیٹے ماں باپ پر گزررہی قیامت سے بے
خبر تھے۔اس کی بیوی ہرجگہ دہائی دیتی رہی مگرمجسٹریٹ سے سیشن کورٹ،سیشن
کورٹ سے ہائی کورٹ تک ہرعدالت نیپہلے فیصلے کو برقرار رکھا۔مقدمہ لڑتے مظہر
حسین کا والد اور دو چچا دارفانی سے کوچ کرگئے۔ والدہ کی بینائی چلی گئی۔
بیوی زیورات بیچ کر وکیل کی فیس ادا کرتی رہی۔ گرفتاری کے وقت مظہر حسین کے
بڑے بیٹے کی عمر8سال جبکہ چھوٹے بیٹے کی عمر6ماہ تھی جنہوں نے باپ کو ہمیشہ
سلاخوں کے پیچھے ہی دیکھا۔ کیس چلتے چلتے2010میں سپریم کورٹ پہنچاجہاں ملک
کی سب سے بڑی عدالت کو حقائق تک پہنچتے 6سال لگ گئے۔ چند روز قبل سپریم
کورٹ نے ناکافی شواہداور عدم ثبوتوں پر مظہر حسین کی رہائی کا حکم
دیا۔وکلاء رہائی کا پروانہ لیکر جیل پہنچے توپتا چلا کہ مظہر حسین تو 2سال
پہلے فوت ہو چکا ہے۔آخر ہم کب سوچیں گے کہ ہمیں کیسے امن و سکون نصیب ہو
سکتا ہے۔؟کیا اس پر بھی کبھی کو ئی سوچے اور بات کرے گا؟
حق تو یہی ہے کہ اگرآج بھی مسلمان اسلام کا عدل وانصاف کا نظام قائم کردیں
تو انہیں دنیاکی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکے گی کیونکہ انہیں اﷲ کی مددو
تائید حاصل رہے گی۔
|