عام ھی کا نام نھی یہ ایک ایسا عمل
ھے۔جسکے ذرئعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے۔ اور یہ عمل
اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعورکو نکھارنے کا ذریعہ ھوتا
ھے۔ یہ نئ نسل کی وہ تعلیم و تربیت ھےجو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا
شعور دیتی ھے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ھے۔
اسکا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ھے جو
اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمہ دار شہری اپنے فرائض
کو انجام دینے کے اہل ہوں۔جب ہم بار بار اور کثرت کے ساتھ ایک ہی مضمون اور
عنوان کو دھراتے ھیں تو اسکا اثر طالبعلم کے ذہن میں پیدا ہوتا ھے اور
اسطرح تعلیم کا عمل جاری رہتا ھے۔ اصل میں ھم متعلم کو نہ صرف معلومات
فراھم کرتے ھیں بلکہ بحیثیت استاد اسکی مخفی صلاحیتوں کو ایسا نکھار بھی
دیتے ھیں جس سے نہ صرف بذات خود بلکہ وہ معاشرے کے لئے بھی مفید فرد ثابت
ہو سکے۔تعلیم کا کسی قوم کے سماجی نظریات اور ثقافت سے بہت گہرا رشتہ ہے ۔
اس لئے اگر کسی قوم کا نظام تعلیم اپنے مزاج ،مواد اور موضوعات کے اعتبار
سے ترتیب نہ دیا جائے تو نظریاتی رنگ نکھرتا نئں۔ نظام تعلیم کو اقدار کی
گرفت سے آزاد قرار نھی دیا جا سکتا۔ لیکن عہد جدید میں آذاد خیالی اور
انفراد یت پسندی کے علم برداوے تعلیمی دنیا میں اس غلط فہمی کو بڑے زوروشور
سے رائج کر نےکی کوشش کی ہے کہ تعلیم تہذیبی اقداراور معیارات خیروشر کے
سلسلے میں بالکل اسی طرح غیرجانبدار ہو سکتی ہے جسطرح طبعی علوم ۔ اس غلط
تصور کی بنا پر تعلیم کو مذہب اور اخلاقی اقدار سے الگ کر دیا گیا اور یہ
کہا جانے لگا کہ طالبعلم کو اپنی صلاحیت کے مطابق نشوونما پانے کیلئے پوری
آزادی ملنی چاہیے طریق تعلیم ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نہایت مقبول ہوا
لیکن ہم دیکھتے ھیں کہ سماجی اعتبار سے بے عقیدہ تعلیم کے نتائج مجموعی طور
پر انسانیت کیلئے اور خاص طور پر اس ملک کیلئے کسی طرح بھی حوصلہ افزا نہی
ھیں۔ |