بر صغیر کے مسلمان برطانوی سامراج کے خلاف
جس کسمپرسی اور بے کسی کی زندگی گزار رہے تھے وہ بے بسی کی مکمل تصویر تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ رہنما نہیں تھے یا خواہش نہیں تھی سب کچھ تھا مسلمانوں نے
غلامی کو کسی بھی حال میں قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ اپنی سمت کا درست تعین
کرنے میں ابھی تک ناکام تھے انہیں وہ رحیل کارواں چاہیے تھا جو اس قافلے کو
جانب منزل لے کر چلے اور پھر ایسے میں حضرت علامہ اقبال کی شاعری نے کسی
مرہم کا کام کیا اور قوم کے زخموں کو مندمل کرنا شروع کیا انہیں راہ سجھائی۔
کلام اقبال لوگوں کے دلوں میں اترتا گیا اور منزل کا پتہ ملتا گیا۔ یہ شاعر
جو کبھی خدا کے آگے سجدہ ریز ہو کر آہ و زاری کرتا کبھی شکوہ کناں ہو جاتا
کبھی قوم کو ان کی عظمت رفتہ یاد کر واتا کبھی مستقبل کی اُمید دلاتا وہ جو
بھی طریقہ اختیار کرتا اس کی گرمی افکار مردہ دلوں کو زندہ کرتی رہی اور
آخر منزل کا پتہ بھی دیا کہ مسلمانوں کا الگ ملک ہی ان کے مسائل کا حل ہے
اور اسی نظریے کو لے کر مسلمانان ہند نے تاریخ کی عظیم کامیابی حاصل کی اور
اسی کامیابی کا نام پاکستان ہے اقبال کا خواب قائد کی تعبیر اور مسلمانانِ
ہند کی تقدیر ۔ اس ملک کی بنیادوں میں خلوص اور نیک نیتی کا بیش بہا اور
انمول جذبہ شامل ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کی عمارت میں وہ خلوص
اور نیک نیتی شامل نہ ہو سکی جو اس کے بانیان کی خواہش تھی ۔اقبال نے جب
برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ ملک کا تصور دیا تھا تو ان کا مطلب صرف ایک
الگ خطہ زمین نہیں تھا بلکہ ایک اختیار تھا جہاں مسلمان اپنی مرضی کے مطابق
اپنے فیصلے کر سکیں وہ قرون اولیٰ کی ان مسلمان ریاستوں جیسی ایک ریاست ایک
سلطنت ہو جس کے حکمران باوقار اور عوام خوشحال ہوں اسی تصور کو اقبال نے
اپنی شاعری کا موضوع بنایا کہیں مسلمان کو خودی کا درس دے کر اس کے مذہب کی
عظمت کے حوالے سے اُسے جگایا کہیں اسے مرد مومن کی خوبیوں سے آشنا کرنے کی
کوشش کی اور اسے شاہین کی خصلت اپنانے پر مجبور کیا کہیں اُسے مغرب کی
چالوں سے آگاہ کیا کہیں ان کا توڑ سکھایا۔ مسلمان کو اس کی عظمت رفتہ یاد
دلائی اور کہیں زیادہ اغیار پر تھوڑے مسلمانوں کی برتری سے آگاہ کیا کہ اگر
تمہارے آباواجداد دُنیا پر حکومت کر سکتے تھے تو آج تم اپنے ملک میں کیوں
اپنی حکومت نہیں بنا سکتے اور یہی وہ ہمت اور حوصلہ تھا جس نے پاکستان
بنایا خون بہا ،عزتیں لٹیں بچوں نے ماں باپ کو شہید ہوتے دیکھا اور ماں باپ
نے اپنی نظروں کے سامنے اپنے جگر گوشوں کو شہید ہوتے دیکھا تب جا کے کہیں
وہ نقشہ بنا جس کا خواب اقبال نے دیکھا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم
عمارت اس طرز کی نہ اٹھا سکے جیسی اٹھانی چاہیے تھی خرابیاں پیدا ہوتی گئیں
اور بڑھتی گئی ہم ان خرابیوں کے خود ذمہ دار ہیں۔ قائداعظم اور اقبال دونوں
سیاستدان تھے مگر آج کل کے سیاستدانوں کی طرح انہوں نے اپنی ذات کو آگے رکھ
کر قوم کو اندھیروں میں نہیں دھکیلا لیکن آج ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی
مفادات کی خاطر اپنے قومی مفادات کو یوں قربان کر دیتے ہیں جیسے اسی میں ان
کی عظمت ہو۔ ہم نے پچھلی نسلوں کی عظمت کو بڑھانا تو کیا تھا ہم تو اسے نہ
سنبھال سکے نہ برقرار رکھ سکے ۔ ہم نے اقبال کو اور اُس کی شاعری کو صرف
اپنی تقاریر کی خوبصورتی کے لیے ہی سمجھ لیا ہے ہم جب اپنے علم کی دھاک
بٹھانا چاہتے ہیں تو اقبال ہمیں یاد آتے ہیں اور پھر انہیں بڑی سہولت سے
بھلا دیتے ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم نے اقبال کو صرف ایک شاعرہی سمجھ
لیا ہے کسی بھی دوسرے شاعر کی طرح ۔ ان کی شاعری میں موجود پیغام سمجھنے کی
ضرورت ہم محسوس ہی نہیں کرتے اور اکثر اوقات تو یہ کہہ کر جان چھڑالی جاتی
ہے کہ اقبال کی شاعری مشکل ہے ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتی تو کیا ہم اُسے
اپنی نئی نسل کو باقاعدہ طور پر سکھائے اور سمجھانے کے پابند نہیں کیا یہ
ضروری نہیں کہ اقبال انہیں جو آئینہ دکھارہے ہیں وہ ہم انہیں دکھا دیں تاکہ
وہ خود بین بھی ہوں اور خود آگاہ بھی۔ جو پر واز میں کوتا ہی لانے والے رزق
پر موت کو ترجیح دے اور کیا ایسا کرنے سے ہمارا معاشرہ اس عفریت سے نجات
نہیں پالے گا جس نے اس کی جڑوں کو ہلا کر کمزور کر رکھا ہے اور وہ ہے رشوت
یعنی وہ رزق جو یقیناًپرواز میں کوتا ہی لائے گا۔ وہ اُس سجدے کی تلقین
کرتا ہے جو دوسرے تمام سجدوں سے نجات دلادے لیکن ہم ایک مالک کی بجائے ہر
دوسرے کو مالک بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اس کی خوشنودی کے لیے کام کر رہے ہیں،
بت زنار کو اپنا خدا کہنے والے ہی آج قوم کے رہنما بنے بیٹھے ہوئے ہیں، کاخ
امرا کے درودیوار لرزا دینے والی آوازیں دبادی جاتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ
وہ دل ہلا دینے والی بے خوف آواز کہیں نہیں کیونکہ ہر ایک اپنے آپ کو کہنے
کو تو ایمان کے اعلیٰ درجات پر فائز سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ خود بھی
سمجھتا ہے کہ اُس کی آواز میں سوز اور تاثیر کیوں نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہی
یہی ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں جن کو اپنا لیڈر اپنا رہنما کہتے
ہیں جن کو اپنا قومی ہیرو سمجھتے ہیں ان کے اقوال و افعال کو اپنی عملی
زندگی میں اہمیت نہیں دیتے انہیں تقریروں اورتحریروں میں ضرور شامل کرتے
ہیں لیکن اپنی قومی زندگی کے اصول و ضوابط سے دور بہت دور رکھتے ہیں لیکن
حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے رہنماوءں کے دیئے ہوئے اصولوں کو اپنی قومی
زندگی میں شامل نہیں کر لیتے اور اپنی نیتوں اور اعمال میں وہ خلوص پیدا
نہیں کر لیتے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے کہ
ہم اقوام عالم میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جا سکیں۔ |