کچھ عر صہ پہلے کی بات ہے کہ میں نے سیمنار
میں شرکت کی جسکا عنوان تھا کہ " دنیا میں وسائل کا ضائع " اس سیمنار میں
پوری دنیا سے ماہرین آئے تھے جو کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے
اس سیمنار کے دو سیشن تھے۔ پہلے سیشن میں بتایا گیا کہ جب دنیا تخلیق ہوئی
تو تب رب جلیل نے ساتھ میں ہر ایک شے کو بڑی ترتیب اور عمدہ طریقہ سے تخلیق
کیا خوبصورت روشنی ، آسمان ، زمین ، سمندر ، پہاڑ، جنگلات ، چرند پرند
بنائے اور انسان کو اشرف لمخلو قات بنایااور دنیا میں انسان کو آزاد مرضی
کر دیا اور فرمایا جاؤ زمین کو آباد کرو اور میری بنائی ہوئی دنیا کی چیزوں
سے اپنی ضروریات پوری کرو اور میر ی عبادت کروویسے تو انسان کی تخلیق کا سب
سے اہم پہلو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور اسکے ڈر اور خلاف میں رہتے
ہوئے زندگی بسر کرناہے۔ مگر انسان کو زندہ کو رہنے کے لیے آکسیجن ، پانی ،
روشنی اور خوراک کی ضرورت ہوئی ہے تو اس لیے رب نے دنیا کی ابتداء میں ان
تمام چیزوں کو وافر مقدار پیدا کردیا اور اس کے خزانے میں کسی چیز کی کوئی
کمی نہیں ہے سب کچھ اس کے اختیار میں موت ، زندگی ، عزت ، ذلت ، شہرت ،
عروج وزوال اور رزق۔۔۔۔۔ اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا دنیا کی آبادی میں
اضافہ ہوتا چلاگیااور وقت کے ساتھ ساتھ انسان اپنی ضروریات کے مطابق اپنے
رب کے دیے ہوئے وسائل استعمال کرتا رہا آج کے موجودہ دور کے مطابق پوری
دنیاکی آبادی تقریبا سات ارب ہے۔ بیشک خدا تعالیٰ تو ہر انسان کی ضروریات
کو اپنے الہی خزانے سے پورا فرما رہا ہے مگر انسان ہے کہ نا شگراہو تا
جارہا ہے اور صرف اپنی ضرورتوں کو اہمیت دے رہا ہے اور عبادت کوا ہمیت نہیں
دیتا مقررین کے مطابق دنیا میں دن بدن وسائل کی کمی آتی جا رہی ہے کیو نکہ
قدرتی وسائل کا ستعمال بے دریغ اور انتہائی لا پرواہی سے کیا جارہا ہے۔
انسان وسائل کو اپنی عیاشی کے طور پر استعما ل کر رہا ہے۔ دنیا میں تما م
جگہ ایسے انسان مو جو د ہیں جو کہ صرف اور صرف بے وجا وسائل کا استعمال
کرتے ہیں یوں کہنابہتر ہوگاکہ وہ پانی ، خوراک ،جنگلات ، بجلی اور تمام
دیگر وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ جسکی وجہ سے ضرورتیں بڑھ گئی ہیں اور زرائع
کم ہوتے جا رہے ہیںیہا ں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے بھی
انسان کے رویے کو دیکھتے ہوئے ایسے انسانوں کے لیے اپنے رحمت کے دروازے
محدود کردئیے ہیں ۔ مقررین کے مطابق قدیم دور میں حضرت نو ح ؑ کے زمانے جب
لوگوں نے ہر چیز کی ذیادتی کردی اور اپنی مر ضی کے مطابق زندگی گزارنا شروع
اور اپنی بڑی رویشیں قائم کر لیں اور تصور خدا تعالیٰ نے اس قوم پر اپنا
غصب نازل فرما یا اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ انسانوں کے اس رویہ سے نا
خوش ہوتا ہے۔ کئی تر قی یافتہ ممالک نے بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی
کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیا ر کی ہے یہاں پر چین کا ذکر کر تا جاؤ
کہ چین میں دو بچوں کی پیدائش کے بعد تیسرے بچے کی پیدائش پر ٹیکس عائد کر
دیا جا تا ہے وجہ صرف یہی ہے کہ وسائل میں بتدریج کمی ہور ہی ہے اور اس کے
ساتھ لو گوں کو شعور دیا جاتا ہے کہ وہ وسائل کو ضائع مت کر یں بہت سے
ملکوں کی ایسی (باتیں) مثالیں ہمارے مشاہدہ میں آئی ہیں جن کے مطابق ہر روز
بے دریغ اور لاپرواہی سے وسائل ضائع کیے جاتے ہیں جو کہ ایک خطر ناک صورت
ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے یہ وسائل تو ختم ہونے کے برابر ہو جائینگے
اگر ایسے ہی ضائع کر تے رہے۔آپ نے ان وسائل کو ایسے سمجھے جیسے ایک پانی کی
ٹینکی ہے یا ٹینک ہے اس پانی کی ٹینکی کو فل بھرا ہو ا سمجھے اب اگر اس میں
موجود پانی کو حسب ضرورت استعمال کیا جائے تو زیا دہ عرصے تک استعمال کیا
جاسکے گا لیکن اگر ضائع کیا جائے تو کچھ عرصے کے بعد ختم ہو جائیگا اور پھر
مسائل سنگین صور تحال اختیار کر لیں گے۔جیسے ہی سنگین صورتحال پیدا ہوتی ہے
توپھر جرائم میں اضافہ ہو تا ہے انسان کا معیا ر زندگی بری طرح متاثر ہو تا
ہے زندگی کے ہر شعبے میں دشواری پیدا ہوجاتی ہے۔ہماری آنے والی نسل مسائل
کا شکار ہوتی ہیں جن میں خوراک کی کمی ، تعلیم کے مسائل ، صحت کے مسائل ،
بے روزگاری کے مسائل اور آخر کار انسان ان مسائل میں بری طرح جکڑنے کی وجہ
سے اپنی ضرورتوں کو ہی زیادہ اہمیت دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کو جس نے انسان
کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا کم یاد کر تا ہے خداتعالیٰ نے سب کچھ پیدا
کیا اور بیشک اس کے نزدیک کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دنیا میں موجود جو
حکمران ہیں انکے رویوں پر بھی بہت کچھ انحصار کر تا ہے کہ وہ اپنی قوم کے
لئے اچھے اقدامات کر یں جو کہ انکی بہتری ، بھلائی کے لیے ہوں اور انکے
مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی اور شعور بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کر
رہا ہے جیسے کہ چین کی مثال ہے اسی طرح جرمنی میں بھی قانون بنادیا گیا ہے
کہ جو کوئی خوراک ضائع کر ے گا اس کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ سویہ ایک
اچھا اقدام ہے جو کہ حکمران لیتے ہیں اس کالم کے دوسرے سیشن پر بات ہم اگلے
کالم میں کریں گے۔ |