مانیٹرنگ ٹیمیں محکمہ تعلیم اور خدشات

 دھرنے کے شوروغل میں دبی انقلابی اقدامات کی آوازیں حقیقت کا رخ دھارے انگڑائی لے رہی ہیں سال ۲۰۱۳ کے الیکشن کے بعدسے ملکی سیاست میں ’’دھرنا پارٹی ‘‘نے بد تہذیبی ،بد اخلاقی غیر شائستگی اور گالم گلوچ کو جنم دیا ہے ،خیبر پختونخواہ میں ’’انصاف پارٹی‘‘ نے چیدہ چیدہ محکموں پر ہاتھ ڈالا جہاں سے مزاحمت کا سامنا ہوا چلتے بنے اور شرفاء کی پگڑیان اچھلتی رہیں ۔محکمہ تعلیم ،محکمہ صحت،پولیس ،اور پٹوار خانے خصوصی ٹارگٹ تھے جن پر فوکس کیا گیا ۔تاہم زبوں حالی و کسمپرسی کا خاتمہ نہ ہوسکا پٹوار خانہ اور تھانہ کلچر میں بھی نمایاں تبدیلی نہ آسکی۔ محکمہ صحت اور تعلیم میں اس حد تک تبدیلی آئی کہ ملازمیں کی حاضری کو یقینی بنایا گیا ،صوبہ بھر میں مرحلہ وار بائیو میٹرک کی تنصیب اس کی عملی مثال تھی تاہم ہسپتالوں میں پہلے اور کالجوں میں دوسرے نمبرپر سسٹم فلاپ ہوگیا، کہیں تو مسیحاؤں نے توہین آمیز رویہ کہا تو کالجوں میں قوم کے معماروں نے مطالبات کی منظوری کے آگے ڈھال کے طور پر بائیو میٹرک سسٹم مسترد کر دیا ،باقی جہاں تک سکولوں کی بات ہے اسمیں دوسری رائے نہیں کہ اساتذہ پہلے سے زیادہ شریف ہوچکے ہیں ،مانیٹرنگ ٹیموں کی نقل و حرکت نے استاذ کو تعلیمی اوقات میں سکول پابند کردیا ہے اس پر بحث نہیں کہ مانیٹرنگ ہونی چاہیے یا نہیں۔ یہ بات بھی محل نظر نہیں کہ نصاب کی انگریزی میں تنفیذکس حد تک ٹھیک ہے ؟بات یہ ہے کہ مانیٹرنگ کے عمل میں استاذ کی ہتک کہاں تک ہے مانیٹرنگ ٹیموں کا دائرہ کار اوران کی فنڈنگ معنی خیز ہے ،ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ،ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ،اے ڈی او ،ایس ڈی او سرکل کی موجودگی میں مانیٹرنگ ٹیموں کا قیام چہ معنی دارد؟بھاری بھرکم وظیفوں اور’’ کی‘‘ پوسٹوں پر موجود افسران بالا کی موجودگی اور سکول سطح پر ۱۹ سکیل پرنسپل کی تعیناتی کے باوجود قومی خزانے سے مانیٹرنگ کے نام پر فنڈنگ ہر محب وطن کے لئے وضاحت طلب ہے ۔

کیا یہ بات ممکن نہیں کہ ضلعی سطح پر موجود آفیسرز اور سکول کے ہیڈ ماسٹر و پرنسپل کے دائرہ کار میں وسعت لاکر مانیٹرنگ کو ختم کیا جائے اور مانیٹرنگ ٹیموں پر اٹھنے والے بھاری بھرکم اخراجات (دفاتر،سواریاں ،پیٹرول اور تنخواہیں ) میں کمی لائی جائے اس میں دوسری رائے نہیں کہ مانیٹرنگ کے قیام سے ھیڈ ماسٹر و پرنسپل کو پابند کردیا گیا گیا ہے تو صرف ہیڈ ماسٹر و پرنسل صاحبان ہی کے اختیارات میں توسیع کرکے ان کے چیک اینڈ بیلنس کو مظبوط اور فعال کرکے مانیٹرنگ کا خاتمہ کیا جائے پھراس مستزاد یہ کہ مانیٹرنگ کا نظام سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے سے تہہ و بالا ہو جائے گا اور حکومتوں کی ترجیحات اور پالیسیاں تبدیل ہونے میں کوئی وقت نہیں لگتا ۔

مانیٹرنگ کے حوالے سے شنید ہے کہ یہ اساتذہ کی ہتک کا باعث ہیں تو یہ سب ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے اگر اساتذہ پیشے سے مخلص ہوتے تو ان پر یہ عذاب مسلط نہ کیا جاتا بحرحال مانیٹرنگ ٹیموں کے علاوہ ویلج کونسلزکے ممبران ،اسسٹنٹ کمشنر اور ڈسٹرکٹ کمشنر بھی سکولوں میں جانے کو غنیمت سمجھتے ہوئے گاہے بگاہے تشریف لاتے ہیں گویا تمام معاشرتی برائیوں کی آماہ جگاہ تعلیمی درسگاہیں ہیں س۔یکیورٹی کا کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آنے کے بعد قریبی تھانے کا ’’ایس ایچ او ‘‘اور اے ایس آئی دیدہ دلیری کے ساتھ سیکیورٹی سخت کرنے کا بھاشن دینے آجاتا ہے قوم کے نونہالوں کے ذہن میں کیا پیغام دیا جارہا ہے استاذ مجرم ہے ،استاذ کرپٹ ہے استاذ خائن ہے استاذ معاشرتی برائیوں کا محور ہے ۔خدارا: اس قوم پر اور اسممبران تعلیمی اداروں میں آئیں حاکم بن کر نہیں محکوم بن کر۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے کرنے کے بہت سے کام ہیں آپ ہسپتالوں کی حالت زار پر توجہ دیں ،روزانہ کی بنیاد پرہسپتال کی ایمرجنسی جائیں غریبوں کی آہیں اور سسکیاں سنیں۔ تھانے کچہری جائیں ان کا قبلہ درست کریں وہاں تو آپ ہاتھ باندھے سر تسلیم خم کرتے ہوئے جی حضوری کر کے واپس آجاتے ہیں سکول میں دیدہ دلیری کے ساتھ تشریف لاکر اگلے دن کی شہ سرخیوں ’’سکول پر چھاپہ ‘‘کا عنوان پسند فرماتے ہیں یاد رکھیے چھاپے سکولوں تعلیمی اداروں پر نہیں ملک دشمن ،معاشرتی ناسوروں ظالموں اور کرپٹ لوگوں پر پڑتے ہیں اس روش کو تبدیل کیجئے ورنہ آپ حق حکمرانی کھو بیٹھیں گے محترم جناب عمران خان صاحب اگر آپ کو دھرنوں سے فرصت ملے تو کبھی اپنے صوبے میں تشریف لائیں جہاں آپ کی اکثریت ہے ۔ آپ محکمہ تعلیم کی اصلاحات کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں آپ نے اپنے دور اقتدار میں اساتذہ کی کتنی تنخواہیں بڑھائی ہیں ۔آپ سے اچھا دور تو اے این پی حکومت نے گزارا ہے اگر آپ تعلیم کے ساتھ مخلص ہیں توتو اساتذہ کے مسائل کو حل کرنا ہوگاصرف نعروں سے عوام ووٹ نہیں دیتی عملی کام کی اشد ضرورت ہے اگر آپ اپنی حکومت کے احتتام سے پہلے درج ذیل اقدامات اٹھائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ اساتذہ برادری بالخصوص اور ملازمین بالعموم آپ کے ساتھ ہوں گے
۱ بین الاقوامی معیار کے مطابق تنخواہیں جن کا آپ بارہا ذکر کر چکے ہیں۔
۲ اساتذہ کے لئے رہائشی سکیمیں متعارف کرائیں جو آسان بھی ہوں اور سود سے پاک قرض کا حصول بھی ہو
ہسپتالوں کے ساتھ الحاق کروایا جائے ۳ میڈیکل الاؤنس ختم کرکے اساتذہ کے لئے فری علاج کا اعلان کیا جائے اور ملک بھر کے اچھے
۴ اساتذہ کے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول فری کیا جائے ۔۔۔
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 32019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.