1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ
ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے سبھی بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز
تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے
چاروں لڑکوں مرزا غلام ، مرزا خضر سلطان ، مرزا ابوبکر اور مرزا عبداﷲ
کوبھی قید کرلیا ، میجر ہڈسن نے سبھی چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا
گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے
انگریزوں کے تئیں جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری
رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے
کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی
سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ
کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ بہادر
شاہ ظفر نے انگریزوں کی داستان کے لئے 1857ء کی پہلی ہندوستانی جنگ کی
اگوائی کی، انگریز سیناپتی نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کے لئے بلوایا اور
گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ
تھے۔1857ء میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوظفر کے بدلے ابوظفر ،محمد سراج
الدین ، بہار شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی
مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں
کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری ،تلوار
بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے
صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولیخن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک
حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم، اور فوجیوں
قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کئے گئے ثبو ت
بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر
شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ بے
چارگی، ملک دوست، دین دار ، بزرگ 82 سال ہندوستان دھرتی ماں کے لاڈلے بہادر
شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے
لئے رنگون بھیج دیا گیا اس طرح دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی
ملک کی آزادی کیلئے خود کو قربان کرتے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی
کوجاری رکھا۔ اس دو ران انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے
لئے ہندو ستان کی آزادی کے کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہیں۔
رنگون میں6 نومبر ، 1862ء کو اس آخری مغل خاندان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی
کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی۔
سوانح
ابوالمظفرسراج الدین محمد بہادر شاہ غازی۔اکبر شاہ ثانی کا دوسرا بیٹا جو
لال بائی کے بطن سے تھا۔ ان کا سلسلہ نسب گیارھویں پشت میں شہنشاہ بابر سے
ملتا ہے۔ یہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندان مغلیہ کا آخری بادشاہ اور اردو کا
ایک بہترین و مایا ناز شاعر تھا، ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ذوق کی وفات کے
بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
1252 ھ مطابق 1837ء کو قلعہ دہلی میں اس کی تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔
جنگ آزادی ہند 1857ء، اسباب
ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ۔انگریزوں نے اس جنگ
کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ
ایسٹ ایڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے
اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی
کے متعلق شکوک پیدا ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیے جاتے
تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں
بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان
فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔جن
سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں
اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں
نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھی۔
واقعات
جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857ء میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات پر
ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں
ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے
ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخاست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی
یہی واقعہ پیش آیا۔ برخواست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو
انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔ 9 مئی 1857ء کو میرٹھ میں سپاہیوں نے چربی
والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا،دوسپاہیوں منگل پانڈے اور ایشوری
پانڈے نے انگریزوں پر حملہ کردیا۔منگل پانڈے کو گرفتار کرلیاگیا اور اسے
سزائے موت دی گئی۔ ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی
گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی
سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور
میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی
کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اور دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی
کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔
یہی بغاوت بعد میں مغلیہ حکومت کے زوال کا سبب بنی۔
بہادر شاہ ظفر رنگون میں
بہادر شاہ ظفر کے بیٹے
جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ
کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں
مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کو
گرفتار کرلیا بعد میں ایک خودساختہ عدالت کے ذریعے بہادرشاہ ظفر کو جنگ و
جدل کا ذمہ دار قرار دیا گیا(خود ہی جج،خود ہی مدعی،خود ہی گواہ)۔بادشاہ کے
دو ملازمین ماکھن چند اور بسنت خواجہ سرا کو گواہ بنایاگیا۔ان گواہوں کے
بیانات کی بادشاہ نے سختی سے تردید کی۔مگر اسے مجرم قرار دے کر سزا کے طور
پر جلا وطن کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے
اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی
رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ 1858ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ
ہوگیا۔یہاں بھی ظلم وستم کا خوف ناک باب دہرایا گیا۔ دہلی ،لکھنؤ ،کانپور ،
جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آگئے۔ جنگ آزادی
کا نعرہ ’’انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو‘‘ تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے
عناصر شامل ہوگئے جنھیں انگریز سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ
دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا
تھے۔ان میں مفاد پرست فتنہ پرداز لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مذہب کے نام پر
تفرقہ ڈالا۔دکان داروں کو لوٹا گیا کسی گھر یا محلہ کو لوٹنے کے لئے یہ
افواہ کافی تھی کہ یہاں گورا(انگریز) چھپاہوا ہے۔
بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کردیا تھا۔بادشاہ نے
اعلان کیا :نہ تو میں بادشاہ ہوں اور نہ بادشاہوں کی طرح تمہیں کچھ دے سکتا
ہوں۔بادشاہت تو عرصہ ہوا میرے گھر سے جا چکی۔میں تو ایک فقیر ہوں جو اپنی
اولاد کو لے کر ایک تکیہ میں بیٹھا ہوں۔ مگر باغیوں کا اصرار تھا کہ وہ ان
کا بادشاہ بنے۔ بہادرشاہ ظفر نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں
کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ مزید برآں باغیوں نے دہلی میں لوٹ مار اور غارت
گری مچا کر عام لوگوں کی ہمدریاں کھو دی تھیں۔ بادشاہ کے قریبی مصاحب حکیم
احسن اﷲ اور مولوی رجب علی انگریزوں سے درپردہ ملے ہوئے تھے دہلی کے حالات
کی لمحہ بہ لمحہ اطلاعات انگریزوں کو ان کے ذریعے مل رہی تھیں۔ چنانچہ
1857ء کی یہ جنگ آزادی ناکام رہی۔
پھانسی کا ایک منظر
دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔
لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ہزاروں
نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں مجرم بھی تھے اور بے گناہ بھی۔ مسلمان
بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اور ہندو بھی۔ہندوستانیوں کو توپوں کے
سامنے کھڑاکر کے توپ چلادی جاتی جس سے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑ جاتے۔ صرف
ایک دن میں 24 مغل شہزادے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیے گئے مسلمان چن چن کر
قتل کیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو
گئیں۔معمولی شک وشبہ کی بناء پرمسلمانوں کو ان کی جاگیروں سے بے دخل کردیا
گیا جس کی وجہ سے وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ
ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں اولاً جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔ان مظالم کا ذکر
مرزاغالب نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے
قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔انہوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی
انتہا کردی۔مسلمان روزی کمانے کے لئے گھٹیا اور کم تر پیشے اپنانے پر مجبور
ہوگئے۔دفتروں میں انہیں چپڑاسی ،چوکیدار یا باورچی جیسے کام ملتے
تھے۔سرکاری ملازمتوں کے اشتہار میں یہ سطور واضح کردی جاتیں کہ مسلمان اس
عہدہ کے اہل نہیں ہیں۔ ہندو۔سکھ اور عیسائی مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔
مسلمان علماء نے انگریزی زبان پڑھنے اور سیکھنے کو خلاف شرع قرار دیا جس سے
مسلمانوں نے یہ زبان نہیں سیکھی۔جس کی وجہ سے وہ ترقی نہ کر سکے۔ جنگ آزادی
کے دوران چار ہزار انگریزوں کی موت واقع ہوئی جس کے جواب میں 12 لاکھ
ہندوستانیوں کا خون بہا کر بھی انگریز کا غصہ کم نہ ہوا۔انہوں نے اگلے 90
سال تک کبھی ہندوکا اور کبھی مسلمان خون بہایا۔ اگست 1858ء میں برطانوی
پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے
ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔ اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر
عتاب آئے۔ جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں
مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی
دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اس
جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں
میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔
سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹی قائم
کی۔ اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس
کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو
الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد
پڑی۔
1857ء میں انگریز میجر ہڈسن کے ہندوستان کے لئے بولے گئے توہی آمیز الفاظ
دم دمے میں ہم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفر! ٹھنڈی ہوئی اب تیغ ہندوستان کی
کا جواب بہادر شاہ ظفر نے عام ہند وستانی کے دل کی آواز کے شکل میں کچھ اس
طرح دیا تھا۔
غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندو ستان کی
غزلِ ظفر
لگتا نہیں ہے جی مرا اْجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بْلبْل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّہی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
عْم رِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کْنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
|