مراسلہ: فرح انیس ، کراچی
مصر کے خطے جزیرہ نما سینا میں پانچوی کلاس میں پڑھنے والے اسامہ احمد حماد
نے امتحان میں ماں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھا میری
ماں مرگئی اور اس کے ساتھ سب کچھ ختم ہوگیا اسامہ احمد کا یہ جملہ سخت سے
سخت دل کو رلانے پر مجبور کر دے۔ بچے کی ماں سے محبت اس قدر گہری تھی کہ اس
کو لگا اس کی ماں کے جاتے ہی دنیا سے اس کا سب کچھ ختم ہوگیا۔ ماں کے ساتھ
اولاد کا رشتہ اتنا گہرا ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنی سانسوں سے۔ چار برس
قبل میری اولڈ ہوم میں میری بھی ایک ماں سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ماں کسی
دلاور خان اور شہباز خان تھی۔ رئیسہ خاتون جو پچھلے دس برس سے اولڈ ہوم میں
مقیم تھیں۔ ’’میرے دس بچے ہیں میں پھر بھی لاوارث ہوں ‘‘ ان کے اس جملے نے
مجھے اپنی جگہ ساکت کر دیا تھا۔ دلاور خان شہباز خان دس بہن بھائی ہیں جن
کا باپ ان کے بچپن میں ہی وفات پاگیا تھا۔ ماں نے گھر گھر کام کر کے لوگوں
کے کپڑے سی کر اپنے ان دس بچوں کو پڑھا لکھا کر بڑا کیا تو اس ہی اولاد کو
بوڑھی ماں آنکھوں کو کھٹکنے لگی ۔ بیمار ماں کو سنبھالنا مشکل تھا تو اولڈ
ہوم والوں کے حوالے کر کے چل دیے ۔ ایک ماں دس اولاد کی پرورش کر سکتی ہے
پر دس اولاد مل کے ایک ماں کو نہیں دیکھ سکتی۔ اگر ہم ماں کی تیمارداری میں
لگے رہے گے تو ہم تو کسی کام کے نہیں رہے گے اور ان کے علاج میں ہمارا سب
کچھ ختم ہوجائے گا۔ یہ سفاک ترین الفاظ رئیسہ خاتون کی جوان اولاد کے تھے
جن کے لیے رئیسہ خاتون نے نہ دن دیکھا نہ رات بس ان کی ضروریات کو پورا
کرتی گئی۔ میں رئیسہ خاتون کے بوڑھے چہرے کو دیکھنے لگی جہاں پر گزرے ماہ و
سال کی اذیتیں رقم تھی اداس قدموں سے اس اولڈ ہوم سے باہر آگئی جہاں پر
بوڑھے ماں باپ اولاد پیدا کرنے کے جرم لائے گئے تھے۔ اسامہ احمد بچہ ہوکر
بازی لے گیا اس کم عمر بچے کا شعور ان پختہ عمر لوگوں سے زیادہ ہے کیوں کے
وہ یہ جانتا تھا ماں کیا ہوتی ہے ماں تھی اس کے پاس تو سب کچھ تھا ماں کے
ختم ہوتے ہی اس کا سب کچھ ختم ہوگیا۔ بس اتنا کہوں گی کہ لازمی نہیں کہ ماں
باپ کو اولڈ ہوم میں نہ چھوڑ کر آنا ہی کافی ہے۔ بلکہ انہیں گھر میں بھی
ایک توجہ کی ضرورت ہے جس سے تمہیں معلوم ہوگا کہ ماں کی زندگی تم میں اور
تمہاری زندگی ماں میں ہے ۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھی، تیرے ساتھ ایک دنیا تھی |