ظاہرالروایہ (مسائل الاصول)
(syed imaad ul deen, samandri)
فقہ حنفی کی اصطلاح میں ظاہر روایت کو
ظاہرالروایہ اور مسائل الاصول بھی کہتے ہیں۔
ظاہر الروایہ کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ امام محمد کی چھ کتابوں میں سے کسی
ایک کتاب کی روایت کوظاہر روایت کہا جاتا ہے۔ظاہر روایت سے مرادوہ مسائل
ہیں جو اصحاب المذ ہب سے مروی ہیں یعنی سیدنا حسن بن زیادوغیرہ اور وہ
حضرات جنہوں نے سیدنا امام اعظم ، سید نا امام ابویوسف ، سید نا امام
محمدسے روایت کی۔
لیکن مشہور واغلب ظاہر الروایہ کے بارے میں یہ ہے کہ ظاہر الروایہ امام
اعظم،امام ابویوسف اور امام محمد کے اقوال ہی کو کہتے ہیں اور ظاہر الروایہ
کا اطلاق جن کتابوں پر ہے وہ امام محمد کی یہ چھ کتابیں ہیں:
(1) مبسوط (المبسوط) (2) جامع صغیر (الجامع الصغير) (3) جامع کبیر (الجامع
الكبير) (4) زیادات (الزيادات) (5) سیر صغیر (السيرالصغیر) (6) سیر
کبیر(السيرالکبیر)
وجہ تسمیہ :
ان کو ظاہر الروایہاس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کتابیں امام محمدسے ثقہ
راویوں نے روایت کی ہیں اور یہ آپ سے بہ تواتر ثابت یا مشہور ہیں۔
الصغيراور الكبير میں فرق :
امام محمد کی ہر وہ تصنیف جس میں لفظ صغیر لگا ہوا ہے اس میں وہ مسائل ہیں
جن کی روایت امام اعظم سے آپ کے شاگرد امام محمد نے بواسطہ امام ابو یوسف
کی ہے لیکن جن مسائل کی روایت ا مام محمد نے بلاواسطہ اور براہ راست امام
اعظم سے کی ان کے ساتھ کبیر کا لفظ لگایا گیا۔
( رد المحتار على الدر المختار ،مقدمہ ،محمد أمين المشہور ابن عابدين، دار
الفكر بيروت، لبنان)
صاحب البحر نے فرمایا :محمد بن الحسن کی ہروہ تصنیف جس میں لفظ صغیر لگا
ہوا ہے اس میں امام محمد اور امام ابویوسف متفق ہیں بخلاف اس تصنیف کے جس
میں لفظ کبیر لگا ہوا ہے وہ امام ابویوسف پر پیش نہیں کی گئی۔
(''البحرالرائق''،کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،ج۱،ص۵۷۹)
ان میں سے مکرر مسائل کو حذف کر کے علامہ ابو الفضل محمد بن احمد مروزی
معروف بہ حاکم شہید (متوفی: ۳۳۴) نے "الکافی فی فروع الحنفیہ" کے نام سے
مرتب کیا ہے، اسی کی شرح علامہ سرخسی نے "المبسوط" کے نام سے کی ہے، جو
متداول ہے ؛ لیکن اصل متن مستقل طور پر تشنٔہ طبع ہے۔
تصنیفِ امام ِمحمد کی تقسیم :
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ امام محمد رحمہ اللہ کی جملہ کتب بہ اعتبار
سند کے مساوی درجہ کی نہیں ہیں بلکہ علماء کرام نے قابل اعتماد ہونے کے
اعتبار سے انہیں دو قسموں میں منقسم کیا ہے ۔پہلی قسم "کتب ظاہرالروایہ "
اور دوسری قسم "کتب نادر الروایہ " کہلاتی ہیں۔ کتب ظاہر الروایہ سے مراد
وہ چھ مشہور کتابیں ہیں جو فقہ حنفی کی اساس ہیں اور جن پر فقہ حنفی کی
عمارت استوار ہے۔
اول''ظاہر الروایہ''
''ظاہر الروایہ'' کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ان کی نسبت وسند نہایت واضح ومضبوط
ہے۔بایں طور کہ یہ امام محمد رحمہ اللہ سے بطریق تواتر مروی ہیں، یا کم
ازکم انہیں مشہور کا درجہ تو ضرور حاصل ہے۔
دوم"نادر الروایہ"
''ظاہر الروایہ'' علاوہ امام محمد کی بقیہ کتب جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے
اور امام اعظم رحمہ اللہ کے دیگر تلامذہ کی کتابیں "نادر الروایہ" کہلاتی
ہیں۔کیونکہ ان کی نسبت وسند پوری طرح واضح نہیں ہے۔ان کا درجہ کتب ظاہر
الروایہ کے بعد آتا ہے۔
''ظاہر الروایہ''کی اہمیت:
فقہ حنفی میں جو اجتہادات یا اقوال بیان ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ مستند
و معتبر وہ اقوال واجتہادات ہیں جو کتب ظاہر الروایہ میں مذکور ہیں۔بوقت
ضرورت ان کتب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان میں جو مسئلہ مذکور ہو اسی کو
مذہب حنفی سمجھا جاتا ہے دوسری کتب کی روایت جب ان کے خلاف ہو تو چند مسائل
کے سواء وہ غیر معتبر سمجھی جاتی ہے۔
کتب ظاہر الروایہ کے علاوہ بھی امام محمد کی دو کتابیں ایسی ہیں جو بہ لحاظ
استناد اور بہ اعتبار شہرت کتب ظاہر الروایہ سے کسی طرح کم نہیں۔ ان میں سے
ایک "کتاب الآثار "ہے اور دوسری" کتاب الرد علی اہل المدینہ "ہے۔
1کتاب الاصل (المبسوط)
اس کتاب کو الاصل فی الفروع کہا جاتا ہے ۔اور اس کا دوسرا نام المبسوطہے
نوٹ : جہاں فقہ حنفی کی کتابوں میں مطلق مبسوط کا حوالہ ہو اس سے مراد امام
محمد کی مبسوط ہو گی اور جہاں ہدایہ کی شرح میں مبسوط ہو گا اس سے مراد شمس
الائمہ سرخسی کی مبسوط ہوگی، اس کی کئی شروحات لکھی گئیں جیسے شیخ الاسلام
بکر المعروف خواہر زادہ نے شرح لکھی جسے مبسوط کبیر کہا جاتا ہے اس کے
علاوہ شمس الائمہ حلوانی نے بھی شرح لکھی۔ (مؤطا امام محمد، امام محمد بن
حسن شیبانی،صفحہ 33،فرید بکسٹال لاہور)
کتاب الاصل کے نسخہ جات:
"الاصل فی الفروع" کے نام سےنسخہ ترکی کے شہر استنبول میں موجود ہے دوسرا
نسخہ جامع ازہر میں بھی موجود ہے لیکن ناقص ہے۔ استنبول والے نسخہ کی چھ
جلدیں ہیں جن میں سے چار جلدیں دائرہ معارف العثمانیہ حیدرآباد سے شائع ہو
چکی ہیں جو کتاب المعاقل پر ختم ہوتی ہیں۔
نوٹ : فقہ حنفی کا اولین مرجع الامام الفقیہ محمد بن حسن الشیبانی رحمہ
اللہ م189ھ کی تصانیف سمجھی جاتی ہیں، خواہ وہ کتابیں آپ نے امام ابویوسف
یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ م182ھ سے براہ راست روایت کی ہوں، حضرت امام
ابویوسف رحمہ اللہ کے اساتذہ سے اخذ کی ہوں یا اہل عراق کی متداول فقہ سے
مدون کی ہوں۔
انداز تالیف:
کتاب الاصل کی تالیف کا پس منظر نہایت دلچسپ ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے اس
کو منفرد انداز سے جمع فرمایا کہ سب سے پہلے آپ نے نماز کے مسائل کو جمع
کیا اور اس مجموعے کانام ''کتاب الصلوۃ'' رکھا،پھر بیع (خرید وفروخت)کے
مسائل یکجا کرکے اس کا نام ''کتاب البیوع'' رکھا۔اسی طرز پر آپ نے باقی
مسائل جمع کیےیعنی ہر ہر موضوع کے مسائل یکجا کرتے گئے اور موضوع کی مناسبت
سے نام رکھتے گئے۔
امام محمد رحمہ اللہ کے مختلف موضوعات پر جمع شدہ تمام مسائل کو یکجا کیا
گیاتو ایک عظیم وضخیم مجموعہ تیار ہوا، اسی مجموعے کو ''کتاب المبسوط '' کا
نام دیا گیا۔
چنانچہ مشہور حنفی فقیہ المولی مصطفی بن عبداللہ المعروف بحاجی خلیفہ
م1067ھ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"الفہ مفردا، فاولا :الف مسائل الصلوۃ وسماہ ''کتاب الصلوۃ'' ومسائل البیوع
وسماہ :''کتاب البیوع'' وھکذا الایمان والاکراہ، ثم جمعت فصارت مبسوطا وہو
المراد حیث ما وقع فی الکتب :قال محمد فی کتاب فلان ''المبسوط'' کذا (کشف
الظنون ج2ص483)
ترجمہ: امام محمد نے اس کی تالیف علیحدہ علیحدہ کی ہے بایں طور کہ سب سے
پہلے نماز کے مسائل جمع کرکے اس کا نام کتاب الصلوۃ رکھا۔پھر بیع (خرید
وفروخت)کے مسائل یکجا کرکے اس کا نام کتاب البیوع رکھا۔اسی طرح کتاب
الایمان اور کتاب الاکراہ وغیرہ کو جمع کیا۔ آخر میں جب اس تمام ذخیرہ کو
جمع کیا گیا تو یہ مبسوط معرض وجود میں آگئی۔ کتب فقہ میں جہاں یہ ذکر ہوتا
ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے مبسوط میں فرمایا ہے تو وہاں یہی کتاب مراد
ہوتی ہے۔
ترتیب مسائل :
امام محمد رحمہ اللہ اس کتاب کے ہر باب کا آغاز ان آثار سے کرتے ہیں جو ان
کے نزدیک صحیح ثابت ہوتے ہیں اور پھر ان آثار سے ماخوذ مسائل ذکر کرتے ہیں۔
اس کے بعد وارد ہونے والے سوالات واعتراضات کے جوابات پیش کرتے ہیں اور
کہیں کہیں علامہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی م 148ھ کا اختلاف بھی ذکر
کرتے ہیں۔
امام محمد رحمہ اللہ نے فروعی مسائل کو ذکر کرنے میں یہ ترتیب ملحوظ رکھی
ہے کہ اپنے مشائخ اساتذہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام
ابویوسف رحمہ اللہ کے مذہب پر فروعات کو پہلے ذکر کرتے ہیں اور پھربوقت
ضرورت اپنی رائے کو بیان کرتے ہیں۔
آپ نے احادیث وآثار کو بطوردلیل بہت کم ذکر کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس
طبقہ ودور کے فقہاء کرام نے ان احادیث وآثار کو قبول کرلیا تھا جو ان مسائل
کے لیے دلیل اور ماخذ کی حیثیت رکھتے تھے۔ چونکہ المبسوط میں مذکور تمام
مسائل یا تو صراحتاً قرآن وسنت سے ثابت ہیں یا بذریعہ اجتہاد ان کو قرآن
وسنت سے مستنبط کیا گیا ہے۔اس لیے امام محمد رحمہ اللہ نے احادیث آثار کو
ذکر نہیں فرمایا ورنہ اگر ان کو ذکر کیا جاتامستقل طور پر احادیث وآثار پر
مشتمل ایک جلد تیار ہوجاتی۔
مقبولیتِ عامہ:
کتاب الاصل کو امام محمد رحمہ اللہ نے جس جانفشانی، عرق ریزی اور مخصوص
پیرائے میں تصنیف کیا ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے
مشائخ اور صاحب علم وفضل حضرات نے اس کتاب سےفادہ و استفادہ کیا اوردقیق
وپیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں اس سے راہنمائی لی۔اس کتاب کی عظمت
ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ مشہور محدث مجتہد
مطلق الامام الفقیہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ م204ھ نے اس کتاب کو
مکمل حفظ کیا اور اپنی مایہ ناز تصنیف "کتاب الام"اسی طرز پر لکھی۔
اسی طرح مشہور فقیہ ابوالحسن بن داود رحمہ اللہ اسی کتاب کی وجہ سے اہل
بصرہ کے مقابلہ میں اہل عراق پر فخر فرمایا کرتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ
یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس پر فخر کیا جائے، کیوں کہ اس میں موجود صرف حلال
وحرام کے فروعی مسائل کی تعداددس ہزار( 10000)ہے۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ "کتاب المبسوط"کا مطالعہ جب کوئی عالم
پوری توجہ، دھیان اور ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے تو وہ مصنف مرحوم کے وسعت
مطالعہ، بے پناہ قوت حافظہ اور تبحر علمی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تاریخی کتب میں یہ واقعہ موجود ہے کہ اس زمانے کا یہودی جو عربی جانتا تھا
اور مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سے فقہ وشریعت کے معاملات سے بھی کچھ نہ کچھ
واقفیت رکھتا تھا، اس نے جب اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تومتاثر ہوئے بغیر
نہ رہ سکا اور بے ساختہ اس نے یہ جملہ کہا:
" ھذا کتاب محمد کم الاصغر فکیف کتاب محمدکم الاکبر"
کہ یہ تو تمہارے چھوٹے محمد کی کتاب ہے پس بڑے محمد[صلی اللہ علیہ وسلم]کی
کتاب کا کیا عالم ہوگا؟ اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
خصوصیات :
کتاب الاصل کو درج ذیل نمایاں خصوصیات کی بناء پر امام محمد رحمہ اللہ کی
بقیہ تمام کتب پر امتیازی درجہ حاصل ہے۔
1.دلائل پر مغزاور طرز استدلال انتہائی مضبوط ہے۔
2.انداز تحریر انتہائی شگفتہ اور ماخذ نہایت سہل ہونے کی وجہ سے اہل علم کے
لیے زیادہ نفع بخش ہے۔
3. سلاست عبارت اور مسائل کی عام فہم بے غبار تشریح کا التزام کیا گیا ہے۔
4.تمام فقہی مباحث پر مشتمل ہے۔
5.مصنف نے بسااوقات ایک ایک مسئلہ پر کئی کئی فروعات ذکر کی ہیں۔
(ماخوذ ازمحمد یوسف دیوبندی)
2السيرالکبیر
السیر الکبیرخارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر اہم کتاب ہے یہ امام
محمد کی آخری کتاب ہے شمس الائمہ حلوانی اور شمس الائمہ سرخسی نے اس کی شرح
(یہ شرح 5 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔)لکھی علامہ سرخسی نے اوز جند میں
دوران قید اس کا آغاز کیا اور 480ھ میں رہائی کے بعد مرغینان میں پایہ
تکمیل تک پہنچائی۔
وجہ تصنیف''السیر الکبیر'':
امام شمس الائمہ سرخسی''السیر الکبیر''کی شرح میں فرماتے ہیں
کہ''السیرالکبیر''امام محمد علیہ الرحمہ کی آخری تصنیف ہےاس کی وجہ تصنیف
یہ تھی کہ آپ کی کتاب''السیرالصغیر''اہل شام کے ایک جلیل القدر عالم حضرت
عبدالرحمن بن عَمْرْو الاوزاعی کے پاس پہنچی۔ انہوں نے پوچھا یہ کس کی
تصنیف ہے بتایا گیا کہ امام محمد بن الحسن عراقی کی برجستہ ان کی زبان سے
نکلا ''اہلِ عراق کو اس موضوع میں تصنیف سے کیا لگاؤ وہ علم السیراور مغازی
رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کیا جانیں کیونکہ غزوات
زیادہ تر شام میں ہوئےہیں۔ اور تعجبانہ انداز میں فرمایا غزوات کا علم وہاں
کے لوگو ں کو زیادہ ہے نہ کہ عراق والوں کو ۔ امام اوزاعی کی یہ بات جب
امام محمد علیہ الرحمہ کو پہنچی آپ کو بہت شاق گزری اور اس کا عملی جواب
دینے کے لئے''السیرالکبیر''تصنیف فرمائی۔ آپ کی یہ کتاب جب عبدالرحمن بن
عمرو الاوزاعی نے مطالعہ فرمائی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے اور فرمایا:اگر اس
کتاب میں احادیث صحیحہ نہ ہوتیں تو میں کہہ دیتا کہ وہ من گھڑت علم سے کام
لیتے ہیں بے شک اﷲ تعالیٰ نے آپ کی رائے کو صحیح جواب کے لئے متعین فرمایا
ہے۔اﷲ رب العزت نے صحیح فرمایا (وَفَوْقَ کُلِّ ذِیۡ عِلْمٍ عَلِیۡمٌ) اس
کتاب کو تصنیف فرمانے کے بعد حضرت امام محمد علیہ الرحمہ نے اس کوساٹھ
جلدوں (دفتروں) میں لکھوایا اور اس کو خلیفہ وقت کے دربار میں بھجوایا۔
خلیفہ وقت نے اسے بے حد پسند کیا اور اس کو اپنے زمانہ حکومت کا عظیم اور
قابلِ فخر کارنامہ قرار دیا۔
(موعۃ رسائل ابن عابدین، الرسالۃ الثانیۃ:شرح عقود رسم المفتی،ج1،ص19)
3۔السيرالصغیر
فقہ کی اصطلاح میں "سیر" ان قوانین کو کہا جاتا ہے جن کا تعلق جنگ و امن
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات اور مسلم و غیر مسلم کے باہمی روابط سے
ہے قانون کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس موضوع پر کتاب امام محمد نے السیر
الصغیر لکھی (قاموس الفقہ ،جلد اول صفحہ 379،خالدسیف اللہ رحمانی،زمزم
پبلشر کراچی)
ترتیبِ مضامین :
السیر الصغیر میں جہاد، صلح اور اس کے توڑنےکے مسائل ،امان ،مال غنیمت،
فدیہ و غلامی اور جنگوں میں پیش آنے والے دیگر واقعات ہیں۔اس میں وہ مسائل
ہیں جو امام اعظم ابو حنیفہ سے مروی ہیں۔علامہ ابن امیر الحاج حلبی فرماتے
ہیں کی امام محمد نے اکثر کتابیں امام ابو یوسف کو پڑھ کر سنائی تھیں البتہ
جن کتابوں کے آخر میں لفظ الکبیر ہے جیسے المضاربۃ الکبیر،الزراعۃ الکبیر
الجامع الكبير اور السيرالکبیر وہ صرف امام محمد کی تصنیفات ہیں۔اس بنیاد
پر کہا جا سکتا ہے کہ السیر الصغیر امام ابو یوسف کی مصدقہ کتاب ہے۔( مؤطا
امام محمد ،امام محمد بن حسن شیبانی،صفحہ 36،فرید بکسٹال لاہور)
اسی کتاب کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلامک
آباد نے ایک مختصر جلد میں چھاپی ہے۔
4۔الجامع الكبير
الجامع الكبير کا پورا نام الجامع الكبير فی الفروع ہے۔ اسےدو دفعہ امام
محمد نے مرتب کیا دونوں مرتبہ ان کے شاگردوں نے اسے روایت کیا جن میں ابو
حفص کبیر،سلمان جوزجانی ، ہشام ابن عبد اللہ رزای اور محمد ابن سماعہ شامل
ہیں۔دوسری مرتبہ روایت کرتے ہوئے کئی ابواب میں اضافہ کیا اور بعض عبارات
کو تبدیل کیا امام محمد بن شجاع ثلجی فرماتے ہیں امام محمد کی کی کتاب جامع
الکبیر کی طرح کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔
الجامع الكبير کی شروحات:
اس کی کئی شروحات ہیں لیکن "شرح الحصیری الکبیر" سب سے اہم سمجھی جاتی ہے
جو سيدامام جمال الدين محمود بن احمد البخاری، المعروف بالحصيری کی شرح ہے۔
شارحین میں مندرجہ ذیل حضرات نمایاں ہیں
ابو الليث نصر بن احمد السمرقندی الحنفی،فخر الاسلام علی بن محمد البزدوی،
قاضی ابو زيدعبيد الله بن عمر الدبوسی، امام برہان الدين محمود بن احمد
صاحب المحيط، شمس الائمہ: ابو محمد بن عبد العزيز، شمس الائمہ: عبد العزيز
بن احمد الحلوانی، شمس الائمہ: محمد بن احمد بن ابو سہل السرخسی، محمد بن
علی، المشہورابن عبدك الجرجانی،(تحرير فی شرح الجامع الكبير)اوراس کے علاوہ
بھی شارحین ہیں
(كشف الظنون ،مؤلف حاجی خليفہ ناشر: دار إحياء التراث العربی)
5۔الجامع الصغير
الجامع الصغیر کا پورا نام الجامع الصغیر فی الفروع ہے ۔
وجہ تصنیف" الجامع الصغير":
اس کتاب کی وجہ تصنیف یہ ہے کہ حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ نے امام
محمد علیہ الرحمہ سے فرمایا کہ تم میرے لئے وہ تمام روایات ایک کتاب میں
جمع کردو جو تم نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے لی ہیں۔ اس حکم کی تعمیل
میں حضرت امام محمد علیہ الرحمہ نے وہ تمام مرویات ایک جگہ جمع فرمادیں اور
ان کو حضرت امام ابویوسف علیہ الرحمہ کے سامنے پیش کیا جن کو انہوں نے بے
حد پسند فرمایا یہ کتاب (یعنی الجامع الصغیر)۱۵۳۲ پندرہ سو بتیس مسائل پر
مشتمل ایک مبارک کتاب ہے، بقول علامہ بزدوی امام ابویوسف (رحمۃاللہ تعالٰی
علیہ)اپنے جلالت علم و عظمت کے باوجود اس کتاب کو ہمیشہ سفرو حضر میں اپنے
ساتھ رکھتے تھے۔ علی الرازی فرماتے ہیں : جس شخص نے اس کتاب کو سمجھ لیا وہ
ہمارے تمام ساتھیوں میں سب سے زیادہ صاحبِ فہم مانا جاتا ہے۔ اس دور میں
کسی شخص کو اس وقت تک قاضی نہیں بنایا جاتا جب تک اسے پرکھ نہ لیا جائے کہ
وہ الجامع الصغیر کو سمجھتا ہے اور پڑھتا ہے۔(''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''،
الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم المفتی''،ج۱،ص۱۹)
الجامع الصغیر میں مسائل کی اقسام:
اس میں تین قسم کے مسائل ہیں۔
• 1 وہ مسائل جن کی روایت صرف اس کتاب میں ہے
• 2وہ مسائل جو دوسری کتابوں میں بغیر حوالہ کے مذکور ہیں اس میں صراحتا
بتا دیا گیا کہ یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے یا کسی اور امام کا۔
• 3ایسے مسائل ہیں جو دوسری کتابوں میں مذکور ہیں لیکن اس کتاب میں ان کا
ذکر ایسے انداز میں کیا ہے کہ نئے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
اسے ابو عبد اللہ حسن ابن احمد زعفرانی فقیہ حنفیہ نے مرتب کیا۔( مؤطا امام
محمد ،امام محمد بن حسن شیبانی،صفحہ 34،فرید بکسٹال لاہور)
مولانا عبدالحیی فرنگی محلی نے " النافع الکبیر فی شرح الجامع الصغیر" کے
نام سے اس کتاب کی شرح لکھی ہےاور مقدمہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب میں 1532
مسائل آئے ہیں۔
شروحات:
اسکی بہت سی شروحات ہو چکی ہیں شارحین میں امام ابو جعفراحمد بن محمد
الطحاوی، امام ابو بكراحمد بن علی المعروف الجصاص الرازی، ابوعمرواحمد بن
محمد الطبری،امام ابوبكراحمد بن علی المعروف ظہير البلخی.امام حسين بن
محمدالمعروف نجم،تاج الدين عبد الغفار بن لقمان الكردری.امام ظہير الدين
احمد بن اسماعيل التمرتاشی الحنفی،امام قوام الدين احمد بن عبد الرشيد
البخاری،محمد بن علی المعروف الجرجانی،قاضی مسعود بن حسين اليزدی،امام ابو
الازہر الخجندی،ابو القاسم علی بن بندار الرازی الحنفی،حفيده أبو سعيدمطہر
بن حسن اليزدی، ابو محمد بن العدی المصری، جمال الدين عبد الله بن يوسف
المعروف ابن ہشام النحوی، امام فخر الاسلام علی بن محمد البزدوی،امام
ابونصراحمد بن محمد العتابی البخاری، امام، ابو الليث نصر بن محمدالسمرقندی
ہیں۔ (كشف الظنون ،مؤلف حاجی خليفہ ناشر: دار إحياء التراث العربی)
اردو میں اس کی شرح النافع الکبیر کے نام سے عبد الحی فرنگی محلی نے کی ہے
مقام ومرتبہ:
1. بقول علامہ بزدوی امام ابویوسف اپنے جلالت علم و عظمت کے باوجود اس کتاب
کو ہمیشہ سفرو حضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ علی الرازی فرماتے ہیں : جس
شخص نے اس کتاب کو سمجھ لیا وہ ہمارے تمام ساتھیوں میں سب سے زیادہ صاحبِ
فہم مانا جاتا ہے۔ اس دور میں کسی شخص کو اس وقت تک قاضی نہیں بنایا جاتا
جب تک اسے پرکھ نہ لیا جائے کہ وہ الجامع الصغیر کو سمجھتا ہے اور پڑھتا
ہے۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین، الرسالۃ الثانیۃ:شرح عقود رسم
المفتی،ج1،ص19)
6۔ الزيادات
الجامع الكبير میں جو مسائل رہ گئے تھے انہیں امام محمد نے الزیادات کے نام
سے مرتب کیا اور جو مسائل الزیادات میں سے بھی رہ گئے انہیں زیادات
الزیادات کے نام سے مرتب کیا ۔ (قاموس الفقہ ،جلد اول صفحہ 379،خالدسیف
اللہ رحمانی،زمزم پبلشر کراچی)
سبب تصنیف:
سبب تصنیف میں کئی اقوال ہیں جو کہ درج ذیل ہیں
• 1۔امام محمد امام ابو یوسف کی تقریرات (امالی)لکھا کرتے ایک دن ان کی
زبان سے یہ بات نکل گئی کہ ان مسائل کی تخریج میں محمد کو دشواری پیش آتی
ہے۔امام محمد نے یہ کتاب لکھی اور ہر مسئلے میں اپنے استخراج کردہ تفریعات
بیان کیں اور اس کا نام زیادات رکھا یعنی امام ابو یوسف کے لکھوائے ہوئے پر
اضافہ ہیں۔
• 2۔جب آپ جامع الکبیر کی تصنیف سے فارغ ہوئےتو کچھ مسائل آپ کو یاد آئےاس
جامع الکبیر میں بیان نہ کر سکےتو انہیں زیادات میں جمع کر دیا پھر کچھ اور
مسائل یاد آئے جنہیں زیادات الزیادات میں جمع کر دیا
• 3۔امام محمد کے صاحبزادےامام ابو یوسف کی تقریرات لکھا کرتے تھے آپ نے
انہیں اصل قرار دیکرمزید تفریعات بیان کر دیں اور ان ابواب کو مکمل کر دیا
شروحات :
امام قاضی خان ،ابوحفص سراج ہندی،اور ابن نجیم نے اس کی شرح لکھی حاکم شہید
نے اس کی مختصر اصول الزیادات لکھی (مؤطا امام محمد ،امام محمد بن حسن
شیبانی،صفحہ 37،فرید بکسٹال لاہور) |
|