طبقات الفقہاء(فقہاء احناف کے سات طبقات)
(syed imaad ul deen, samandri)
ایک مفتی کے لئے جس طرح طبقات
المسائل اور معتبر و مستند کتب فقہیہ اور فتاویٰ کا علم ہونا ضروری ہے اسی
طرح اس کے علم میں یہ بات بھی ہونی چاہے کہ طبقات الفقہاء کتنے ہیں اور کس
فقیہ کا درجہ کیا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہ کس فقیہ کا قول معتبر اور
قابلِ اِستناد ہے اور کون درجہ اعتبار میں نہیں ۔
علمائے ماہرین فقہ و شریعت نے فقہاء کے سات طبقات بیان فرمائے ہیں۔
۱- طَبَقَۃُ الْمُجْتَھِدِیْنَ فِی الشَّرْعِ:
تعریف : مجتہد فی الشرع وہ حضرات ہیں جنہوں نے اجتہاد کرنے کے قواعد بنائے
، جیسےآئمہ اربعہ۔
شرح :وہ حضرات جو براہ راست ادالۂ اربعہ(قرآن وسنت ، اجماع وقیاس) سے اصول
و کلیات اور جزئیات و احکام مستنبط کرتے ہیں ، جیسے ائمہ اربعہ اور ان کے
درجہ کے مجتہد ین، ان کو مجتہدین مطلق بھی کہا جاتا ہے ۔
صاحب المرجع السابق نے فرمایا آئمہ اربعہ اور وہ لوگ جو قواعد اصول کی
تاسیس میں نیز اَدِلہ اربعہ سے احکام فرعیہ کے استنباط میں اصول و فروع میں
بغیر کسی اور کی تقلید کے ان ہی ائمہ اربعہ کے مسلک پر ہی رہے۔(المرجع
السابق، ص ۱۱)
۲- طَبَقَۃُ الْمُجْتَھِدِیْنَ فِی الْمَذْھَب:
تعریف : مجتہد فی المذہب وہ حضرات ہیں جوقواعد میں حضرت امام اعظم رضی اللہ
عنہ کے مقلد ہیں اور مسائل میں خود مجتہد ہیں ۔
شرح : توہ حضرات فقہاء ہیں جو قواعد و کلیات میں تو اپنے استاد اور مجتہد
مطلق کے پابند ہوتے ہیں ، لیکن جزئیات اور فروعی مسائل میں استاد کی تقلید
چھوڑ دیتے ہیں ، اس تصریح کے مطابق اس زمرے میں امام ابو یوسف اور امام
محمد وغیرہ کو داخل ماننا محل نظر ہے ، کیونکہ ان حضرات نے فروع کی طرح
اصول میں بھی اجتہادات کئے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے اصول سے اختلاف کیا
ہے ، اسلئے شوافع کے یہاں جو مجتہد منتسب کی تعریف ہے وہ زیادہ صحیح معلوم
ہوتی ہے ان حضرات نے یہ تعریف کی ہے کہ جو حضرات رائے اور دلیل رائے ، فروع
اور استنباط کے اصول میں کسی امام کے مقلد نہ ہوں ، البتہ ان کے اجتہاد
استنباط کا نہج کسی صاحب مذہب امام کے مطابق ہو۔ (مقدمہ المجموع ص:۴۴)
اس تعریف کے مطابق ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر کو مجتہد منتسب قرار
دیا جاسکتا ہے ۔
علامہ شامی فرماتے ہیں امام ابو یوسف، امام محمد اور جملہ تلامذہ امام ابو
حنیفہ رضی اللہ عنہم ،یہ حضرات اس امر کی قدرت رکھتے تھے کہ ادلہ اربعہ سے
اپنے استاد حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے مستخرجہ قواعد واُصول کے
مطابق احکام شرعیہ کا استخراج کرسکیں۔(''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''،
الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم المفتی''،ج۱،ص۱۱)
۳- طَبَقَۃُ الْمُجْتَھِدِیْنَ فِی الْمَسَائِل:
تعریف :مجتہد فی المسائل وہ حضرات ہیں جو قواعد اور مسائل فروعیہ دونوں میں
مقلد ہیں ، مگر وہ مسائل جن کے متعلق ائمہ کی تصریح نہیں ملتی ، ان کو قرآن
و حدیث وغیرہ دلائل سے نکال سکتے ہیں ، جیسے امام طحاوی اور قاضی خان ، شمس
الائمہ سرخسی وغیرہم۔
شرح : مذہب میں کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں اصحاب مذہب کی
کوئی صراحت منقول نہیں ہوتی، توجو حضرات فقہاء مذہب کے قواعد وضوابط کو
سامنے رکھ کر غیر منصوص مسائل کے احکام متعین کرتے ہیں انہیں مجتہدین فی
المسائل کا لقب دیا جاتا ہے ، یہ حضرات اصول و فروع کسی چیز میں بھی اپنے
امام سے الگ راہ اپنانے کا حق نہیں رکھتے اس طبقہ میں
اسی سلسلہ میں صاحبِ المرجع السابق فرماتے ہیں کہ یہ وہ حضرات ہیں جو ایسے
مسائل کا استنباط جن کے بارے میں کوئی روایت صاحبِ المذہب سے نہیں ملتی
اپنے آئمہ کرام کے مقرر کردہ قواعد و اُصول کے مطابق کرتے ہیں جیسے امام
احمد بن عمر خصاف (متوفی: ۲۶۱ھ) امام طحاوی (متوفی:۳۲۱ھ) امام ابو الحسن
کرخی (متوفی:۳۴۰ھ) شمس الائمہ حلوانی (متوفی: ۴۴۸ھ) شمس الائمہ
سرخسی(متوفی:۴۸۳ھ)فخرالاسلام بزدوی(متوفی:۴۸۲ھ) اور علامہ فخر الدین قاضی
خاں (متوفی:۵۵۲ھ) وغیرہ کے اسماء قابل ذکرہیں۔،یہ حضرات نہ اصول میں نہ
فروع میں کسی میں بھی اپنے امام کی مخالفت نہیں کرسکتے۔( المرجع السابق،
ص۱۲)
۴-طَبَقَۃُ اَصْحَابِ التَّخْرِیْجِ مِنَ الْمُقَلِّدِیْنَ:
تعریف : اصحاب التخریج وہ حضرات ہیں جو اجتہاد تو بالکل نہیں کرسکتے ہاں
ائمہ میں سے کسی کے مجمل قول کی تفصیل فرما سکتے ہیں ، جیسے امام کرخی
وغیرہ ۔
شرح : وہ فقہاء کرام جو اجتہاد کی صلاحیت تو نہیں رکھتے، لیکن اصول ومآخذ
کو محفوظ رکھنے کی بناء پر اتنی قدرت ضرور رکھتے ہیں کہ ذووجہیں یامجمل قول
کی تعیین و تفصیل کرسکیں، اور نظائرفقہیہاورقواعد مذ ہب پر نظر کر کے اپنی
ذمہ داری انجام دینے کے اہل ہوں، انہیں اصحاب تخریج کہا جاتا ہے ۔
صاحبِ المرجع السابق فرماتے ہیں کہ امام جصاص رازی (متوفی: ۳۷۰ھ)وغیرہ یہ
حضرات اجتہاد پر بالکل قادر نہیں لیکن چونکہ یہ جملہ قواعد واُصول کا پورا
علم اور مسائل و قواعد کے ماخذ سے پوری واقفیت رکھتے تھے اس لئے ان میں یہ
صلاحیت تھی کہ ایسے اُمور کی تفصیل بیان کردیں جہاں امام مذہب سے ایسا قول
مروی ہو جو مجمل ہے اور اس میں دو صورتیں نکل رہی ہوں یا کوئی ایسا قول جو
دو چیزوں کا محتمل ہے اور وہ صاحب ِ مذہب سے یا ان کے تلامذئہ مجتہدین میں
سے کسی ایک سے مروی ہے اس کی تشریح و تفصیل اُصول و قیاس اور امثال و نظائر
کی روشنی میں بیان کردیں صاحبِ ہدایہ نے جہاں کہیں کہا ہے کذا فی تخریج
الکرخیی کذا فی تخریج الرازی ،اس کا یہی مطلب ہے جوابھی بیان کیا گیا ہے۔(
المرجع السابق، ص۱۲)
۵-طَبَقَۃُ اَصْحَابِ التَّرْجِیْجِ مِنَ الْمُقَلِّدِیْنَ:
تعریف : اصحاب الترجیح وہ حضرات ہیں جو امام صاحب کی چند روایات میں سے بعض
کو ترجیح دے سکتے ہیں
شرح :یعنی اگر کسی مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے دو قول
ہوں ، تو ان میں سے کسی ایک قول کو ترجیح دےسکتے ہوں ، اسی طرح جہاں امام
صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہو تووہاں بھی کسی ایک کے قول کو ترجیح دے سکتے
ہوں ۔
دراصل اس طبقہ کے فقہاء کاکام یہ ہے کہ وہ مذہب کی بعض روایات کو دوسری
روایات پر اپنے قول ہذا اولی،ھذا اصح، ہذا اوضح وغیرہ کلمات کے ذریعہ ترجیح
دیتے ہیں، اس طبقہ میں ابو الحسن قدوری(متوفی:۴۲۸ھ) صاحب ہدایہ، علامہ
مرغینانی(متوفی:۵۹۳ھ) وغیرہ شامل ہیں۔
المرجع السابق میں ہے کہ امام ابوالحسن قدوری متوفی ۴۲۸ھ ،صاحب الہدایہ
متوفی ۵۹۳ھ وغیرہما۔ ان کا مقام یہ ہے کہ یہ حضرات بعض روایات کو بعض پر
تفضیل دینے کی اہلیت رکھتے تھے جیسے وہ کسی روایت کی تفضیل میں فرماتے ہیں
ھذا أولٰییا ھذا أصح یا ھذا أوضح یا ھذا أوفق للقیاس وغیرھا۔( المرجع
السابق، ص۱۲)
۶- طَبَقَۃُ الْمُقَلِّدِیْنَ الْقَادِرِیْنَ عَلَی التَّمْیِیْزِ:
تعریف :اصحاب التمیزوہ حضرات ہیں جو ظاہر مذہب اور روایات نادرہ اسی طرح
قول ضعیف اور قوی اور اقویٰ میں فرق کرسکتے ہیں کہ اقوال مردودہ اور روایات
ضعیفہ کو ترک کردیں ، اور صحیح روایات اور معتبر قول کو لیں ۔
شرح : ان حضرات کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ مذہب کی مضبوط و کمزور روایات میں
فرق وامتیاز کرتے ہیں اور ظاہر الروایت اور روایات نادرہ کی پہچان رکھتے
ہیں ، اکثر اصحاب متون اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلا صاحب کنز علامہ
نسفی (متوفی: ۷۱۰ھ) صاحب درمختار علامہ موصلی (متوفی:۶۸۳ھ) اور صاحب وقایہ
علامہ تاج الشریعہ(متوفی:۷۴۷ھ) وغیرہ،یہ حضرات اپنی تصنیفات میں مردود اور
غیر معتبر اقوال نقل کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔
علامہ شامی فرماتے ہیں صاحب کنز، صاحب المختار ، صاحب الوقایہ،اور صاحب
المجمع اور اصحاب المتون المعتبرۃ ۔ ان کا درجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اپنی
کتابوں میں ضعیف و مردود اقوال بیان نہیں کرتے اور روایات میں قوی، اقویٰ ،
ضعیف ، ظاہر الروایۃ، ظاہر المذہب اور روایت نادرہ میں امتیاز و تمیز کرنے
کے اہل ہیں۔(''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''، الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم
المفتی''،ج۱،ص۱۲)
۷-طَبَقَۃُ الْمُقَلِّدِیْنَ الْذِیْنَ لایَقْدِرُوْنَ عَلَی مَاذُکِرَ
تعریف :ساتواں طبقہ ان مقلدین کا ہے جو اپنے مذہب کی کمزور، مضبوط ، غلط
اور صحیح روایات میں کوئی فرق نہیں کر پاتے ۔
شرح :جو حضرات گذشتہ طبقات میں سے کسی بھی ذمہ داری کو اٹھانے کی اہلیت نہ
رکھتے ہوں ، انہیں ساتویں طبقہ میں رکھا جاتا ہے درحقیقت یہ لوگ فقیہ نہیں
بلکہ محض ناقل فتاوی ہیں، آج کل کے اکثر مفتیان کرام کا تعلق اسی طبقہ سے
ہے ، اس لئے اس طبقہ کے لوگوں پر پوری احتیاط لازم ہے ، جب تک مسئلہ منقح
نہ ہو اس وقت تک جواب دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
اسی لئے علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات کھرے کھوٹے، کمزور و قوی اور
دائیں بائیں میں امتیاز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ انہیں جہاں سے بھی
جو کچھ مواد مل جاتا ہے اسے جمع کرتے ہیں اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں
مارتے ہیں یہ لوگ ہر گز ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کی تقلید کی جائے یا ان سے
مسائل میں رجوع کیا جائے۔(''ردالمحتار''، المقدمۃ، مطلب :فی طبقات
الفقھاء،ج۱،ص۱۸۱۔۱۸۴) |
|