|
محترم ڈاکٹر صاحب آپکے مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد : ایک کثیرالجہات شخصیت" پر میرا یہ تبصرہ آپکے مضمون کی مخالفت میں نہیں بلکہ قطعی سیاسی جواب ہے اوریہ بتانے کی کوشش ہے کہ ایک پاکستانی کی نظر میں مولانا آزاد کیا ہیں آپ وہ بھی جان لیں، میرئے تبصرئے کے کسی لفظ یا جملے سے آپکو تکلیف پہنچے تو میں پیشگی آپ سے معذرت چاہتا ہوں:۔ مولانا آزاد کو بھارت اور پاکستان میں ایک متنازعہ حیثیت حاصل ہے۔ آزاد کےسیکولرازم اور قوم پرستی کے خیالات کابھی سب کو پتہ ہے۔ جو شخص قائد اعظم کے حوالے سے یہ سوال اٹھائے کہ کیا جناح ایک مسلم رہنما ہیں؟ جونو سال کانگریس کا صدر کم اور نہرو اور پٹیل کا ذاتی ملازم زیادہ لگے، جو شخص پاکستان کی ساری زندگی مخالفت کرتا رہا ہو۔ آزاد جو ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے دعوے دار تھے مگر ہندوستانی مسلمانوں نےقائد اعظم محمد علی جناح کی حمایت کی اور مولانا آزادکو ایک کونے میں لگادیا تھا ۔ بنگلہ دیش بننے کے بعدلوگوں کو مولانا آزاد کی ایک پیشنگوئی کہ پاکستان کی عمر 25 سال ہے یاد آئی مگر یہ آزاد کی پیشنگوئی نہیں دلی خواہش لگتی ہے، جب ہی اندرا گاندھی نے کہا تھاکہ آج دو قومی نظریہ ختم ہوگیا، اصل میں وہ اپنے والد جواہر لال نہرو کے دوست آزاد کی زبان بول رہی تھی، بنگلہ دیش ضرور بنا اور آج بھی قایم ہے، پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہے، مگرآزاد کا اکھنڈبھارت 1947 میں جو ٹوٹا تو انشااللہ اب کبھی اکھنڈ نہیں ہوسکے گا۔ اب رہی یہ بات کہ " قیام پاکستان میں علماء کا کیا رول تھا" تو عرض ہے کہ پاکستان 23 مارچ 1947 کی قراداد کے 7 سال بعد نہیں بن گیا، پاکستان 90 سال 1857سے 1947کی جہدوجہد کا نتیجہ ہے، اس میں اگر مولانا آزاد، مفتی محمود جو کبھی کانگریس کے رکن رہے تھے اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے پاکستان کی مخالفت یا حمایت نہیں کی تھی تو اس کا قظعی مطلب یہ نہیں کہ اس وقت کے سارئے علما اور دانشور پاکستان بنانے کے مخالف تھے۔ پاکستان کو وجود میں لانے میں مولانا محمدعلی، مولانا شوکت علی، انکی والدہ اماں بی، سرسید احمد خان، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسرت موہانی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کے علاوہ اور بہت سے ہیں۔بھارت کا بال ٹھاکرے ایک متعصب لیڈر تھا مگر جو اس کے دل میں ہوتا تھا وہ ہی اسکی زبان پر بھی ہوتا تھا۔ پاکستان اور مسمانوں کا کٹر دشمن تھا مگر کانگریس سے اس لیے بہتر تھا کہ "بغل میں چھری اور منہ میں رام رام " کے کانگریسی فلسفے پر عمل نہیں کرتا تھا، جبکہ خیر سے آزاد تو پکے کانگریسی تھے۔ |
|
By:
Syed Anwer Mahmood,
Karachi
on
Nov, 13 2016
|
|
0
|
|
|
|
|
Please Wait Submitting Comments...