سوچ
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ہم کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم
سوچنے کے لئے چند لمحات بھی نہیں نکالتے۔ دن رات ازل سے چوبیس گھنٹے کا ہی
ہے، پلٹ کر چند برس پہلے کی طرف دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے
پاس بہت وقت تھا، کوئی مہمان جاتا تھا تو کچھ روز اس کا قیام ہوتا تھا،
دوست احباب اکٹھے ہو کر باہمی دلچسپی کے امور پر گپیں مار لیا کرتے تھے،
مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو کچھ دیر وہاں بھی بیٹھ جاتے تھے۔ اب وقت بدل
گیا ہے، ہر کوئی سخت مصروف ہے، مہمان بن کر کہیں آنا جانا کم ہوتا جارہا ہے،
اگر گئے بھی تو بس گئے اور آئے۔ احباب کو ملے عرصے بیت جاتے ہیں، مسجد میں
گئے تو بھاگنے کی جلدی۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کا یہ
چلن ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرتیں۔ یقینا ایسا ہی ہے، مگر ہم اگر ہر
وقت مصروفِ عمل ہیں تو اس کا نتیجہ کیا ہے؟ہم ہر وقت مصروف رہ کر کس قسم کی
ترقی کر رہے ہیں؟ ہماری مصروفیت موبائل فون ہے، لیپ ٹاپ اور نیٹ نے ہماری
ساری توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے۔ یہاں سے ہم اکثر وہی کام کرتے ہیں جو
لاحاصل ہوتا ہے، جس کا کوئی آؤٹ پُٹ نہیں، جس کا خود ہمارے سمیت کسی بھی
دوسرے کو کوئی فائدہ نہیں، مگر اس حقیقت سے کون آشنا نہیں کہ انسان وقت
ضائع نہیں کرتا، در اصل وہ وقت کے ہاتھوں ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ
اس لئے ہے کہ ہم سوچتے نہیں، معاملات پر غور نہیں کرتے۔
ہمارے رویوں کے اثرات ہمارے ہر شعبے پر نمایاں ہیں، جس شعبہ زندگی پر نگاہ
ڈالیں وہی زوال پذیر ہے۔ تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترقی میں انسان آگے سے
آگے سفر کر رہا ہے، مگر یہاں ہم قدم قدم پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔ اپنے ہاں
مولا جٹ کلچر ختم ہونے کی بجائے فروغ پا رہا ہے، سیاسی پارٹیوں کے قائدین
ایک دوسرے کو للکارتے ہیں، ان کے الٹ پلٹ نام رکھتے ہیں، ان پر الزامات کی
بوچھاڑ کرتے ہیں، کیچڑ اچھالتے ہیں، تہمتیں باندھتے ہیں، حتیٰ کہ مغلظات سے
بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ملک کے اندر بہت سے فکر مند طبقات کی خواہش ہے کہ
معاملات سنجیدگی سے لئے جائیں، مگر یہاں بڑے بڑے کام بھی غیر سنجیدہ طریقے
سے انجام پاتے ہیں۔ پی پی اور مسلم لیگ ن تو یہاں تین دہائیوں سے ایک دوسرے
سے نبرد آزما ہیں۔ دشمنی اس قدر دکھائی کہ ابتدا میں میاں نواز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا استقبال تک نہیں کرتے
تھے۔ وقت نے دونوں پارٹیوں کے قائدین کو سیاست سکھا دی، پھر انہوں نے
مخالفت کا لبادہ تو اوڑھے رکھا، مگر اندر سے ایک ہوگئے۔ مشرف دور میں
’’میثاقِ جمہوریت‘‘ نے سارے پردے بھی فاش کردیئے۔ یہ اندرونی (خفیہ) اتحاد
آج بھی جاری ہے، اور معاہدے کے مطابق باریاں لی اور دی جارہی ہیں۔
سیاسی قیادتوں نے ہی قوم کی تربیت کرنا تھی، مگر افسوس کہ وہ خود قوم کے
مزاج کے مطابق کام کر رہے ہیں، اگر عمران خان سے قوم نے توقعات باندھیں، تو
اس کی وجہ یہی تھی کہ دوپارٹیوں سے قوم تنگ آچکی تھی۔ مگر بدقسمتی ملاحظہ
کیجئے کہ جس پر تکیہ تھا، اس نے بھی کارکنوں کی تربیت کا کوئی بندوبست نہ
کیا، پارٹی کے الیکشن ہونے لگے تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ طرح طرح کے
سیاستدان ارد گرد جمع کرنے سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا، کوئی تقریب ہوئی تو
کارکن کھانے پر ٹوٹ پڑے، کوئی جلسہ ہوا تو خواتین شر پسندوں سے محفوظ نہ رہ
سکیں، خیبر میں حکومت ملی تو کوئی خاص تبدیلی ظاہرنہ کر سکے۔ سونے پر سہاگہ
یہ ہوا کہ اپنے جلسوں اور دھرنوں میں مخالفین کے لئے ’اوئے ووئے‘ کے خطابات
بھی جاری ہیں۔ سب سے نوجوان سیاسی قیادت بلاول زرداری ، جوکہ سیاسی مصلحت
کے تحت ’بھٹو‘ بھی ہیں، ان کا طرزِ تکلم بھی پاکستان کی سیاسی کان میں آکر
نمک ہی ہو چکا ہے، اول روز سے ہی ان کے ہدایتکاروں اور استادوں نے انہیں
پاکستانی طریقے کی سیاست سکھائی ہے ، باہر کے پڑھے لکھے ایک ارب پتی نوجوان
کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں بھی وہی اندازِ سیاست اپناتا جو ترقی یافتہ
اقوام کا وطیرہ ہے، مگر انہوں نے بھی چیخ چیخ کر تقریر کرنے اور ’چاچا،
چاچا‘ کر کے مخالفین کی تضحیک کو ہی اپنالیا ہے، سندھ کی سیاست میں کوئی
بہتری نہیں آئی، کرپشن کے قصے بھی عام ہیں تو ترقیاتی کام بھی صرف اشتہارات
تک دکھائی دیتے ہیں۔ اگربلاول جیسے پڑھے لکھے اور نوجوان سیاستدان بھی
پاکستانی عوام کو کوئی نیا اور معقول پیغام نہیں دے سکتے تو ہمیں سوچنا
چاہیے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا۔ |
|