کیا واقعی زبان کے کڑوے اور تلخ لوگ دل کے صاف ہوتے ہیں ؟؟؟
(sheedi Yaqoob Qambrani, Karachi)
جہاں تک دل کی صفائی کا تعلق ہے تو
یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جو وقت اور حالات پر منصر ہے کہ اس وقت کیا حالات
رونما ہوتے ہیں ۔ بعض دفعہ ماحول کو کنٹرول کرنے کے لیے کڑوا لہجہ اختیار
کرنا پڑتا ہے ، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی غلط اقدام نہ ہونے پائے ۔ جیسا
کہ ہمارے یہاں کمبائن فیملی کا سسٹم ہے جس میں کسی ایک کا تلخ رویہ پورے
خاندان کے سسٹم کو صیح ڈگر پر استوار کرنے کا سبب ہوتا ہے ، اس سے فائدہ یہ
ہوتا ہے کہ خاندان کے تمام فرد ایک دوسرے سے جُڑے رہتے ہیں اور اس میں
باغیانہ روش کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ وہ جو آج ہم کہتے ہیں کہ
ہم روشن خیال ہیں سو اسی روشن خیالی میں ہم نے اپنے اقدار گنواں دیئے ہیں ۔
اظہار کی آزادی اچھا عمل ہے لیکن اس کا غلط استعمال بڑے نقصان کا پیش خیمہ
ثابت ہوتا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنہیں غصہ آتا ہے وہ لوگ سچے ہوتے ہیں
، اور جھوٹے لوگ ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں ، اس لحاظ سے اول تو غصے کے بارے
میں تمام دانشور ، اہل علم ، سیانے اور مذہبی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ
کوئی اچھا عمل نہیں ، اس سے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت نہیں رہتی
اور عملی طور اس کے نتائیج کچھ اچھے نہیں ہوتے ۔ جبکہ غصہ ہمیشہ اپنے سے
کمزور پر کیا جاتا ہے اور اپنے سے طاقت ور پر کیا جانے والا غصہ ہمیشہ اپنے
ہی حق میں نقصان کار ثابت ہوا ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ، صدر بش کو
غصہ میں مارا جانے والا جوتا اسی صحافی کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا ،
آنجہانی راجیوگاندھی کو سری لنکن فوجی نے گارڈ اف آنر کے دوران رائیفل کا
بٹ مارنا اس کے اپنے لیے نقصان بنا ، اور دیگر کئی مثالیں کتابوں میں درج
ہیں ، کہنے کا مطلب ہے کہ سچائی کی پرکھ غصے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ جذبہ
منفی اثر رکھتا ہے جس کی وجہ سے بعد میں پشمانی اور پچھتاوا ہوتا ہے ، اس
لیے اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
جو لوگ مسکراتے رہتے ہیں وہ لوگ ہمیشہ حالات کی ستم ظریفی کو حقیقت کی نگاہ
سے دیکھتے ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار صبر اور تشکر سے کرتے ہیں ۔ انہیں
جھوٹا کہنا ایک طرح سے کفر کے زمرے میں بھی آتا ہے ، کیوں کہ مسکرانے کو
بھی صدقے کا مرتبہ دیا گیا ہے ۔ میں یہ نہیں جانتا کہ کس مفکر نے یہ کہا ہے
لیکن اگر ہم اخلاقی تناصر میں دیکھیں تو ہمیں ہمیشہ مسکرانے کی تلقین کی
گئی ہے ۔ اسؤا حسنہ ہمارے سامنے کُھلی کتاب کی ماند ہے ، کس طرح کائنات کی
محسن ہستی نے مسکراتے ہوئے لوگوں کے دلوں کوتسخیر کیا ، ہم شاید یہ بھول
گئے ہیں ، ہم یورپ کے لبرل ازم کو اپنی نجاد سمجھتے ہیں اور انکے دقیانوسی
فلسفیوں کے محاورے بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، جبکہ ان جیسا بننے کے
چکر میں ہم اپنی اقربا پروری اور بھترین اقدار کھو چکے ہیں ۔ ہم ٹی وی پر
ڈائپر کا اشہتیار غیر موضوع نہیں سمجھتے ، اس بڑھ کر پستی کا ساماں اور کیا
ہوگا ۔ اللہ ہمیں اور آپ کو صیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
!!!!!!
|
|