اکثر لوگوں سے سُنا ہے کہ اُن کی
زندگی میں آنے والے نشیب و فراز اُن کے رویہ کا باعث بنتے ہیں۔آج ہم سب سے
پہلے یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رویہ کسے کہتے ہیں اور اس کی
کتنی اقسام ہیں۔سوچنے، سمجھنے اور اس کی عملی شکل کو رویہ کہتے ہیں ۔
والدین ، اساتذہ اور معاشرہ کسی بھی انسان کے رویہ میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں مثبت اور منفی۔ پر اُمید،بھروسہ ، شکر گز اری،ذمہ
داری کا احساس،دوسروں کا احترام، صفائی، نظم و ضبط، ایک دوسر ے کی مدد اور
قناعت پسندی وغیرہ مثبت رویہ کی علامتیں ہیں۔منفی رویہ کی وجہ بے یقینی،
ناشکری، غیرذمہ داری، کفر، عدم اطمینان، رشک،غیبت اور فضول گفتگو ہے۔ اسلام
میں رویہ بہت اہمیت رکھتا ہے او رمثبت رویہ رکھنے کا درس دیتا ہے۔ہمارے
پیارے نبی ﷺکا رویہ ایسا تھا کہ جسے دیکھ کر پتھر دل بھی موم ہوجاتے تھے۔
مدینہ میں رہنے والی بُڑھیاکا قصہ تو آپ نے سُناہی ہو گا کہ جو روزانہ آپ ﷺپر
کوڑاپھینکتی تھی اور لوگوں سے کہتی تھی کہ مدینہ میں ایک شخص ہے جس کے رویہ
میں جادو ہے جو کوئی اُس سے بات کرتا ہے وہ اُسی کا ہو جاتا ہے۔ اور پھر
خود بھی نہ بچ سکی اور آپ ﷺ کے رویہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
مگرآج ہمارے سوچنے ، سمجھنے کا انداز بدل گیا ہے یعنی ہمارے رویہ کے اندر
تبدیلی آگئی ہے۔ ہمارے رویے منفی ہو گئے ہیں ۔ہم صرف اور صر ف اپنا فائدہ
سوچنے لگے ہیں ۔دوسروں کے نقصان کا کوئی احساس نہیں رہا۔اسی وجہ سے ہم ترقی
نہیں کر رہے۔ان بدلتے رویوں کا قصوروارکون ہے؟آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ اس
کی وجہ اسلام سے دوری ہے۔کسی عالم سے سوال کیا گیا کہ ہم مسلمان ہیں مگر ہم
پستی کی طرف کیوں جا رہے ہیں اُس عالم نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ اﷲ کے
ہاں ایک ہی مذہب ہے اور وہ ہے اسلام ۔ جو اسلام کے جتنا قریب ہو گا وہ تر
قی کرے گا اور جو جتنا دورہوتا جائے گا وہ پستی کی طر ف جاتا جائے گا۔ آج
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر مغربی دنیا کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور
بحثیت مسلمان جو خصوصیات ہمارے اندر ہونی چاہیے وہ اُن میں پائی جاتی ہیں۔
فرق صرف اتناہے کہ ہم عادتاً نماز پڑتے ہیں اور وہ نہیں پڑتے۔ ہمارے اندر
سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ہم یقین سے پہلے دوسروں پر شک
کرتے ہیں۔اپنی ذمہ داری سے زیادہ دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں۔اﷲ کا
شکر ادا کرنے کے بجائے اﷲ سے گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرنے
کے بجائے دوسروں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی میں خوش
ہونے کے بجائے رشک کرتے ہیں۔ دوسروں کا احترام کرنے کے بجائے دوسروں کو
نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔دوسروں کی خوبیوں کی بجائے اُس کی
خامیوں کو زیر بحث لاتے رہتے ہیں اور اس پر ظلم یہ کہ ہم خود پر غور کرنے
کے بجائے، اپنی خامیاں دور کرنے کے بجائے ،اپنے رویے کو مثبت کرنے کے بجائے
دوسروں کو کہ رہے ہوتے ہیں کہ تم بدل گئے ہو، تم منفی سوچ رکھتے ہو۔اگر
ہمیں ترقی کرنی ہے تو ہمیں مثبت رویہ اپنانا پڑے گا۔اپنی سوچ کو مثبت رکھنا
ہو گا۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، مشکلات ،مسائل یا رکاوٹیں چائے جتنی بھی
زیادہ ہوں،زندگی کی کسی بھی میدان میں اگر آپ کامیابی حاصل کر نا چاہتے ہیں
توآپ کو مثبت رویہ رکھنا ہو گا ۔ اپنی نظرمنزل پر رکھنی ہو گی۔ میں یقین سے
کہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔
ہمارے معاشرے میں بڑتی ہوئی برائیاں، غربت، تعلیمی معیار کا خراب ہونا،بجلی
کی لوڈشیڈنگ، چوری ، مہنگائی وغیرہ مایوسی کا باعث ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ان
مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ۔ہم نہیں جانتے کہ یہ مسائل کیسے حل کیے جا سکتے
ہیں اور کون حل کر سکتا ہے ۔زندگی میں مسائل ختم نہیں ہو سکتے ، کبھی موسم
اچھا ملتا ہے کبھی بُرا،کبھی خوشی ملتی ہے کبھی غم ،کبھی اچھے دوست ملتے
ہیں اور کبھی دھوکہ،کبھی اپنے پرائے ہو جاتے ہیں اور کبھی ماں بیٹا، بہین
بھائی ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں مگر اس کے باوجوداگر ہمیں اپنے رویہ کو
مثبت رکھنا آتا ہے تو ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں
نہیں روک سکتی۔ اگر ہمیں کامیاب ہونا ہے ، اگر ہمیں اﷲ اور اُس کے رسولﷺ سے
رشتہ مضبوط کرنا ہے توہمیں اپنے رویہ کو مثبت رکھنا ہو گا۔ اپنی سوچ کو
بدلناہو گا۔ دوسروں کا احساس کرنا ہوگا۔ اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو(امین) ۔
|