اس وقت پاکستان میں ہو کا عالم ہے ۔ہر
طرف ہر شخص پریشان ہے۔حکومت اپنی بچاؤ اور اپوزیشن حکومت گراؤ کی چکر میں
لگی ہے۔ایک طرف سرحدوں پر انڈیا مسلسل سیز فائیر کی خلاف ورزی کرہا ہے۔جس
سے تین چار دن قبل سات پاکستانی جوان شہید ہوئے۔دوسری طرف کاروبار کا بیڑا
ٹپ ہورہاہے۔ہرطرف پریشانیوں کے سائیے منڈلا رہے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ انہیں عوام سے کوئی سر و کار نہیں ۔ ہر
لیڈر کرپشن سے مال در مال بنا رہا ہے۔اور نہ ہی اﷲ کا خوف ہے ان حکمرانوں
کو۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کیلئے غریب عوام کے ٹیکسوں سے جمع پیسوں کو
اسطرح اشتہارات اور میڈیا میں لگارہے ہیں جیسے یہ پیسہ ان کے شوگر ملوں
سریا ملوں یا آبا وآجداد کی جائیداد ہو۔آج ہمارے حکمران مسلمان حکمرانوں کی
ماضی بھلا بیٹھے ہیں اور غیر وں نے ان کی ترز حکمرانی اپنائی ہے۔اس کی کئی
مثا لیں ہیں ایک واقعہ ابھی تازہ ہی بتا تا چلوں جاپان میں روڈ کے ایک ٹریک
پر پچاس فٹ گہرا سو فٹ سے زیادہ لمبا گھڑا اچانک بن گیا جس کو وہاں کی
حکومت نے صرف تین دن میں بھر کر روڈ کھولوادیا ۔پاکستان میں ایک چھوٹا سہ
گھڑا کتنوں کو زخمی اور ہلاک کرتا ہے ۔
تو اس کے بعد جاکر حکومت کو خیال آتا ہے۔اب عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ ہمیں
کس قسم کے حکمران چاہیے حضرت محمدﷺ کے ایک حدیث کا مفہوم ہے جیسے رعایا
ویسے حکمراں۔اس وقت افراتفری کا ماحول بن رہا ہے۔ہر شخص پریشان ہے کسطرح اس
عذاب سے جان چھوڑائیں۔سکون ختم ہو چکا ہے ۔آج کے ان تمام مسائل میں بھی بڑی
عبرت ہے۔اورابدی راحت کاسامان فراہم کرنے کے لئے الارم ہے۔ ایک مسلمان کو
چاہئے کہ دنیا میں پیش آنے والے حالات کو مصائب کی نظر سے نہ دیکھے بلکہ اس
کو آخرت کے تناظرمیں دیکھیں ۔ قرآن کریم نے پہلی قوموں پر نافرمانی کی وجہ
سے آنے والے عذاب کومختلف پیرائے میں بیان کیا ہیں ۔
لیکن ساتھ ہی ان سے سبق لینے کی تاکید بھی کی ہے۔ اْم المومنین حضرت عائشہ
ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
قیامت کے دن لوگوں کو میدان محشر میں ننگے پاؤں ننگے بدن غیر محتون جمع کیا
جائگا ۔حضرت عائشہ ؓ کہتی ہے کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اﷲ کیا
مرد عورت سب کا یہی حال ہوگا اس طرح ایک دوسرے کو عریاں دیکھیں گے ۔آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایاکہ عائشہ اس دن کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہولناک ہوگاکے
کوئی کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں۔(صحیح بخاری)
قرآ ن و حدیث نے جو منظر کشی کی ہے قیامت کے دن کی اس سے معلوم ہوتا ہے اس
دن کے معاملات بہت سخت ہونگے ۔کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ہر شخص کو اپنی
نجات کی فکر ہوگی ۔وہ بہت خوش قسمت ہوگا اپنی قسمت پر ناز کرے گا جس کو
نجات مل گئی۔ہلاک و برباد ہے وہ شخص جو حساب کتاب میں پھس گیا ۔ان واقعات
کو لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران تو ہے ہی غلط لیکن کیا ہم نے اپنا
محاسبہ کیاہے کس حکمران نے ہمیں کہا ہے کہ نماز مت پڑھو ، ناپ تول میں کمی
کرو زنا و شراب نو شی کرو یا پھر کوئی دوسرا گناہ جس سے کہ عذاب الہی کو
دعوت دی جاتی ہو۔ نہیں کسی نے نہیں کہا ہم خود ہی دوسروں کا دل دکھا تے ہیں
۔یہ سارے گناہ ہم ہی کرتے ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے حکمران اس قابل
نہیں کہ وہ ھمارے اُوپر حکمرانی کریں۔حکمران تو ایسے ہو تے ہیں کہ ایک
مرتبہ حضرت عمرؓ رات کے گشت میں مصرو ف تھے کسی بیابان جگہ پر ایک عورت نے
آگ لگائی ہوئی تھی اور اس پر ایک دیگ چی میں پانی ڈالا ہواتھا اور اس میں
پتھر اُبال رہی تھی اور دوسری طرف اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سلانے کی کوشش
کرہی تھی اور بچے زار و قطار رو رہے تھے ۔آپؓ نے اس عورت سے پوچھا کیا
ماجرہ ہے ۔عورت نے کہا بچے بھو کے ہے۔سلانے کی کوشش کر رہی ہوں آپ نے کہا
دیگ چی میں کیا ہے عورت نے کہا پتھر ڈال کر بچوں کو بہلا رہی ہوں تاکہ سو
جائیے کھانے کو کچھ نہیں آپ ؓ نے کہا بیت المال چلی جاتی تو عورت نے کہا ں
نہیں کیا وقت کے خلیفہ کو نہیں پتا ہمارا۔ کیوں بناخلیفہ آپ یہ سن کر کانپ
گئے اور سیدے بیت المال پہنچ گئے اور وہاں سے آٹا گڑ اور دیگر خوراک کا
سامان لیکر چل دیئے۔تو بیت المال کے خا دم اسلم نے کہا یہ بو را مجھے دید
یں تو آپ نے کہا اسلم کیا کل بروز محشر میرا بو جھ اٹھا و گے ۔اور سیدے اس
مقام پر پہنچ گئے جہاں پر وہ عورت مو جو د تھی آپ نے خود ہی حلوا پکا کر ان
کے سامنے پیش کر دیا تو خادم اسلم نے کہا حضرت اب چلیں آپؓ نے کہا ان کو
روتا دیکھا ہے ۔
اب انکو ہنستا دیکھ کر پھر جا ؤنگا ۔تو اس عورت نے کہا کہ عمر کی جگہ آپکو
ھمارا خلیفہ ہو نا چاہیئے ۔آپ کہاں پر ہوتے ہو، تو حضرت عمرؓ نے کہا کل
خلیفہ کے دربار میں آجاؤ میں وہی ملوں گا۔ یہ تھے مسلمانوں کے خلیفہ۔ ا یک
مرتبہ حضرت عمرؓ کی بیو ی نے حلو اپکا یا تو ا ٓ پ نے پوچھا کہا ں سے ا ٓیا۔
تویہ جو ا ب ملا کہ بیت المال سے ر و زا نہ جو را شن ا ٓتاہے اس ہی میں سے
تھوڑ ا تھو ڑا کر کے بچا یا اور اس سے ہی حلو ا پکا یا تو ا ٓپ ؓ اگلے دن
بیت الما ل پہنچ گئے اور اتنا راشن کم کرایا جتنا آپ کی زوجہ نے بچایا ۔
ا ور ایک آج کے حکمراں،جو دبئی ، لندن ، پیرس ، نیویارک و غیر ہ میں جا ئد
اد بنانے میں مصروف ہے ۔ یہ با ت بھی در ست ہے کہ ہمیں حکمر اں تو چا ہیئے
،ا بو بکر ؓ ،عمر ؓ ، عثما ن ؓ ،علی ؓ و معا و یہ ؓ جیسا اور ہما رے اعما ل
ایسے ہیں کیا ۔کیا ہم میں ابو در دہؓ جیسا ہے کو ئی ، ہے کو ئی ہم میں ابو
ہر یرہ ؓ جیسا ۔کیا ہے کو ئی ہم میں حسن ؓ ،حسینؓ،ز بیر ؓ ، خبیب ؓ جیسا ،اگر
نہیں تو پھر ان حضرات کی نقش قدم پر چلنا ہو گا ۔تب ہی ہم کو اچھے حکمرا ن
اور حکمر انو ں کو ا ٓ چھی ر عا یا ملے گی ۔ کب تک ہم کون صیح کون غلط کا
نعرا لگا تے رہیں نگے کب تک ہم اپو زیشن اور حکو مت کے گیم کا حصہ بن تے ر
ہیں نگے ۔ ہمیں ا ب سو چ نہ ہو گا دوسر و ں کی خا میوں کے ساتھ ساتھ اپنی
خا میوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی اس سے ہم د نیا میں کامیاب ہو نگے اور آخر
ت میں بھی ۔ اﷲ ہم سب کا حا می و نا صر ہو ( ا ٓ مین ) |