بھارتی ریاست چنائی میں سگریٹ نوشی کہنے کو تو ممنوع ہے لیکن وہاں
کے شہری ہیں تو ایشیائی باشندے ‘ اس لئے انہوں نے سگریٹ نوشی کیلئے نت نئے طریقے
ایجاد کئے ہیں - چنائی میں ایک سگریٹ کی قیمت پندرہ روپے ہے جو کہ پاکستانی روپے
میں تیس روپے بنتی ہیں- سگریٹ کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے کہ کم سے کم لوگ سگریٹ
پی لیں خصوصا طلباء و طالبات - لیکن بھارتی طلباء و طالبات بھی بڑے چالاک ہیں- کالج
ہاسٹل میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ سرکلر بھی ہر کامن
روم میں لگائے گئے ہیں لیکن طلباء و طالبات ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے-
طلباء تو الگ بات ہمیں تو چنائی جا کر پتہ چلا کہ بھارتی طالبات سگریٹ نوشی میں بھی
کسی سے کم نہیں - ہماری ایک دوست کے بقول سگریٹ نوشی پاکستان میں بھی خواتین کرتی
ہیں لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ جس دھڑلے سے بھارتی خواتین کرتی ہیں شائد ہی کوئی
کرتی ہوں- سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک سگریٹ کو تین تین افراد پیتے ہیں- کبھی
کبھار دو طالبات اور ایک طالب علم اور کبھی یہ متضاد صورتحال ہوتی تھی- لیکن شام کے
اوقات میں سڑک کنارے اور کالج کے باہر سگریٹ پینے والوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ
ہوتی تھی- کبھی کبھار طالبات موج مستی میں آکر کالج کے لان اور کمروں میں بھی سگریٹ
نوشی کرتی تھی البتہ وارڈن کے آنے کے بعد راقم نے کئی طلباء کو دیکھا کہ جلدی سے
سگریٹ کے ڈبے چھپا لئے- کہ وارڈن کی نظر نہ پڑے-
سیگریٹ نوشی کی لت کیساتھ شراب نوشی بھی ایک عام سا مرض ہے- چونکہ وہاں پر مقامی
طور پر بننے والی شراب بھی ملتی ہے جبکہ بیرون ملک سے آنیوالی شراب کی ڈیمانڈ بھی
زیادہ ہے اس لئے ایسے طلباء و طالبات راقم نے دیکھے جو باقاعدہ اپنے بیگ میں شراب
کی بوتلیں لیکر آتے اور پیتے- راقم کیساتھ ہاسٹل کمرے میں سونے والے دونوں طلباء
ایک لحاظ سے زیادہ پیتے تھے لیکن چونکہ ان کو پتہ تھا کہ میں ان چیزوں میں نہیں ہوں
اس لئے کبھی غلطی سے بھی میرے سامنے نہیں پی لیکن یہ میرا یہ مشاہدہ رہا کہ وہ بیگ
میں شراب لیکر آتے اور چارپائی کے نیچے چھپا لیتے- رات دس بجے کے بعد وارڈن سو جاتی
اور پھر ان کی محفلیں جمتی- چونکہ بچپن سے رات دس بجے سونے کی عادت تھی اس لئے راقم
دس بجے کے بعد لائٹ آف کرکے سو جاتا اور کمرے کے دونوں طلباء اندھیرے میں اپنی من
پسند دوستوں جو کہ بیشتر طالبات ہوتی تھی کمرے میں بلا لیتے اور اندھیرے میں بیٹھ
کر شراب نوشی کرتے- چونکہ وہ تھے تو عادی شراب نوش اس لئے کبھی غل غپاڑے یا جھگڑے
کی آواز نہیں آئی - اس لئے وہ محفلیں جماتے اور راقم آرام سے سوتا رہتا- یہ تو ایک
دن وارڈن نے چھاپہ مارا تو راقم کو نیند کے دوران ایسا لگا کہ کوئی چارپائی کو ہلا
رہا ہے اس لئے راقم کی آنکھ کھل گئی تو کمرے میں موجود ساتھیوں نے اشارہ کیا کہ بات
نہ کرو- چونکہ میں بھی نیند میں تھا اس لئے کوئی بات نہیں کی - وارڈن کو شکایت ملی
تھی کہ اس کمرے کے طلباء شراب پیتے ہیں لیکن کمرے میں موجود طلباء نے شراب کوکا
کولا میں ڈال رکھی تھی اس لئے وارڈن کو پتہ نہیں چلا اور نکل گئی جبکہ وارڈن کے آنے
پر کمرے میں موجود میرے کمرے کے ساتھیوں کی دو گرل فرینڈز نے میرے چارپائی کے نیچے
اپنے آپ کو چھپا لیا-کیونکہ رات کے دس بجے کے بعد لڑکوں کے کمرے میں کسی لڑکی کا
آنا منع تھا لیکن اس دن کے بعد پتہ چلا کہ میرے ساتھ کمرے میں رہائش پذیردونوں
طلباء بہت ہوشیار ہیں- اور میرے جلدی سونے کی عادت میں وہ اپنے بڑے بڑے کام نکال
لیتے تھے - شکر ہے کہ اس دن کے بعد میں نے اپنی رات کی سونے کی ٹائمنگ تبدیل کردی
کیونکہ اعتبار ختم ہو چکا تھا دوسرے اس دن تو اللہ نے عزت رکھ لی تھی کیونکہ لڑکیاں
میرے چارپائی کے نیچے چھپی ہوئی تھی اگر وارڈن انہیں میرے چارپائی کے نیچے سے نکال
لیتی تو ....
ہاسٹل کمرے میں میرے ساتھ رہائش پذیر ایک طالب علم ریڈیو میں جبکہ دوسرے پرنٹ سٹریم
میں ڈگری لینے آئے ہوئے تھے-اس واقعے کے بعد دونوں لڑکوں نے اپنی محفلیں باہر ہی
لگانی شروع کردی تھی - اس لئے پھر ایسی کوئی نوبت ہی نہیں آئی- البتہ اس معاملے میں
میرے موبائل فون نے میرا بہت ساتھ دیا-کیونکہ میں نے ہر دو گھنٹے بعد موبائل فون پر
الارم لگایا ہوا تھا اور الارم سے میں اٹھ جاتا تو کمرے میں دیکھتا کہ کوئی باہر سے
تو نہیں آیا- پہلے دنوں میں وہ میرے اس انوکھے تجربے کو نہیں سمجھے تھے لیکن بعد
میں انہیں احساس ہوا کہ پاکستانی اتنا تیز نہیں بلکہ اسے موبائل فون کا الارم اٹھا
دیتا ہے اس لئے ایک دن انہوں نے میرے موبائل فون جو کہ تکیے کے نیچے رکھا ہوتا تھا
کو اٹھا کر اس کا الارم بند کرنے کی کوشش کی لیکن پاس ورڈ ہونے کی وجہ سے موبائل فو
ن نہیں کھل سکا البتہ موبائل کیمرے میں تصویر آگئی جس کا مجھے صبح پتہ چلا-اور میرے
پوچھنے پر ساتھی تو انکارکر گئے لیکن اس کے بعد ساتھی طلباء نے دوبارہ موبائل
کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی-راقم یہ سمجھتا تھا کہ اس طرح کے واقعات صرف میرے ساتھ
پیش آتے ہیں لیکن افغان صحافی دوست نے ایک دن بتایا کہ اس طرح کے واقعات اسی کے
ہاسٹل کے کمرے میں بھی ہوتے آرہے ہیں -
موبائل فون کیلئے سم خریدنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ چنائی کی مارکیٹ میں
موبائل فون کیلئے سم خریدنے کے دوران ہوا- وہاں ہماری طرح پاکستان کی صورتحال نہیں
کہ جس کا دل چاہے منہ اٹھا کر بازار میں موبائل فون سم خرید لے- افغان صحافی دوست
چونکہ راقم سے کچھ عرصے قبل گیا ہوا تھا اس لئے اس نے پہلے ہی سم خریدی تھی اور اس
نے راقم کی سم خریدنے میں بڑی مدد کی لیکن وہاں جا کر پاسپورٹ دکھانے کے بعد موبائل
فون سم بیچنے والے دکاندارپہلے تو انکار کیا اس نے کہہ دیا کہ وہ موبائل فون سے
رابطے کے بعد بات کریگا - چونکہ راقم کو وہاں پر مقامی رابطوں میں بڑا مسئلہ تھا اس
لئے موبائل فون سم خریدنا مجبوری تھی اس لئے اگلے دن اسی موبائل شاپ پر افغان صحافی
دوست کیساتھ چلاگیا اور موبائل فون سم خریدنے کے حوالے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ اسی
منظوری مل گئی ہیں اس لئے موبائل فون سم مل جائیگا - موبائل فون سم دینے کے لئے
راقم کو اپنی تصاویر بھی دکاندار کو دینی پڑ گئی جس کے بعد موبائل فون سم جاری ہوا
لیکن یہ کتنا مشکل مرحلہ تھا اس کا اندازہ چار دن کے بعد ہوا کیونکہ موبائل فون سم
بند تھا اور چار دن بعد کمپنی نے میرا سم آن کردیا-وہاں پر یہ اندازہ بھی ہوگیا کہ
ہماری موبائل فون کمپنیاں تو صارفین کا چمڑا اتا ررہی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں
بھارت میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کے موبائل فون سروسز سمیت انٹرنیٹ کے
پیکجز کی قیمت کم ہیں - سب سے عجیب بات جو کہ پیکجز کے حوالے سے تھی کہ ایک پیکجز
139کا تھا تو دوسرا پیکج 199 کا ‘ یعنی اس طرح کے پیکجز میں صرف ایک روپے کا فرق
ہوتا تھا- اس بارے میں افغانی دوست اور راقم کی بحث ہر وقت ہوتی رہتی کہ آخر صرف
ایک روپے سے کیا بنتا ہے جوکہ موبائل فون کمپنیاں نہیں لیتی اور یہ بحث بے نتیجہ ہی
جاری رہتی |