ہم پاکستانی بھی بہت عجیب لوگ ہیں اور اس
بات کا تو اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ ایک قوم تو ہم بلکل نہیں ہیں اور شاید
کبھی بن بھی نہ پائیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یا شاید اس سے بھی
پہلے سے مخلصانِ نفاظِ اسلام کے متوالوں نے شاید خواہشات اور نعروں کا
سہارا زیادہ لیا بہ نسبت اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیئے محنت اور
تربیت کے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ـ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی بنیادی
باتوں یا اصولوں کا ہی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس کا ذمہ دار آپ حکومتوں کو
ٹھرائیں یا علماؤ مشائخ کو یہ آپ کی مرضی ․مگر اس نرالے ملک کا یہ حال ہے
کہ اس کے رہنے والے نہ قائداعظم کی قدر وحفاظت کر سکے نہ محترمہ فاتمہ جناح
کی․ کبھی اس نرالے ملک کے عوام ایوان خان کے گن گاتے ہیں تو کبھی
ذوالفقارعلی بھٹو سے بڑا لیڈر ہی کوئی کوئی نہیں ․ اس نرالے ملک میں چور
رکھوالے ،جرنیل سیاستدان ، ڈاکٹر صحافی ، سیاستدان ڈکیت جبکہ اشرافیہ قاتل
بن چکے ہیں ۔ اس نرالے ملک میں محسنوں کو فراموش کیا جاتا ہے اور غداروں کو
نوازا جاتا ہے ․ کبھی اس منتخب وزیراعظم عدالتی حکم سے پھانسی چڑھا دیا
جاتا ہے تو کبھی منیب اور مغیث کو بغیر کسی عدالت کے سامنے پیش کئے گلیوں
میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
اس ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کا مذاق ہلکا پھلکا تشدد کی
چھیڑ بنا کر اڑایا جاتا ہے․ جب کوئی سود کے خاتمے کے لئیے کوشش کرے تو صدر
محترم علماء سے گنجائش پیدا کرنے کی درخواست کر دیتے ہیں ۔ ہاتھ میں کیمرہ
اورمائیک تھامے آپ شترِبے مہار جب چاہیں کسی کی بھی تذلیل کر سکتے ہیں ۔ جب
چاہیں متوازی عدالت لگا سکتے ہیں اور خداناخواستہ اگرآپ کسی بڑے چینل سے
منسلک ہیں تو آپ سے بڑا افلاطون ہی کوئی نہیں ۔ جن کو کوئی منہ نہیں لگاتا
وہ دانشور ہیں ، جو خود بمشکل تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہو وہ وزیرتعلیم ہوتا
ہے۔ فزکس کا پروفیسر ہمیں سیاسیات اور معاشیات پر بھاشن دے کر چلا جاتا ہے
۔ ہیجان ، خود نمائی اور سنسنی سے بھرپور شخص ہمارا دفاعی تھنک ٹینک ہے۔ جن
کو اور کچھ نہیں ملتا ان کے لیئے فرقوں کے ، مذاہب کے فروعی اختلافات کی
ایک طویل لسٹ موجود ہے وہ اس سے دل بہلالیتے ہیں ۔
مگر اسی نرالے ملک نے بہت سے درخشاں ستارے بھی دیئے ہیں ، ان ستاروں کی لسٹ
بھی کافی طویل ہے مگر یہ تمام درخشاں ستارے اس ملک کو انفرادی محنت اور لگن
سے میسر آئے ، تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کے کسے بھی درخشاں ستارے کو نہ
حکومتی سرپرستی سے نکھارا گیا نہ ہی علماؤمشائخ کی نرسری سے․ ․ ․
بحث امر اور وجہ زیب قرطاس مندرجہ بالا افکار وہ مسلسل کڑھن اور مشاہدات
ہیں جو کم عمری سے دیکھنے میں آرہے ہیں اور کسی کا بھی جواب نہ مل پایا ․․․
الغرض اب جوابوں کی تلاش بھی مقصود ہے اور آنے والی نسل کی فکر لاحق بھی ،
بندہ ناچیز فکری ، تربیتی اور اصلاحی بانچھ پن کا ذمہ دار علماؤمشائخ کو
گردانتا ہے ۔ اس موقع پر آپ حکومتی سرپرستی کا نہ ہونا یا کبھی بھی حکومتوں
کا اس طرف نہ دینا کا بہانہ بنا کر اختلاف کر سکتے ہیں ، مگر بندہ نا چیز
سوال کرنے کا حق پھر بھی محفوظ رکھتا ہے کہ آخر کیوں اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں آج تک طرز حکمرانی پرایک رائے قائم نہ ہو سکی ؟ کیوں آج بھی
لوگ اسلامی نظریاتی کونسل کے ہوتے ہوئے اور اسلامی آئین کے ہوتے ہوئے خلافت
کے انتظار میں ہیں ؟ کیوں آج تک سودی نظام کے خاتمے کے لئے حکمت عملی مرتب
نہ ہو سکی ؟ کیوں اس ملک کی نسلوں کو دینی لحاظ سے پختہ ذہن نہ بنایا جا
سکا ؟کیوں کبھی فرقہ وارانہ تعصب سے بالا تر ہو کر نسلوں کی تربیت کی کوئی
جامع حکمت عملی نہ بن سکی ؟کیوں دنیا بھر سے آئے جدید دور سے ہم آہنگ فتووں
کا صرف مذاق اڑایا جاتا ہے ؟
کیوں کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے فتوے نہ دیئے جا سکے جن سے علم
، تربیت ، روزگار ، طب ، ٹریفک ، میڈیا ، قحط ، سیلاب، آفات ، زلزلہ اور
دہشت گردی جیسے تمام مسائل اور حالات کے لیئے ملکی سطح پر رہنمائی ہو جاتی
اور واقعی غیر اسلامی اور غیر شرعی بہت سی بیماریوں سے نجات مل جاتی ۔ کیوں
یہ فتوی نہ آسکا کہ جس طرح اسلام جبر سے معاشرہ میں نہیں پھیلایا جا سکتا
اسی طرح سود بھی نہیں پھیلایا جا سکتا۔ کہاں ہیں وہ سرکاری سطح کے فتوی جو
نسلوں کو بتائیں کہ فحاشی سے جڑا ہر پیشہ ملازمت حرام ہے اور اس پر قوانین
کہ گرفت ہو سکے ؟ کہاں ہیں وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سرکاری سطح کی رولنگ
جس سے کسی پردہ نشیں کی عطمت بچائی جا سکے یا پھر کسی چائے والے کو فحاشی
کی دلدل میں گرنے سے بچایا جاسکے ؟
معلوم ہے آپ کے اختیار میں عمل درآمد نہیں نہ ہی آپ کے اختیار میں لگام
حکومت ہے مگر آپ ہاتھ میں جو رتبہ اور مقام تھا اگر اس کا صحیح استعمال کیا
گیا ہوتا اور یہ کوشش کی گئی ہوتی کہ حکومتی ایوانوں کو عملدرآمد پر مجبور
کیا جائے تو شاید یہ عوام بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی اور شاید آپ کو
ڈیزل، منافق ، مداری اور مفاد پرست مولوی وغیرہ کے القابات سے یاد نہ کیا
جا رہا ہوتا ــ․․․․․
اس کے برعکس وہ علماء و مشائخ جو کبھی کسی سیاسی مفاد ، کاروباری مفاد اور
حکومتی عہدوں کے لالچ میں نہیں رہے ، وہ آج بھی عوام الناس کے دلوں میں عزت
و احترام سے بستے ہیں ۔ |