جاگیردار
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
جاگیر داروں کا کوئی احتجاج ہماری
نگاہ سے نہیں گزرا، جس میں انہوں نے مفتی منیب الرحمن کے بیان کی تردید کی
ہو یا مفتی صاحب پر الزامات کا جوابی حملہ کیا ہو،یاپھر اُن کے پاس جواب
نہیں، یا انہوں نے جواب دینا ضروری نہیں جانا۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ
اگر کسی نے تردید کی وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہی۔ مفتی منیب نے کہا ’’ملک
کوا تنا نقصان جاگیر داروں نے نہیں پہنچایا، جتنا درباروں، خانقاہوں اور
درسگاہوں پر قابض مذہبی جاگیر داروں نے پہنچایا ہے ․․․․ اکثر خانقاہیں
نیلام ہو چکی ہیں ․․․ جہاں نفس کی اصلاح ہونی تھی، وہاں نذرانوں کا کاروبار
چل رہا ہے ․․․ قوم کو اِن کے چنگل سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے ․․․ گدی میرٹ
پر نہیں وراثت میں ملتی ہے ․․‘‘۔کہنے کو مفتی صاحب نے بھڑوں کے چھتے میں
ہاتھ ڈال دیا ہے، انہیں خوب معلوم ہے کہ جاگیر دار کس قسم اور کس سطح کا
بھی کیوں نہ ہو وہ تنقید اور نکتہ چینی برداشت نہیں کرتا۔ یہ بھی عین ممکن
ہے کہ اس بیان کا جواب تیار کیا جارہا ہو، یا اس کی تردید کی منصوبہ بندی
کی جارہی ہو، یا میڈیا پر آئے بِنا ہی مفتی صاحب کے بیان پر کوئی براہِ
راست رابطہ ہی ہو رہا ہو۔
مفتی صاحب کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، مگر بیان کے پہلے حصے پر بات کرنا
بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ جاگیر داروں نے ملک کو اتنا
نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے فریق دوم کے عمل میں شدت پیدا
کرنے کے لئے اول الذکر کے مظالم کو کم قرار دیا، یعنی جب دونوں قسم کے
جاگیر داروں کی بات ہوئی تو دوسری قسم کو زیادہ خطرناک اور نقصان دہ قرار
دیا۔ اب ایسا وقت آچکا ہے کہ مفتی صاحب کے بقول ’مذہبی جاگیر دار‘ اس قدر
طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ دوسرے جاگیر داروں سے کسی طرح کم نہیں۔ مگر اس
معاملے میں ذرا گہرائی سے دیکھا جائے تو پاکستان میں مذہبی جاگیر دار وں
میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا شمار دونوں قسم کے جاگیرداروں میں ہوتا
ہے، گویا یہ لوگ دوآتشہ ہیں۔ جہاں تک آمدنی کی کہانی ہے تو مذہبی جاگیر
داری میں آمدنی کے ذرائع بہت زیادہ ہیں، مرید دوردراز سے آتے اور نذرانے
پیش کرتے ہیں، عرس کے دنوں میں تو نوٹوں کی بوریاں بھر کر پیر صاحب کے گھر
جاتی ہیں۔ بعض دربار ایسے بھی ہیں، جہاں اولادوں میں وراثت کا تنازع ہوتا
ہے، کیونکہ دربار یا خانقاہ کی وراثت کا مل جانا قارون کے خزانے سے کم نہیں
ہوتا۔ جب پیسہ بے حد وحساب آتا ہے، تو پھر زمینیں بھی بن جاتی ہیں، کاروبار
بھی ہو جاتے ہیں، بیرون ملک بندوبست بھی ہو جاتے ہیں، کروڑوں کی قیمتی
گاڑیاں، عالیشان بنگلے اور اس قسم کی دیگر مراعات، سہولیات تو انہیں میسر
ہی ہوتی ہیں۔ اِن پیروں کا نقشہ اقبالؒ گزشتہ صدی میں ہی کھینچ گئے تھے۔
اپنے ہاں درباروں اور خانقاہوں کے زیادہ تر گدی نشین اپنے بزرگوں کی کمائی
ہی کھا رہے ہیں، انہی کا نام چلتا ہے، زائرین انہی بزرگوں کے نام پر آتے
ہیں،اپنے عقیدے کے لحاظ سے وہ جو کچھ نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ بزرگوں کے
نام پر ہی دیتے ہیں، اگرچہ قبول وہ گدی نشینوں کو ہی ہو جاتا ہے۔ نفس کی
اصلاح کا کام تو اہالیانِ قبور کر گئے، کاروائی کے طور پر یہ ’مذہبی
جاگیردار‘ بھی اپنے مریدوں کو کچھ نہ کچھ درس ضرور دیتے ہیں، کچھ ایسے شکل
وصورت بھی بنا رکھتے ہیں، خیر اگر جُبہ ودستار نہ بھی ہو، تومریدانِ باوفا
برا نہیں مناتے، بلکہ پیر جس صورت میں بھی ہو، وہ پیر ہی ہے۔ مفتی صاحب کے
بقول یہ کاروبار صرف درباروں اور خانقاہوں میں ہی نہیں ہورہا، بلکہ مذہبی
درسگاہیں بھی اس میں شامل ہیں، انہوں نے بھی اپنی ریاستیں قائم کر رکھی
ہیں، وہی ان کی جاگیر ہیں۔ بات جاگیر کی ہے تو پاکستان میں سیاست بھی ایک
جاگیر ہے، پارٹیاں بھی جاگیر داروں کے گھروں کی باندیاں ہیں، جس کی پارٹی
ہے، وہ اس کا مالکِ کُل ہے۔ پارٹی سے آمدنی بھی حاصل ہو رہی ہے، پارٹی کے
ذریعے اپنی حد تک حکومت بھی قائم ہے، الیکشنوں میں کامیابی ہو جائے تو سونے
پہ سہاگہ۔ جو حکمران بن جاتے ہیں وہ ملک کو اپنی جاگیر تصور کرلیتے ہیں۔
بات آزادی کی آجاتی ہے، ان ہمہ قسم کے جاگیر داروں سے نجات کیسے حاصل کی
جائے، کون بغاوت کرے، یہاں تو ہر انسان کسی نہ کسی ’’جاگیر دار‘‘ کے ہاتھوں
مجبور ہے، اس کا پابند ہے۔ کوئی زمینی جاگیر داروں کے ہاتھ، کوئی مذہبی اور
کوئی سیاسی جاگیر داروں کی رعایا ہے، بغاوت کون کرے گا؟
|
|