قیام پاکستان کا مقصد اسلام کا نفاذ تھا

 قیامِ پاکستان کا مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کر لینا ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سوچ، فکر، نظریے اور اصول و قانون کی ترویج کے لیے ایک فلاحی و مثالی مملکت بنانے کا خواب تھا، جس کو مسلمانانِ برصغیر نے برسوں اپنی آنکھوں میں سجایا تھا۔ قیام پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے عظیم مقصد کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے دیے، لیکن ہم بہت جلد ہی قیام پاکستان کے مقصد کو بھول کر باہم سرپھٹول میں مشغول ہوگئے۔ پارٹی بازی، لسانی منافرت، فرقہ ورانہ لڑائیاں، دہشت گردی، سیاست دانوں کی خرمستیاں، اوپرسے نیچے تک کرپشن، میرٹ کا قتل عام، عدالتوں کی بے وقعتی، انصاف کاخون، تعمیر کی جگہ تخریبی ذہن کی پرورش، مثبت کی جگہ منفی سوچ کافروغ، امن و امان اور تحفظ کی بجائے خوف و دہشت اور خون ریزی و سفاکی کے جراثیم کی پرورش، غرض ہم نے مل جل کر قوم و ملک کی تباہی کا ہر سامان کیا۔ ہم نے کرپشن میں ساری قوموں کو پیچھے چھوڑدیا۔ ہمارے حکام اور وزرا کی عیش سامانیاں دیکھ کر امریکا اور روس جیسے متمول ممالک کے حکمران انگشت بدنداں رہ رہ گئے۔ امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔ قانون صرف غریب کے لیے اور امیر نے خود کو ہر قسم کے قانون سے آزاد سمجھا۔ ہم اور ہمارے حکمرانوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کے منافی ہر کام کیا۔ یہ ہے وہ نقشہ جو آزادی کے69 سال گزرنے کے بعد آج ہمارے سامنے ہے، جبکہ لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر الگ ملک حاصل کرنے کا مقصد اسلام کے سنہری اصولوں کا نفاذ تھا، جن کے ہوتے ہوئے ملک کا کوئی بھی شہری اپنے حقوق سے محروم نہیں رہ سکتا، لیکن ہم نے قیام پاکستان کے بعد قیام پاکستان کا مقصد بھلا دیا تو ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ اس ملک میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران مسلمانوں میں جس نعرے نے جوش وخروش پیدا کیا، وہ یہی تھا : ’’پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اﷲ‘‘، جو یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ’’لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ کا قانون و نظام نافذ کر کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک ریاست کا قیام ہی نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا، جہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق معاملات طے کیے جائیں اور اسلام کو ہی ضابطہ حیات بنایا جائے، اسی مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے، لیکن قیام پاکستان کے بعد سب نے مل کر اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے خواب کو پورا نہ کیا اور اسلام کے قوانین کو صرف کتابوں تک محدود رکھا، عملی طور پر اس کو یہاں نافذ نہیں کیا گیا۔ آج کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات خوامخوا کی جاتی ہے، کیونکہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کوئی مذہبی رہنما تو نہیں تھے، جو اسلامی ملک کی بات کرتے۔ حالانکہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے کے لیے مذہبی رہنما ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے اصول و ضوابط تو اس قدر فلاحی اور کامیاب ہیں کہ ان سے متاثر ہوکر کئی غیر مسلم لیڈر بھی اپنے ممالک میں اسلام کو ضانبطہ ریاست بنانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
بانیان پاکستان اگرچہ کوئی مذہبی لیڈر نہ تھے، لیکن ان کے کہے گئے الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے علیحدہ وطن کے قیام کے تصور کو نہایت واضح کرتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:’’میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے، ان سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کرسکے‘‘ اور اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کی اساس کچھ یوں بیان کی: ’’ایک سبق جوکہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھاہے کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جوکہ مسلمانوں کو نجات عطاکرے گا، نہ کہ اس کے برعکس کچھ اور…لہٰذا آپ اپنی نظر کو اسلام پرمرکوز رکھیں۔‘‘ اسی طرح علامہ اقبال نے 28مئی1937ء کو ایک خط میں بانی پاکستان محمد علی جناح کولکھا: ’’اسلامی شریعت کانفاذ اور ترویج مسلمان ریاست یاریاستوں کے قیام کے بغیرناممکن ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی مسائل کاحل اسی میں ہے۔‘‘

قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد کو نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کرتے رہے ہیں۔ قائداعظم نے31 جنوری 1948ء کواسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: "ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘ 25/جنوری1948ء کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا : ’’میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ا یسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو، بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ 4/ فروری 1948ء کو سبی میں خطاب کے دوران فرمایا: "میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے، جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔‘‘بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے۔ اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو یہ اسلام نہیں ہے، کیوں کہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔‘‘ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب، ایک امت۔‘‘

اگر غیر جانبداری کی عینک اتار کر تحریک پاکستان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کے ساتھ آزاد ہونے والی ریاست کو اسلامی اصولوں پر چلانا بھی تحریک آزادی کا مقصد تھا۔ اسی مقصد کے لیے مذہبی رہنماؤں نے طویل جدوجہد کی ہے، جس کے بعد پاکستان کو آزادی حاصل ہوئی۔ ماضی بتاتا ہے کہ 1757ء کی جنگ پلاسی میں مسلمانوں کو شکست کے بعدچلنے والی قریباً دو سوسال پہ محیط مسلمانوں کی یہ تحریک شاہ عبدالعزیز اور پھر ان کے جانشین سیداحمدشہید اورسیداسماعیل شہید کی تحریک المجاہدین کی شکل میں چلتی رہی اور پھر1831ء میں سیدین کی شہادت کے بعد1857ء کی جنگ آزادی اورپھربنگال سے فرائضی تحریک کے نام سے چلی۔ یہی تحریک 1886ء میں سرسیدکی آل انڈیا محمڈن کانفرنس اور 1919ء میں مولانا محمد علی جوہر اورمولانا شوکت علی کی زبردست تحریک خلافت کے پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگئی اور پھراس کے بعد اقبال اورقائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی تحریک تقسیم ہند کے نتیجہ میں قیام پاکستان کے بالآخر اغراض ومقاصد کیاتھے۔ تاریخی تناظرمیں اس عظیم الشان تحریک کے اصل محرکات ،اغرا ض ومقاصد اورمدعا کا مختصر اور جامع جواب ’’دوقومی نظریہ’’ اور ہندومسلم تہذیب کا ٹکراؤ تھا۔مسلمان اپنی تہذیب کو نافذ کرنا چاہتے تھے، جبکہ ہندو اس کی راہ میں رکاوٹ تھے۔اسی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا، تاکہ آزاد ریاست میں اپنی اسلامی تہذیب کا نفاذ کرسکیں۔ اب بانیان پاکستان کی زبان سے پاکستان میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے یہ تمام شواہد سامنے آجانے کے بعد بھی اگر اسلام کے روشن اصولوں کو نافذ کرنے سے روگردانی کی جائے یا بلاوجہ بانیان پاکستان کے سیکولر یا اسلامی ہونے کی بحث چھیڑ کر قیام پاکستان کے مقصد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے تو میرے خیال میں یہ پاکستان کے حصول کے لیے جانیں دینے والے لاکھوں شہداء اور بانیان پاکستان کی روحوں سے بدترین خیانت ہوگی کیونکہ قیام پاکستان کا جو مقصد بانیان پاکستان اپنی زبانوں سے بیان کر گئے ہیں اور ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کے جس نعرے پر لاکھوں لوگ اپنی جان قربان کر گئے ہیں، اس کے بعد یہاں اسلام کے سنہری اصولوں کو نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.