خدا کے رنگ

میں اپنی زندگی کے خوبصورت سحر انگیز سفر کو ہر گزرتے منظر کے ساتھ خو ب انجوائے کر رہا تھا میرے چاروں طرف قدرتی مناظر کا طوفان اُمڈ ا ہوا تھا فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلو گر تھی ہر گزرتے منظر کے ساتھ میرے اوپر سرشاری اور سحر میں اضا فہ ہو تا جا رہا تھا کیونکہ میری نظریں آج سے پہلے ایسے سحر انگیز منا ظر دیکھتے کی عادی نہیں تھیں بلاشبہ پو ری کا ئنات خدا کے جلوؤں سے بھری پڑی ہے لیکن یہاں پر تو فطرت کچھ زیا دہ ہی مہربان نظر آرہی تھی ہما ری طا قتور فور ویل جیپ بر ق رفتاری سے مانچسٹر ( یو کے ) سے سکاٹ لینڈ کی طرف دوڑ رہی تھی میں جو بچپن سے فطرت پر ستی میں گرفتار ہوں جہاں بھی کو ئی خو بصورت منظر نظر آیا مجھے خدا کی ذات یا د آگئی کہ یہ منا ظر اگر اتنے خو بصورت ہیں تو میرا رب کتنا پیا را ہو گا جو لوگ بھی مانچسٹر سے سکاٹ لینڈ سفر کر چکے ہیں وہ یقینا اِس جنت نظیر وادی کے سحر سے لطف اندوز ہو ئے ہوں گے ہما رے دونوں طرف پہا ڑی علا قہ تھا جس نے سبز مخملی چادر اوڑھی ہو ئی تھی میرا تجسس آخر ی حدوں کو چھو رہا تھا اور روح ساتویں آسمان پر جھوم رہی تھی اچانک کبھی کو ئی ندی یا د ریا آجا تاتو وادی کے حسن کو چار چاند لگ جا تے اچانک ایک مو ڑ کا ٹا تو وادی دور تک پھیلتی چلی گئی سینکڑوں کی تعداد میں سفید رنگ کی بھیڑیں قدرتی جڑی بو ٹیاں اور گھاس چرتی نظرآئیں یہ بھیڑیں دنیا وما فیا سے بے خبر اپنے حصے کی خو راک اِس جنت نظیر وادی سے حاصل کر تی نظر آئیں اوپر سے سورج اور با دلوں کی آنکھ مچولی نے وادی کے حسن کی آگ کو بھا نبھر بنا دیا اب یہاں پر کہیں پر با دلوں کی چھا ؤں تھی تو کہیں پر دھو پ نے وادی کے حسن کو نکھا ر کر رکھ دیا تھا بھیڑیں اور دوسرے جانور با دلوں کی دھوپ چھاؤں اور دور تک تہہ در تہہ مخملی گھا س کی ڈھلوانیں تیز ٹھنڈی ہوا ، سبزا، پھول، درخت، پہا ڑی سلسلہ اور جانور۔ میں نے فوری طو ر پر گا ڑی روکنے کی آواز لگا ئی گا ڑی رکی اور میں چھلانگ لگا کر سڑک پر آگیا سڑک پر آتے ہی سڑک سے اُتر کر وادی کی جنتی آغوش میں اتر کر ایک پہا ڑی ٹکڑے پر بیٹھ گیا میں معصوم بچے کی طرح اِس دلکش ترین منظر کو دیکھ رہا تھا میں خو د کو اِس سحر انگیز منظر کا ایک حصہ سمجھ رہا تھا میں جو ایک منظر کو دیوانہ وار انجوائے کر تا تھا یہاں پر تو دل کش سحر انگیز منا ظر کی برسات نظر آرہی تھی مجھے لگ رہا تھاکہ میں کسی بہت بڑے آرٹسٹ کی میں پینٹنگ دیکھ رہا ہوں اِس غیر معمولی پینٹنگ کا خالق خدا تھا یقینا خدا سے بڑا ا ٓرٹسٹ کو ئی نہیں میں حیران تھا اِس جنت نظیر وادی کو دیکھ کر بھی اگر کسی کو خدا یا د نہیں آتا تو یقینا وہ عقل شعور نہیں رکھتا ہو گا میں حیران تھا کہ گوروں کے دیس میں خدا نے حسن نگری آباد کر دی تھی میں آسمان کو اور وادی کو دیکھ کر اپنی آنکھوں اور دماغ کو تر و تا زہ کر رہا تھا پھر میں نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دئیے میں وادی کی صاف شفاف ہوا کو زیا دہ سے زیا دہ اپنے پھیپھڑوں میں بھر رہا تھا اور خو ب جی بھر کر اپنی بے نور آنکھوں کو خدا کے جلوؤں سے بھر رہا تھا ۔ میں حیران تھا کر اِس دیس میں زیا دہ تر لوگ خدا کو بھول چکے ہیں وہ اِس وادی کو دیکھ کر کیسے خدا کے وجود سے انکار کر تے ہیں اگر کوئی بڑے سے بڑا ملحد بھی اِس جا دونگری کو آنکھ بھر کر دیکھ لے تو یقینا وہ خا لق کا ئنات پر ایمان لے آئے مجھے شدت سے لندن کے شاہ صاحب بر منگھم کے قاری صاحب مانچسٹر کے قاری صاحب بریڈ فورڈ کی کشمیری فیملی اور لیڈز کے پیر صاحب بہت یا د آئے جن کے بچے اسلام کو چھو ڑ چکے تھے جو خدا کے وجود سے ہی انکاری ہو چکے تھے یہ بیچارے میرے سامنے سوالی بن کر آئے کہ ہما رے بچے اب خدا کو ہی نہیں مانتے آپ کو ئی دعا بتا ئیں یا وظیفہ تا کہ ہما رے بچے اب خدا اور اسلام کی طرف واپس آجائیں اِن کے ساتھ میں نے لمبی لمبی گفتگو کی نشستیں بھی کیں تا کہ یہ بچے دوبا رہ اسلام کے نور میں رنگے جا سکیں یہ بچے اور با قی پا کستان اور دنیا بھر میں بے شمار ایسے لوگ جو خدا کے وجود سے ہی انکاری ہیں اُن کی خدمت میں عاجزانہ سوال ہے کہ یہ سحر انگیز منظر کیسے وجود میں آگئے یہ دنیا جو حسین ترین منا ظر سے بھری پڑی ہے خدا ئے بزرگ برتر جو نیلگوں فضاؤں سمندروں اور کہساروں کو لا زوال حسن بخشتا ہے یہ خدا کے وجود کا اقرار نہیں کر تے خلا کی تا ریکیوں میں انجم کے چراغ کس نے جلا ئے ، شب و روز کا سلسلہ کس نے قائم کیا ، شبنم کو لطافت ، پھولوں کو خوشبو اور رنگینی سمندروں دریا ؤں کو پنہا ئی کس نے بخشی یہ جھومتے با غ لہلہاتے سر سبز کھیت دو دھیا چاندنی سیا ہ حسین رات اور اُس کا سنا ٹا سانولی شام رخشندہ سحر سریلے جھرنے رقص کر تی موجیں رشک گلاب چہرے جن سے رنگ و نور کے سیلاب امڈتے ہیں گجرالی آنکھیں، آنکھوں میں پھیلتا کا جل، مشکیں سنہری زلفیں رعنا قامتیں نیم خوابیدہ کلیاں نرم و نازک رنگ برنگے پھول ان پر اڑتی رنگ و نور میں لپٹی ریشمی تتلیاں حد نگا ہ تک پھیلے سبزے صبح کی پہلی کرن اور ڈوبتا سورج چٹانوں سے پھوٹتے جھرنے پہاڑوں سے گرتی آبشاریں دیو ہیکل بلند و قامت درخت، سینکڑوں سال پرانے درخت ندیاں دریاسمندر جھیلیں جھرنے آسمان سے برستی برسات سورج چاند تارے آسمان پر اڑتے با دل زمین پر معصومیت سے لبریز کھیلتے کو دتے معصوم بچے جوان صحت مند جسم اور چہرے ان چہروں سے زندگی اور حسن کی پھوٹتی کر نیں معصوم نور میں ڈوبے بو ڑھے اور اُن کی گہری جھیل سے آنکھیں جوبن پر آئی فصلیں اور ان کی خو شبو ایک لمبی عمر اس کائنات کے حسن کو دیکھنے کے لیے چاہیے۔حیرت ہو تی ہے جب کو ئی کا ئنا ت میں کروڑوں منا ظر کو دیکھ کر بھی خا لق کی طرف متو جہ نہیں ہو تا کا ئنات کا اِن حسین منا ظر سے بھرا ہو نا اِس کا ئنات میں تر تیب اور تنو ع خا لق کی گوا ہی نہیں ہے؟ اِن ملحدوں کو خدا کے جلو ے کیوں نظر نہیں آتے مجھے آج بھی یا د ہے جب مری میں سردیوں کا مو سم آتا تو ملکہ کو ہساربر ف کی چادر اوڑھ لیتی بر فیلی ہو ائیں چلتی درختوں کے سارے پتے جھڑ جا تے گھا س پھو ل اور پتے بر ف سے جل جا تے دور دراز تک برف ہی برف نظر آتی اور پھر جب ما رچ اپریل میں مو سم بدلنے لگتا بر فیلی ہوا ؤں کی جگہ ہوا میں حرارت آنی شروع ہو تی برف پگھلنے لگتی تو چشمے ابل پڑتے ننگ دھڑنگ دیو قامت درختوں پر سبز پتے لگ جا تے پہا ڑوادیاں رنگ برنگے نیلے پیلے سرخ جامنی پھولوں سے بھر جاتیں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلو ہ گر ہو جا تی وادی کا حسن کما ل کو پہنچ جا تا یہ خوبصورت تبدیلی کیا خدا کے وجود کا ثبو ت نہیں ہے سائنس یہ کہتی ہے یہ زمین سورج کا ٹکڑا تھی اس سے الگ ہو گئی اب سورج کا درجہ حرارت چھ ہزار سنٹی گریڈ ہے اِس کھولتے ہو ئے جہنم میں تو ہر چیز جل کر خا کستر ہو جا نی چاہیے تو اِس زمین اور پہا ڑوں سے پھو ل پھل کیسے نکلے پا نی کے جھرنے کیسے پھو ٹے سائنس کہتی ہے کہ زمین ہزاروں سال تک جلتا ہوا جہنم تھی اتنی شدید آگ میں پھولوں پھلوں کے بیج کیسے زندہ رہے ایسی زمین کو تو جل کر کو ئلہ ہو جا نا چاہیے تھا پھر اِس کو ئلے سے زندگی پا نی جھرنے آبشاریں ندیاں کیسے برآمد ہو ئی اِس جلتی سلگتی ہو ئی زمین میں بھی یہ تمام چیزیں سلا مت رہیں سورج کے شعلوں کے اندر زندگی اور بیج کو قائم رکھنے والی ذات یا پراسرار ہا تھ ہی خدا ہے خدا نے ہی اِس جہنم میں بھی زندگی کو برقرار رکھا جب ہم اِس با ت پر غور کر تے ہیں تو سر نیاز جھک جا تا ہے اور جبیں خدا کے آگے سجدوں کے لیے بے تا ب ہو جا تی ہے ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.