بھارت یاترا- احساس کمتری اور کپڑے دھونا

پشاور سے چنائی جا کرجب پتہ چلا کہ یہاں بجلی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تو عجیب سی احساس کمتری کا احساس ہوا-ہاسٹل میں کپڑے پریس کرنے پر پابندی پر جب ساتھی طلباء سے پوچھا تو پتہ چلا کہ صرف چنائی میں کسی حد تک بجلی کم جاتی ہے لیکن دیگر علاقوں میں صورتحال پاکستان کی طرح ہے- سن کر یقین نہیں آیالیکن جب ہفتے بعد پورے دو گھنٹے کیلئے بجلی چلی گئی تو ناچنے کو دل کررہا تھاکہ شکر ہے کہ یہ بھی ہماری طرح خوار ہیں- ہم ایشیائی باشندے ویسے بھی اس پر خوش ہوتے ہیں کہ چلو ہم تو خوار ہیں ساتھ والا پڑوسی بھی خوار ہیں تو پھر پروا نہیں ہوتی
اپنے کپڑے دھونا کتنا مشکل عمل ہے اس کا اندازہ ہمارے وہ مرد حضرات جنہیں سب کچھ تیار ملتاہے نہیں کرسکتے- راقم سمیت بیشتر لوگ غلطی سے کپڑے نہیں دھوتے- کپڑوں کے دھونے سے لیکر استری کرنے اور پھر ہرطرح سے تیار کرکے پہننے کیلئے دینا کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے اس کیفیت کاان خواتین سے پوچھیں جو گھروں میں رہ کر ہمارے کپڑے دھوکر استری کرکے ہمیں دیتی ہیں- اب تو مارکیٹ میں ایسے صابن اور سرف مل رہے ہیں جو خواتین کے ہاتھوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں لیکن ہم بیشتر مرد کپڑوں کی استری ، ذرا سے لگے داغ پر گھر والوں کوبشمول بیوی ، بہن ، والد ہ کیساتھ کتنی بدتمیزی اور غصے سے سے بات کرتے ہیں- یہ سوچنے کی بات ہے- ہمارا میڈیا بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کرتا-کپڑے دھونے کیلئے استعمال ہونیوالے صابن اور سرف کے اشتہار میں بین الاقوامی کمپنیاں خواتین کو ہی لاتی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ کام صرف خواتین ہی کا ہے کبھی اس میں مردوں کو بھی شامل کرکے دکھائیں تاکہ ہم لوگوں میں کچھ تبدیلی تو آجائیں - کم از کم اپنے گھر والوں کیساتھ کپڑے سکھانے کیلئے گھر کی چھت پر لے جا کر ڈالنے کی ہمت تو کردیں-

اپنے لئے کپڑے دھونا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ چنائی میں ہاسٹل کے دوران ہوا- پہلی دفعہ تو افغان صحافی دوست نے میرے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کپڑے مجھ سے لئے تھے اس لئے پتہ نہیں چلا کہ کپڑے کیسے دھوئے گئے لیکن مجھے تیار مل گئے تھے اس لئے قدرنہیں کی استری نہیں ہوئے تھے اس لئے ساتھی دوست سے سوال کیا کہ بھائی استری نہیں کی اس نے ہنس کے جواب دیا کہ یہاں پابندی ہے سو اس کے جواب کو میں نے لائٹ لیا- لیکن ایک ہفتے بعد جب شرٹ اور پینٹ گندے ہوگئے تو احساس ہوا کہ اسے دھونا چاہئیے-اسی افغان صحافی دوست سے پوچھا سرف کہاں سے ملے گا اس نے بازار کی راہ دکھادی- کالج کے سامنے واقع گٹر مارکیٹ جو کہ حقیقی معنی میں گٹر ہی تھاکیونکہ ہر وقت گندی نالیوں کا پانی سڑک پر کھڑا ہوتا تھا - وہاں پر خاتون دکاندار سے سرف کا پیکٹ لیا جو کہ پاکستانی روپے میں بیس روپے کابنتا تھا جبکہ وہاں پر اس کی قیمت دس روپے تھی-

ہاسٹل میں آنے کے بعد طلباء کے نچلے سیکشن میں پڑے کپڑے دھونے کی مشین کوآن کیا -جس پر صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ یہ کمرشل استعمال کیلئے ہے چونکہ پہلی مرتبہ تھا اس لئے اسے سمجھنے کیلئے افغان دوست جو کہ صحافی تھا اور اسے کپڑے دھونے کا تجربہ بھی تھا اس نے بتا دیا کہ کتنے کپڑے ڈالنے ہیں اورساتھ میں سرف جو کہ لیکوئیڈ میں بھی ملتا ہے کو ڈالنے اور بٹن دبانے کے مرحلے سے آگاہ کیا- ا س مشین کی یہ خوبی تھی کہ صرف کپڑے ڈالے ، گرم یا ٹھنڈے پانی سے دھونے کا بٹن دبایا اور پھر بتیس منٹ کیلئے چھوڑ دیا اسی دوران کپڑوں سے پانی بھی نکل جاتا ، دھل بھی جاتے اورمشین سے نکال کر دس منٹ سوکھنے کیلئے رکھنے ہوتے تھے- پہلے دن یہ تمام عمل کرکے کتنا برا لگ رہا تھا عجیب سی کیفیت تھی کہ یہ بھی کوئی بات ہے کہ پاکستان سے آنیوالا صحافی اپنے کپڑے خود دھوئے گا- لیکن ساتھ ہی دل کو یہ تسلی بھی دے رہا تھا کہ چلو کون دیکھ رہا ہے اس میں شرمانے والی کیا بات ہے کپڑے دھل گئے اور سکھانے کیلئے رکھ دئیے -سوکھنے کے بعد استری کرنے کا مرحلہ آیا تو بتایا گیا کہ بھائی صاحب ہاسٹل میں شیو کرنا ، برش کرنا سمیت استری کرنا بھی منع ہے وجہ پوچھنے پر بتایا گیاکہ پانی کی کمی ہے ساتھ میں بجلی کی کمی ہے اس لئے ان چیزوں کا استعمال احتیاط سے کریں-

پانی کے کم استعمال سے متعلق سرکلر تو باتھ روم کی دیوار پر دیکھا تھا لیکن استری نہ کرنے کے حوالے سے سن کر عجیب سا لگا- لیکن پھر بغیر استری کپڑے پہن لئے اور ایسی عادت ہوگئی کہ چار ماہ میں کبھی غلطی سے بھی استری کا نہیں سوچا-

پشاور سے چنائی جا کرجب پتہ چلا کہ یہاں بجلی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تو عجیب سی احساس کمتری کا احساس ہوا-ہاسٹل میں کپڑے پریس کرنے پر پابندی پر جب ساتھی طلباء سے پوچھا تو پتہ چلا کہ صرف چنائی میں کسی حد تک بجلی کم جاتی ہے لیکن دیگر علاقوں میں صورتحال پاکستان کی طرح ہے- سن کر یقین نہیں آیالیکن جب ہفتے بعد پورے دو گھنٹے کیلئے بجلی چلی گئی تو ناچنے کو دل کررہا تھاکہ شکر ہے کہ یہ بھی ہماری طرح خوار ہیں- ہم ایشیائی باشندے ویسے بھی اس پر خوش ہوتے ہیں کہ چلو ہم تو خوار ہیں ساتھ والا پڑوسی بھی خوار ہیں تو پھر پروا نہیں ہوتی -

بات کپڑے دھونے کی ہورہی تھی - صرف اپنے کپڑے دھونا جو کہ مشین سے ہو بڑا صبر آزما کام ہے کیونکہ وقت پر جا کر دیکھنا بھی بڑا عذاب ہے کبھی کبھار بجلی چلی جائے تو لیٹ کپڑے دھلتے ہیں- ہاسٹل میں قیام کے دوران خواتین کی مشکلات کا احساس ہوا کہ کتنی مشکل سے پورے گھر کے کپڑے دھوتی ہیں- کبھی بچوں کو سنبھالتی ہیں کبھی مہمانوں کو سنبھالتی ہیں کیونکہ بعض اوقات مہمان بھی آجاتے ہیں- گھر داری بھی کرنی پڑتی ہے - اور ایسے میں اگر ہماری مائیں ، بہنیں یا جن کی شادی ہو چکی ہوں بیوی شام کو تھکن کی بات کرے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کچھ نہیں کرتی یہ تو گھر میں پڑی رہتی ہیں اور ہم اپنا سینہ پھلا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ دس گھنٹے ، بارہ گھنٹے کی ایک ڈیوٹی کرکے ہم مرد تو پورے جہان کو تبدیل کرکے آئے ہیں-

چنائی میں دوران تربیت یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں پر سٹیشنری بشمول کاپیاں ، بال پوائنٹ پاکستان کی بہ نسبت کم قیمت ہیں جس کاپی کی قیمت پاکستان میں ڈیڑھ سو روپے ہوتی ہے وہاں پر پچاس روپے میں ملتی ہے ٹھیک ہے کہ بھارتی روپے ہمارے پاکستان میں دگنا ہے لیکن پھر بھی کوالٹی میں وہاں پر بننے والی کاپیاں بہتر ہوتی ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498176 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More