ضروری نہیں آدمی جیسا سوچے حقیقت میں بھی
ویسا ہی ہو جائے یا جو جیسا دکھتا ہو اپنی اصل میں بھی ویسا ہی ہو۔ کوبرا
دکھنے میں بڑا خوب صورت رینگنے والا کیڑا ہے لیکن اس کا ڈسا پانی نہیں مانگ
پاتا۔ شہید کی مکھیوں کی آواز دور سے بھلی لگتی ہے لیکن جس کے پیچھے پڑتی
ہیں اس کا بوتھا ہی نہیں پنڈا بھی سوجھا کر رکھ دیتی ہیں۔ پیجو نے یاسین کی
چکنی چوپڑی باتوں میں آ کر خاوند کو ذلیل و خوار کیا پھر اپنی دو چھوٹی
چھوٹی بچیوں کو نظر انداز کرکے اس سے طلاق لے لی۔ موج مستی کے شائق زبانی
کلامی کے خوب ماہر ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر منفی صفر بھی نہیں ہوتے۔ پہلے
یاسین کے بعد کئی یاسین آئے پیجو کی زبانی کلامی کی دنیا آباد کرکے اپنی
اپنی دنیا میں لوٹ گئے۔
مثل مشہور ہے جیسی کوکو ویسے بچے‘ پیجو کی دونوں بیٹیاں ماں کے قدموں پر
تھیں۔ اینی کی ہمیشہ گرفت مضوط رہی۔ اس نے فصلی بٹیروں کو اشاروں پر خوب
نچایا اور انہیں موج مستی کی تپتی دھوپ میں اکیلا چھوڑ کر چلتی بنی۔ اؤل
فول بکتے رہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آخر کب تک میاں جولاہیا صاحب اس
معاملہ میں اس کے بھی پیو نکلے اور پھر اسے اپنی دنیا میں لے گئے۔ پیجو کے
لیے یہ کوئی خاص اور صدمہ خیز بات نہ تھی۔ اینی کی اس کی دنیا میں قدم پڑنا
تھا کہ وہ ہزارپتی سے لکھ پتی اور کروڑوں پتی ہوا۔ دولت کیا آئی اینی کا
نٹکا آسمان جا لگا۔ لوگ کیا جنم بھومی بھی اسے پہلے میلی میلی پھر گندی
غلیظ لگنے لگی۔ پھر وہ اپنی دانست کی صاف ستھری
دھرتی پر جا بسی۔
پیجو پہلے ہی تکبر اور نخوت میں شیطان کی نانی تھی۔ منہ متھے ہی نہیں لگتی
تھی بل کہ اردگرد کی کمائی بھی بہت تھی۔ ہاں البتہ یہ کمائی ان حد نہ تھی۔
اینی کی ٹیک نے اسے پہلے سے زیادہ باحوصلہ خداوندی سے سرفراز کیا۔ اس نے
اپنے دور میں کچے پکے سے لوگ دائرہءاسلام میں داخل کیے تھے اس لیے اینی نے
انہیں دائرہءسلام سے نکال باہر کیا۔ یہ لوگ میں کی بھی حس رکھتے تھے۔ کچھ
زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی۔ انو اور بوچھو نے اس کے سلام میں مکمل طور پر
داخل ہو گئے۔ پھر کیا تھا‘ دنوں میں رنگے گئے اور لاکھوں کی گنتی ان پر بھی
اترنے لگی۔
انو اور بوچھو پر اینی نما پیجو کے سلام نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ انہیں بھی
اردگرد کے لوگ غیر مہذب معلوم ہونے لگے۔ ان کے دلوں میں یہ خواہش شدت
اختیار کرنے لگی کہ کنبہ کے سب لوگ ناصرف ان کے قدم لیں بل کہ ان کی خدا کو
جھک کر سلام کریں اور انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلائیں۔ رجو اور نجو شدت
سے ان کے مخالف ٹھہرے۔ بےبی کو بٹوں میں خارج کر دیا کہ حصہ داری کا دعوی
نہ کر دے یا سلام میں کہیں آگے نہ نکل جائے۔
پیجوی سلام سے متاثرہ صودی بابے شاہ کے پاس گیا۔ بابا صاحب سوکھی روٹی پانی
میں بھگو بھگو کر کھا رہے تھے۔ ساتھ میں کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ وہ حیران
ہوا اور سوچ میں پڑ گیا کہ بابا صاحب تو سوکھی روٹی کے ذائقے سے بھی بالاتر
ہو گئے تھے۔ انہوں نے صودی کی طرف دیکھا مسکرائے اور کھانے میں شملولیت کی
دعوت دی۔ وہ بھوک سے تھا لیکن اینٹ پر پڑی پون روٹی میں سے کیا لیتا۔ جب اس
نے نہ لی تو بابا صاحب نے خود ہی آدھی روٹی اسے تھما دی۔ وہ بھی بابا صاحب
کی پیروی میں پانی میں بھگو بھگو کر روٹی کھانے لگا۔ وہ روٹی دیکھنے میں
عام روٹیوں کی طرح کی تھی لیکن اس کا ذائقہ قناعت و صبر کی لذت سے مالا مال
تھا۔ ایسے لقمے آج تک اس کے حلق سے نیچے نہ اترے تھے۔
کھانے سے فراغت کے بعد بابا صاحب نے فرمایا بیٹا نمرود‘ فرعون‘ یزید اور
مقتدر لذت کے لوگ تھے۔ یاد رکھو لذت ہمیشہ کی چیز نہیں۔ عبرت ناک موت اس کا
مقدر ہے۔ یاد رکھو کہ صبر برداشت شکر اور قناعت کے لیے موت نہیں۔ یہ ہی
زندگی ہیں۔ ان سے پیوست شخص مرتا نہیں اور ناہی یہ موت و مات کی گرفت کی
چیزیں ہیں۔ بابے شاہ کے لفظوں میں دم تھا اور لفظوں نے صودی کو ان تھک شکتی
دان کی۔ وہ بابے شاہ کے پاس آیا تھا زندگی کی سرحدوں سے باہر نکل چکا تھا
لیکن اب وہ زندگی کیباہوں میں تھا- |