قاضی عبدالودودکا اسلوبِ تحقیق
(Safdar Imam Qadri, India)
ہندستان کی متعدد زبانوں کے مقابلے میں
اردو میں معیارِ تحقیق کے قدرے اطمینان بخش ہونے کی بات پر اگر ہم آج فخر
کرتے ہیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں قاضی عبدالودود کے ہاتھوں
اپنے سابقین اور معاصرین کے سخت احتساب کی بہ دولت یہ علمی معیار قائم
ہوا۔دبستانِ عظیم آباد کو یہ فضیلت حاصل رہی کہ بیسویں صدی کے ربعِ اول کے
بعد پوری نصف صدی تک قاضی عبدالودود اور کلیم الدین احمد نے اردو تنقید و
تحقیق پر معیار بندی کے تعلّق سے اپنی تحریروں سے واضح حکمرانی کی۔ اس
دوران نہ جانے کتنے نام نہاد نقاد اور محقّقوں کے بُت ٹوٹے اور کتنے
مسلّمات کی بنیادیں کمزور ہوئیں۔ اردو میں پوری ترقی پسند تحریک کے متوازی
ہمارے ان دونوں بزرگوں نے فی الحقیقت ادبی جمہوریت کی ایک دانش گاہ قائم کر
رکھی تھی جس کے نتیجے میں جاگیردارانہ ادبی ثقافت کی بنیادیں کمزور ہوئیں
جنھیں ترقی پسند تحریک کے دانشوران بھی اس وقت تک مسمار نہیں کرسکے تھے۔ اس
اعتبار سے قاضی عبدالودود اور کلیم الدین احمد کی تاریخی حیثیت سے کوئی
کافر بھی انکار نہیں کرسکتا۔
علمی اعتبار سے ان کے سکّۂ رائج الوقت ہونے کا شاید لاشعوری طور پر ردِّعمل
بھی ہوا۔ ان بزرگوں کی وفات کے بعد انھیں نہیں یاد کرنے کی قسمیں کھائی
گئیں۔ ان کی تنقید و تحقیق سے جو زخم خوردہ تھے، وہ اور ان کی اگلی نسلوں
نے منظم طریقے سے انھیں بھلانے کی کوششیں روا رکھیں۔ آج جہاں چھوٹے اورکم
اہمیت کے اصحابِ قلم پر سے می نار اور مذاکرے ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن کلیم
الدین احمد اور قاضی عبدالودود کی کسے یاد آئی؟ قاضی عبدالودود کی پیدایش
کے سو سال پورے ہوئے لیکن کسی بندۂ خدا کو یہ یاد نہیں رہا۔ کلیم الدین
احمد کی پیدایش کے سو برس تو ابھی کل کی بات ہے لیکن بہار کو بھی یہ یاد
نہیں آیا۔ پورے ملک میں ایک سوچی سمجھی سردمہری رہی ، اس کے باوجود یہ کیسے
کہا جائے کہ تنقید و تحقیق کے منظر نامے پر ان بزرگوں کا مقام و مرتبہ ذرا
بھی کم ہوسکا؟ رسائل و جرائد میں نئے پرانے لوگوں کے مضامین کے صفحات الٹتے
جائیے ، تنقید کے امور زیرِ بحث ہوں گے تو کلیم الدین احمد کے اقتباسات
آئیں گے اور اگر تحقیق کا امر قابلِ غور ہو تو قاضی عبدالودود کے بغیر کس
کا کام چلنے والا ہے؟ جنھیں اختلاف بھی کرنا ہے، انھیں بھی ان بزرگوں کے
اقوال کے دائرے میں رہ کر ہی بحث کرنی پڑتی ہے ۔ ادبی طور پر ان بزرگوں کی
تاریخی معنویت نامساعد حالات کے باوجود کچھ اسی انداز سے آج بھی قائم و
دائم ہے۔
قاضی عبدالودود پر گفتگو کا محل ہے لیکن کلیم الدین احمد ہمیں اس طور پر
یاد آتے ہیں کیوں کہ دونوں نے ہر چند پورے ملک کے اہالیانِ قلم کے تیر
کھائے لیکن ایک دوسرے کی سچی قدر و قیمت خوب خوب سمجھتے تھے۔ اسی لیے’
نقوش‘ کے ’شخصیات نمبر‘ میں کلیم الدین احمد کی خدمات کا اعتراف کرنے کے
لیے قاضی عبدالودود نے خود کو پیش کیا اور قاضی عبدالودود پر جب خصوصی
شمارہ مرتّب کرنے یا ان کے مضامین کی تدوین کی بات سامنے آئی تو کلیم الدین
احمد نے یہ ذمّہ داری اٹھائی۔ قاضی عبدالودود کے کاموں کے بارے میں اردو کے
بڑے لکھنے والوں نے جو غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھیں، کلیم الدین
احمد نے اپنے مضامین میں ان کا جواب دیا اور اردو ادب میں قاضی عبدالودود
کی ادبی اہمیت کے خاص خاص عنوانات اتنے سلیقے سے مقرر کیے جن سے قاضی شناسی
کی واضح روایت قائم ہوتی ہے۔ انھوں نے قاضی عبدالودود کی شخصیت کے مختلف
پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ آخر قاضی عبدالودود کو
کیوں کر لوگوں نے تنبیہہ الغافلین کادرجہ دے رکھا ہے۔
قاضی عبدالودود نے اپنے ایک مضمون میں تحقیق کی تعریف یوں کی ہے: ’’تحقیق
کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے‘‘۔اس ایک جملے میں ہزار
اصول و ضوابط پنہاں ہیں۔ ان کے مختلف مضامین سے ان کے تحقیقی اسلوب کے خاص
خاص عناصر پہچانے جاسکتے ہیں۔ قاضی عبدالودود نے اپنے مضامین میں جن
اصولیاتِ تحقیق پر توجہ دی اور انھی کا پابند بننے بنانے کے لیے ایک عالَم
کو تیار کرنا چاہا، یہ اصول یا محقّقین سے تقاضے فی الحقیقت ایک مثالی
تحقیق کے عناصرِ ترکیبی ہیں۔پوری اردو تنقید و تحقیق میں ان اصولوں کے
سلسلے سے قبولیت کے اطوار سامنے آئے۔ وہ افراد جنھوں نے بار بار قاضی
عبدالودود کو تخریبی تحقیق یا منفی تحقیق کا علمبردار قرار دیا، انھوں نے
بھی قاضی صاحب کے مضامین سے تحقیقی اصول اخذ کیے اور ان کا اطلاق مقدور بھر
اپنی تحریروں میں کیا۔ قاضی عبدالودود کی تحریروں سے سب نے تحقیق و تدوین
کے آداب سیکھے اور اسی سے اردو تحقیق کا عمومی معیار بلند ہوا۔
قاضی عبدالودود کے تحقیقی اسلوب پر مختلف نقّادوں اور محقّقین نے
بالاستیعاب گفتگو کی ہے۔ گیان چند جین اور مسعود حسین خاں نے علی الاعلان
اپنے اعتراضات پیش کیے۔ اسلوب کے تعلّق سے ان علما کو جوقابلِ گرفت بات نظر
آئی، ان میں خاص امور مندرجہ ذیل ہیں:
الف مخفّفات اور مخصوص نشانات کی حد درجہ شمولیت سے ان کے مضامین ناقابلِ
مطالعہ ہوجاتے ہیں۔
ب۔ حوالہ جات اور مثالوں کی وجہ سے ان کے مضامین بوجھل اور کھتونی سازی کا
نمونہ بن جاتے ہیں۔
ج۔ اپنے شائع شدہ تحقیقی مواد پر نظرِ ثانی اور کئی بار ردّوقبول کے مراحل
سے گزرنے کے سبب قاضی عبدالودود کے حقیقی نتائج تک پہنچنا کسی بھی شخص کے
لیے آسان نہیں۔
د۔ مضامین اور کتابیں چھپائی کے نئے اصول و ضوابط سے مرتب نہیں کرنے کی وجہ
سے قاضی عبدالودود کے مضامین سے استفادہ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
ہ۔ قاضی عبدالودود اپنے بزرگوں اور معاصرین پر بے جا طنز کرتے ہیں، جو کسی
محقّق کے اندازِ تحقیق کے لیے مناسب نہیں۔
ابتدائی حصّے میں ہی اس فردِ جرم کی پیش کش کا ایک یہ بھی مقصد ہے کہ ہمیں
معلوم ہوجانا چاہیے کہ قاضی عبدالودود پر جو اسلوب کے تعلّق سے اعتراضات
ہوئے، وہ حقیقت میں ان کے تحقیقی کاموں کی بنیاد سے متعلّق ہیں۔ مخففات اور
علم الحساب کی طرح سے نشانات قائم کرنے پر جس طرح کے اعتراضات ہوئے ہیں،
اگر قاضی عبدالودود کے مضامین سے رجوع کرتے ہوئے اس موضوع پر غور کیا جائے
تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے ادبی تحقیق کو ایک سائنسی اور تکنیکی
شعبۂ علم سمجھا۔ اگر قاضی عبدالودود نے مخفّفات کو نہ آزمایا ہوتا تو ان کے
مضامین مزید قصۂ طولانی بنتے۔ محض طوالت سے گریز کے لیے مختلف شعبۂ علوم
میں اس تخفیف نگاری کا رواج ہے اور پورا سائنسی شعبہ انھی اصولوں کے تابع
ہے ۔ ایسے میں قاضی عبدالودود سے یہ شکوۂ بے جا غیر معقول ہے بلکہ سائنسی
ترقیات اور اختصار نگاری کے دور میں قاضٰ عبدالودود کے انداز کی اقتدا
زیادہ مناسب ہے۔ ہمارے نئے محققّین کی اس سلسلے سے ذرا سی تربیت کر دی جائے
تو وہ اپنی تحقیقات میں اس اسلوبِ بیان کو اپنا کر دادِ تحقیق دے سکتے ہیں۔
مثالوں، حوالہ جات اور دلائل کی بہتات سے نالاں ہونا سمجھ سے پَرے ہے۔
تحقیق جب کسی امر کی حقیقی شکل کو پہچاننے کی کوشش ہے تو کیا یہ غیر ضروری
ہوگاکہ حقیقت تک پہنچنے کے درمیان جو مختلف پردے حائل ہوگئے ہیں، ان سے
نقاب ہٹا دی جائے۔’غالب بہ حیثیتِ محقّق‘ کی مثال دی جاتی ہے، جہاں قاضی
عبدالودود نے حوالہ جات اور امثال کے دفتر جمع کر دیے ہیں۔ ہمیں یہ یاد
ہونا چاہیے کہ علمی اعتبار سے قاضی عبدالودود کی کسی ایک مکمل تحریر کو
سرنامے کا درجہ حاصل ہے تو وہ یہی کتاب ہے۔ آخر اسے کن اسباب سے یہ اہمیت
حاصل ہوئی؟ قاضی عبدالودود کے دائرۂ علم کی کشادگی اور گہرائی دونوں کا
یہاں ایک ساتھ مشاہدہ ہوتا ہے۔ غالب شناسی کے باب میں یہ کتاب بہت سارے
امور کے تعلّق سے آج بھی حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ حیثیت اس کے حوالہ
جات اور امثال کے بغیر ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ ’فرہنگِ آصفیہ‘ پر
مختصر سا تبصرہ کرتے ہوئے قاضی عبدالودود نے سید احمد دہلوی کے ایک جملے کہ
اس لغت میں زمانۂ حال تک کے تمام مستعمل الفاظ شامل ہیں، کے عوض قدیم شعرا
ے اردو کے دواوین سے گیارہ سو سے زیادہ الفاظ کی تلاش کرکے مکمل حوالہ جات
کے ساتھ پیش کردیا اور یہ واضح کردیا کہ ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں ان تمام الفاظ
کے اندراجات نہیں۔ ایک محقّق کا یہ بڑا فریضہ ہے کہ دوسروں کے علمی دائروں
کی پڑتال کرے اور حقیقتِ واقعی تک ہماری راہبری کرے۔ قاضی عبدالودود نے
اپنے تحقیقی اسلوب کا مدار ہی اسی نکتے پر قائم کیا۔
اپنے شائع شدہ مضامین پر خطِ تنسیخ کھینچنے کے الزامات کے موضوع پر سب سے
پہلے قاضی عبدالودود کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
< ’’یہ مضمون ’معاصر‘ کی فرمایش پر لکھا جارہا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ کل
سوالات کے ، جو کیے گئے ہیں، جواب دیے جائیں۔ اگر کوئی بات کہیں اور مختلف
طور پر ہے تو اس سے قطع نظر کہ صریحاً اس کی تردید ہوتی ہے یا نہیں، اس جگہ
جو لکھا جارہا ہے، صحیح سمجھا جائے۔۔۔‘‘ [میں کون ہوں، میں کیا ہوں: مقالات
قاضی عبدالودود ص:۱]
< ’’غالب بہ حیثیتِ محقّق‘‘ کے عنوان سے میرا ایک مقالہ علی گڑھ میگزین کے
’غالب نمبر‘ میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ بہت عجلت میں لکھا تھا۔۔۔ یہ کالعدم
سمجھا جائے اور مجھے اس کے متعلّق ہر قسم کی ذمہ داری سے بَری قرار دیا
جائے۔۔۔ اگر اس میں کوئی بات پہلے مقالے سے مختلف طور پر ملے تو یہ خیال
کرنا چاہیے کہ راقم کے نزدیک اسی طرح صحیح ہے۔‘‘ [غالب بحیثیتِ محقّق: نقد
غالب، مرتبہ مختار الدین احمد، ص:۳۴۵]
< ’’ممکن ہے کہ سابق میں میں نے کوئی بات مختلف طور پر لکھی ہو، تبدیلِ راے
کا ذکر لازماً نہیں کیا گیا۔‘‘ [مثنویات راسخ پر تبصرہ: ہماری زبان،
۸؍نومبر ۵۸ء ص:۷]
ان اقتباسات سے معترضین کی باتیں بہ صراحت سمجھی جاسکتی ہیں۔ اگر کسی موضوع
پر گفتگو کرنے کے بعد نئے مواد دستیاب ہوجائیں تو کسی محقّق کو کیا کرنا
چاہیے؟ ممکن ہے نئے حقائق کے سبب گذشتہ نتیجہ غلط ثابت ہوگیا ہو یا بعض نئے
سوالات پیدا ہورہے ہوں یا پچھلے مضمون کی تشنگی ختم ہورہی ہو۔ ایسے عالَم
میں کسی محقّق کو اپنے گذشتہ کام کا اسی شکل میں دہرانا علمی طور پر تن
آسانی یا محقّق کے فرائضِ منصبی سے روگردانی کے سوا اور کیا ہے؟ قاضی
عبدالودود نے اس بات کا اصول کے طور پر لحاظ رکھا۔ اس اسلوبِ تحقیق سے یہ
بنیادی فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اپنے مضامین کو تازہ حقائق سے لیس کرتے
چلتے ہیں۔ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ کوئی محقّق اگر کسی موضوع پر کتاب مکمل
کرلیتا ہے تو آنے والے وقت میں فطری طور پر جو نئے ماخذ حاصل ہوئے، ان کی
اس میں شمولیت آخر وہ کس طَور پر کرے گا؟ وہ لوگ جو کوچۂ تحقیق میں آکر کسی
ایک دستاویز کی پیش کش کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر کسی مزید اضافے کی
ضرورت یا گنجائش نہیں،وہ تحقیق کے بنیادی سروکار سے واقف نہیں اور زمانے کی
روش کے مطابق ہوس کاری کے انداز میں تحقیق کے فرائض اداکررہے ہیں۔ حقیقت
میں یہ ایک طرح کے فطری Updating کا کام ہے جسے اردو والوں میں قاضی
عبدالودود اور کلیم الدین احمد نے مذہبی اصول کی طرح رواج دے کر شیوۂ علمی
کا حق ادا کیا۔
قاضی عبدالودود کے طنزیہ انداز و اسلوب پر گیان چند جین سب سے زیادہ چراغ
پا ہوتے ہیں۔ تحقیق کی زبان کیسی ہونی چاہیے، نفسِ مضمون کا دائرہ کار کیا
ہو اور نتائج کس انداز سے اخذ کیے جائیں، اس موضوع پر قاضی عبدالودود نے
بار بار گفتگو کی ہے۔ وہ نثر میں قطعیت کے قائل ہیں۔ بیان میں آرائش بھی
انھیں پسند نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں ظرافت کی لہر کبھی کبھی
اٹھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ طنز بھی ان کے یہاں مخصوص مواقع سے اپنا کام
کرجاتا ہے۔ کسی تحقیقی مضمون میں اس امر کی گنجائش ہے یا نہیں، اس پر غور
کرنے سے پہلے قاضی عبدالودود کے چند مختصر اقتباسات ملاحظہ کرنا چاہیے جہاں
طنز و ظرافت کے نمونے دستیاب ہیں:
< ’’۱۲؍برس کو ’’تھوڑے دن‘‘ وہی (عبدالحق) کہہ سکتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بے
خبر ہیں کہ مصحفی ۹۸ ہجری میں لکھنؤ گئے۔‘‘ [معاصر ۱۵ ؛ ص:۹۶]
< ’’بارہ برس گزر جانے پر بھی ڈاکٹر عبدالحق کو اس کا احساس نہ ہوا کہ مصرع
موزوں پڑھا جائے تو مصرع ۲ سے وزن میں مختلف ہوجاتا ہے۔‘‘ (انتخاب میر کے
طبع اول و طبع چہارم دونوں سے ایک شعر کا مشترک غلط متن دریافت کرنے پر یہ
لکھا گیا تھا)۔ [معاصر ۱۴ ؛ ص:۵۶]
< ’’تذکرۂ سرور (سلسلۂ اشاعت مخطوطات اردو، دہلی یونی ورسٹی کی پہلی کڑی
ہے) اسے دیکھ کر یہ باور کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ اس غرض سے چھپوایا گیا
ہے کہ قدیم متون کی ترتیب و تصحیح کا کام کرنے والے متنبہ ہوجائیں کہ کس
طرح اسے نہ کرنا چاہیے۔‘‘ [اشتروسوزن، پیش گفتار ص:۳]
< ’’دانش گاہِ دہلی صحتِ املا کی طرف سے اتنی ہی بے پروا ہے جتنی اس نسخے
سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے اعلان کردینا چاہیے کہ امتحان دینے والوں کے جوابات
کی جانچ کے وقت املا کا مطلقاً لحاظ نہ ہوگا۔ یہ اعلان ہمہ گیر ہونا چاہیے۔
صرف اردو کے طلبا کے ساتھ یہ رعایت خلافِ انصاف ہوگی۔‘‘ [اشتروسوزن ص:۵]
< ’’البیرونی نے ’کتاب الہند‘ میں ہندوستانی متون کے بہت سقیم ہونے کی
شکایت کی ہے۔ وہ زندہ ہوتا اور اسے اس نسخے (تذکرۂ سرور) کی بنا پر متون کی
موجودہ حالت پر اظہار راے کے لیے کہا جاتا تو ہمیں ترقیِ معکوس کی داد
دینا۔‘‘ [اشتروسوزن ص:۴]
< ’’کتاب (تذکرۂ سرور) اشاریے سے محروم ہے حالانکہ اس کا سالِ اشاعت ۱۹۶۱ء
ہے ۱۸۶۱ء نہیں۔‘‘ [اشتروسوزن ص:۹]
< ’’احتیاط کے باوجود طباعت میں غلطیاں رہ گئی ہیں۔ ان کو اردو طباعت کی
روایت سمجھ کر گوارا کیا ہے۔‘‘ یہ عذر اگر نول کشور کی طرف سے ہوتا جو
کتابیں ارزاں بیچتے تھے اور سنگی مطبع میں چھپواتے تھے تو سنا بھی جاتا۔
کتاب جلی ٹایپ میں چھپے( باستثناے حواشی) اور قیمت بھی زیادہ ہو تو قابل
قبول نہیں۔‘‘[اشتروسوزن ؛ص:۱۰]
< ’’دانش گاہ علی گڑھ کے شعبۂ اردو کی طرف سے ’تاریخ ادبیات اردو‘ کی جو
پہلی جلد شائع ہوئی تھی، اس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ عبارتِ نثر
ہو یا شعر، اگر ایک سے زیادہ مقام پر نقل ہوا ہے تو مستثنیات سے قطعِ نظر
اختلافِ متن ضروری ہے۔‘‘ [اصولِ تحقیق: آج کل، اگست ۱۹۶۷ء ص:۸]
< ’’افلاطون شاگردِ سقراط‘ ایک جگہ، دوسری جگہ یہ کہ ’وہ سقراط جیسے لایق
حکیم کا استاد تھا‘۔ افلاطون کا استادِ سقراط ہونا مؤلف (مولفِ فرہنگ
آصفیہ) کے سوا دنیا میں کسی کو معلوم نہ تھا، مگر اب اُن کی بہ دولت یہ بات
عام ہوگئی۔‘‘ [خدا بخش لائبریری جرنل ۳ ص:۱۲۰]
< ’’اگر کوئی اس مشورے پر عمل کرنا چاہے تو کتاب خواہ اغلاط فاحش سے کتنی
ہی مملو کیوں نہ ہو، اس پر تبصرے کا آغاز کچھ اس طرح کرے۔ جناب والا کو
نہایت ادب سے اطلاع دی جاتی ہے کہ جناب والا کی کتاب (نام) میں بکثرت اغلاط
فاحش نظر آتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ جناب والا سے یہ غلطیاں سرزد ہوئی
ہوں۔ کاپی اور پروف کی تصحیح کا کام جن صاحب کے سپرد ہوا ظاہرا کثرت مشاغل
کی وجہ سے وہ اس کے لیے کافی وقت نہ نکال سکے۔ احقر کا باادب مشورہ ہے کہ
آیندہ تصحیح کا کام ایسے لوگوں کے سپرد ہو جو اس کے لیے وقت نکال سکیں۔‘‘
[رہبر تحقیق(تبصرہ) مشمولہ خدا بخش جرنل ش ۱، ۱۹۷۷ء، ص:۲۳۸]
یہ طنز کے نمونے ہیں اور بے شک قاضی عبدالودو د کے قلم سے نکلے ہوئے ہیں۔
جب صفات سے پرہیز اور تشبیہات و استعارات سے گریز آدابِ تحقیق میں بنیاد کا
درجہ رکھتے ہیں تو طنزیہ اسلوب کو تحقیق میں کیوں کر داخلہ ملنا چاہیے؟ اس
طَور پر کسی بھی محقّق کے اعتراضات قابلِ توجہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایک ایک
مثال پر علاحدہ توجہ کیجیے اور غور و فکر سے کام لیجیے تو یہ سمجھنا مشکل
نہیں کہ قاضی عبدالودود نے طنز کا انداز اصولیاتِ تحقیق سے بے رغبتی اور بے
پروائی کی انتہائی منزلوں سے قوم کو بیدار کرنے کے لیے آزمایا ہے۔ قائدین
کو متعدد انداز و آداب استعمال کرنے ہوتے ہیں۔ انھی میں ایک طنزیہ اسلوب
بھی ہے۔ گیان چند جین کو یہ یاد رہا کہ قاضی عبدالودود نے اپنے معاصرین کو
ذلیل و رسوا کرنے کے لیے اس اسلوب ِ بیان کا استعمال کیا۔ وہ مولوی عبدالحق
اور خواجہ احمد فاروقی یا مالک رام کے سلسلے سے قاضی صاحب کے جملوں پر غور
کرتے ہیں لیکن انھیں یہ یاد ہی نہیں آتا کہ قاضی عبدالودود نے ان اصحاب کی
علمی بے راہ روی پر بے زاری کے عالم میں اس اندازِ بیان کو استعمال کیا ہے۔
اقبال کے لفظوں میں کہیں تو قاضی عبدالودود کا مقصد یہ ہے: ’’شاید کہ اتر
جائے ترے دل میں مری بات‘‘۔
قاضی صاحب کے ان طنزیہ جملوں کی تحقیقی مضمون میں لازمی شمولیت کے اسباب پر
گفتگو کے بعد ہمارے لیے یہ بات قابلِ غور ہونا چاہیے کہ قاضی صاحب کی نثر
کا بھی جائزہ لے لیں۔مذکورہ طنزیے شذرات میں نثرمنطق اور استدلال کے تمام
فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ لطفِ بیان کے اضافی ذائقے سے ہمیں مالامال
کرتی ہے۔ تخلیقی اور تنقیدی یا تحقیقی نثر کے دائرۂ کار میں جتنا بھی بُعد
ہو مگر کچھ ایسے مقام بھی ہوتے ہیں جہاں دونوں راہیں ایک دوسرے سے ملتی
ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ’آبِ حیات‘ کی انشا پردازی جس قدر بھی عتاب نازل ہو
لیکن انھی لفظوں کے توتا مینا میں محمد حسین آزاد نے گہری تنقیدی باتیں کچھ
اس انداز سے پیوست کردی ہیں کہ اس کے جملوں کو بقاے دوام کے دربار میں جگہ
مل گئی۔ نثر نگار کی حیثیت سے قاضی عبدالودود کس قدر قدرت رکھتے ہیں اور
اظہار کا نپا تُلا انداز کیسے روشنی بکھیرتا ہے ، اس کے لیے ’آبِ حیات‘ کے
سلسلے سے لکھے گئے سلسلۂ مضامین کا تعارفی حصّہ ملاحظہ کرنا چاہیے:
’’اکثریت آزاد کی نثّاری کی معترف ہے، مگر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ
وہ تحقیق کے مرد میدان تھے۔ اقلیت مصر ہے کہ وہ صرف ایک بڑے انشا پرداز ہی
نہیں، ایک بڑے محقّق بھی تھے۔ اس کتابچہ میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے
کہ حق کس کی طرف ہے۔ یہ دعویٰ نہیں کہ کل مطالب نئے ہیں اور اس کا اقرار ہے
کہ ان کی ترتیب بہتر ہوسکتی تھی۔‘‘[محمد حسین آزاد بحیثیت محقّق:قاضی
عبدالودود، ادارۂ تحقیقات اردو، پٹنہ، ۱۹۸۴ء، ص:۱]
قاضی عبدالودود کے تحقیقی اسلوب میں یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ غیر
ضروری صفات سے محقّقین کو دور کی نسبت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ محقّق ایک ایک
لفظ کا استعمال ناپ تول کر کرے اور وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ کوئی بات
نفسِ مضمون کی ادائیگی کے علاوہ کسی اور مقصد سے نہ کہی جارہی ہو۔ عادتاً
انشا پردازی یا تشبیہہ و استعارے کے گل بوٹے ٹانکنا مثالی اسلوبِ تحقیق کے
منافی ہے ۔ اس سلسلے سے قاضی عبدالودود نے جب دوسروں کی تحقیقات پر توجہ کی
تو جگہ جگہ جو بے اعتدالیاں اور غیر تحقیقی آداب ملے ، ان کی نہ صرف یہ کہ
نشان دہی کی بلکہ بڑی سختی سے اس کی باز پرس کی۔قاضی عبدالودود کس محتاط
رویّے کی اپنے عہد کے محقّقین سے توقع رکھتے ہیں ، اسے سمجھنے کے لیے ذیل
کی مثالیں پہلے ملاحظہ کیجیے:
< ’’شیخ محمد چاند۔ کسی کے نام میں اضافہ مناسب نہیں۔ مرحوم نے خود مجھے
لکھا تھا کہ چاند سے قبل محمد نہ لکھنا چاہیے۔‘‘ دلی کا دبستان شاعری پر
تبصرہ، ہماری زبان یکم مارچ ۵۹ء، ص:۱]
< ’’ایک تذکرے کا نام مسرت افزا لکھا ہے حالانکہ لفظ تذکرہ جروِ اسم ہے۔‘‘
ہماری زبان، ۲۲؍نومبر ۵۸ء، ص:۸]
< ’’ظاہراً ہشتاد اور قریب بہشتاد میں ان کے نزدیک کچھ فرق نہیں۔‘‘ [معاصر
۱۵، ص:۹۲]
< ’’قاسم نے ’چوما چاٹا‘ لکھا ہے، اسے بدلنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ اسے
غلط سمجھ کر اس کا اظہار کرنا اور بات ہے۔‘‘ [ہماری زبان، یکم مارچ ۵۹ء
ص:۲]
< ’’۸؍رجب کو مرزا غالب نہیں، ایک بچہ عزت النساء بیگم کے بطن سے پیدا ہوا
تھا جو تخلص ساتھ لے کر دنیا میں نہیں آیا تھا۔‘‘ [بحوالہ اصولِ تحقیق: آج
کل اردو تحقیق نمبر اگست ۱۹۶۷ء]
< رسالہ تحریر میں ایک سطر یہ تھی:’’لکھنؤ سے چند میل کے فاصلے پر علما و
فضلا کا ایک بہت بڑا مرکز کاکوری رہا ہے۔‘‘ [رسالہ تحریر، دہلی شمارہ ۱،
ص:۱۲۹] قاضی صاحب کا ارشاد ہے:’’’بہت بڑا‘ محض برا ہے آرایش ہے، صرف مرکز
لکھنا تھا۔‘‘ [اصول تحقیق: آج کل اگست ۱۹۶۷ء ص:۵]
< مولوی عبد الحق نے ’انتخاب کلام میر‘ کے دیباچے میں لکھا ہے: ’’دلی سے
اجڑنے کے بعد لکھنؤ آباد نظر آتا تھا۔۔۔ جو اٹھا وہیں پہنچا اور پہنچ کر
وہیں کا ہورہا۔۔۔ یہ صحیح نہیں کہ جس نے دہلی چھوڑی، لکھنؤ ہی پہنچا یا
وہاں پہنچا تو لازماً وہیں کا ہوگیا۔۔۔ بیان دہلی چھوڑ کر دکن گئے اور کئی
شعرا دلی سے لکھنؤ جانے کے بعد دوسرے مقامات پر چلے گئے۔‘‘ [معاصر ۱۴ ص:۹۲]
< ڈاکٹر ممتاز احمد نے پٹنہ کے بارے میں لکھا ہے:’’اس زمانے کی سوسایٹی کی
حالت ناگفتہ بہ تھی۔ ہر شخص کا سینہ کینہ سے بھرا ہوا تھا۔‘‘ [مثنویات
راسخ: ڈاکٹر ممتاز احمد]اس پر قاضی صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:’’عظیم
آباد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں رہا جس پر بہ قول صادق آسکے کہ ’ہر شخص کا
سینہ کینے سے بھرا ہوا تھا۔‘‘ [ہماری زبان، ۸؍نومبر ۵۸ء ص:۹]
ایسی تنقیدیں بعض محقّقین کو خوردہ گیری معلوم ہوتی ہیں۔ بال کی کھال
نکالنے کا انداز کہنے والے بھی کم نہیں ۔ قاضی عبدالودود کے اس انداز پر
کئی معاصرین نے غیر ضروری مشقّت اور بے وجہ کیڑے نکالنے کا الزام بھی عاید
کیا۔ لیکن قاضی عبدالودود کا یہ انداز اصولِ تحقیق کی ہمراہی میں متعین ہوا
تھا۔ اس لیے وہ اس سے کوئی گریز کی خوٗ نہ خود اپنانا چاہتے تھے اور نہ ہی
دوسرے محقّقین کو یہ آزادی دینا چاہتے تھے۔ اس موقعے سے رشید حسن خاں کا
ایک اقتباس ناموزوں نہ ہوگا جس میں وہ قاضی صاحب کے اس بے لچک انداز کے
اردو تحقیق پر اثرات کی تفصیل پیش کرتے ہیں:
میرا خیال ہے کہ نئی نسل، تحقیق کے آداب اور انداز سے ، قاضی صاحب کے توسّط
سے آشنا ہوئی ہے۔ پچھلے پچیس تیس برسوں میں احتیاط پسندی کا جو رجحان بڑھا
ہے، شک کرنے، یا یوں کہیے کہ مضبوط دلیلوں کے بغیر دعوؤں کو قبول نہ کرنے
کا انداز جس طرح فروغ پذیر ہوا ہے اور منطقی استدلال نے جس طرح اہمیت حاصل
کی ہے، یا دوسرے لفظوں میں ، زود یقینی اور خوش اعتقادی نے جس طرح کم
اعتباری کی سند پائی ہے، اس میں قاضی صاحب کی تحریروں کا بہت بڑا حصّہ ہے۔
ان کے بے لچک شخصیت، ان کے بے جھجک اندازِ گفتگو اور ان کے سخت گیر احتساب
نے، اس زمانے میں، تحقیق کے طالب علموں کی ذہنی تربیت کی ہے اور ان کی
تحریروں نے یہ بتایا ہے کہ تحقیق کی زبان اور پیرایۂ اظہار میں انشاپردازی،
مرصّع کاری اور الفاظ کے بے محابا استعمال کی مطلق گنجائش نہیں۔ [تحقیق کا
معلم ثانی، رشید حسن خاں؛’معاصر‘ قاضی عبدالودود نمبر، مرتب کلیم الدین
احمد،اگست ۱۹۷۶ء، ص:۱۲۰]
حقیقت یہ ہے کہ قاضی عبدالودود کی تحقیقی تحریروں کے بے پایاں اثرات ہوئے۔
معاصرین نے توان سے سیکھا ہی اور اپنی آئندہ تحریروں کو مقدور بھر تحقیقی
آداب سے لیس کرنے کی کوشش کی؛ آنے والی نسل نے تو قاضی عبدالودود کے بتائے
ہوئے نکات کو مثالی اسلوبِ تحقیق کا حصہ بنایا۔ آج اگر ملک کے طول و عرض
میں قاضی عبدالودود کے بعد چھوٹے بڑے متعدّد محقّقین احتیاط پسندی کے ساتھ
علمی تحقیق میں کارہاے نمایاں انجام دے رہے ہیں تو واقعتا یہ قاضی
عبدالودود کے مضامین کے واضح اثرات ہیں۔ ان کے علم اور محقّقانہ زور کا کیا
عالم تھا ، اسے جاننے کے لیے رشید حسن خاں کے چند جملے پہلے ملاحظہ
فرمائیں:
’’قاضی صاحب کے معاصرین میں کئی اہلِ علم ہیں جنھوں نے تحقیق اور تدوین میں
نام روشن کیا ہے مگر ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ ان حضرات کی کوئی کتاب شایع
ہوتی ہے تو لوگوں کو (اور شاید خود اُن کو بھی) اس کا انتظار رہتا ہے کہ
دیکھیں قاضی صاحب کیا کہتے ہیں؟ اور یہ واقع ہے کہ معاصرین کی کتابوں پر
قاضی صاحب نے جو تبصرے کیے ہیں، وہ پڑھنے کی چیزیں ہیں۔ قاضی صاحب کی نظر
اور وسعتِ مطالعہ کا یہاں پر اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ [تحقیق کا معلم ثانی: رشید
حسن خاں، معاصر: اگست ۱۹۷۶ء ص ۱۲۹-۱۳۰]
قاضی عبدالودود کے علم اور ان کے تحقیقی کارناموں کا اسلوب کے حوالے سے یہ
مختصر جائزہ ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ قاضی عبدالودود نے اپنے علم ،
اعمال اور اصول پسندی کی بنیاد پر جو تحقیقی شخصیت تشکیل کی ، اس سے یک سرِ
مو انحراف کی کوئی صورت ان کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ تحقیق کا مشکل
راستہ تھا ، دقت طلب اور وقت طلب دونوں ۔ کلیم الدین احمد نے ان کی شخصیت
پر لکھتے ہوئے ان امور کی پہچان کرنے کی کوشش کی کہ درس و تدریس یا کسی اور
ملازمتی مشغلے سے لاتعلقی نے قاضی عبدالودود کی شخصیت کو جس طرح بے لچک
بنایا ، اس سے اردو تحقیق کو ایک مثالی طَور نصیب ہوا۔ آج واقعتاًیہ حقیقت
ہے کہ تحقیقی اصول اور اعمال پر گفتگو کرنی ہوتی ہے تو ہمیں اس کے ہر پہلو
، ہر موڑ پر قاضی عبدالودود یاد آتے ہیں۔ علم ہو تو ایسا ہو ، اصولیات کی
پاسداری ہو تو اس انداز سے ہو، بیان میں صفائی کا طَور اس طرح کا ہو، بے
خوفی، بے باکی اور حسبِ ضرورت قبولِ عام کے برخلاف جاکر اپنی بے لاگ راے کا
اظہار کرنے کا شیوۂ علمی ہو تو ایسا ہو۔ حقیقت میں قاضی عبدالودود اردو
تحقیق میں ایک مثالی شخصیت ہیں اور ان کی تحریر سے تحقیقی اصول اور اسالیبِ
بیان سامنے آئے جنھیں اب سب مانتے ہیں۔ قاضی عبدالودود کی یہ بھی کامیابی
ہے کہ انھوں نے جس اسلوبِ تحقیق کا تقاضہ دوسروں سے کیا، اس پر وہ خود بھی
کھرے اترے۔ اصول اور اطلاق کی ایسی یک رنگی اردو کے علمی منظر نامے پر شاید
ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ اسی لیے قاضی عبدالودود ہمارے لیے ایک آئیڈیل کا
درجہ رکھتے ہیں اور ہر محقق کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ قاضی عبدالودود کی
طرح کا بن کر دکھائے۔ |
|