بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلامی سنہری نظریات میں ایک اہم نظریہ ،یہ ہے کی دنیا فانی ہے۔اس کی ہرچیز
فنا کے لیے بنی ہے اورآخرت ہمیشہ کے لیے ہے اور اس کی ہر چیز کے لیے بقا
ہے۔’’ ماعندکم ینفد وما عنداﷲ باقٍ ‘‘(النحل:۶۹)’’جو تمہارے پاس ہے، ختم
ہوجائے گا اورجو اﷲ کے یہاں ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔یہ بھی کہ یہ جہاں
امتحان کے لیے ہے اورآخرت اجر کے لیے ہے۔اس لیے یہاں کمائی کرنی ہے اور اُس
جہاں میں اجر ملے گا۔جو شخص مزدور ہوتا ہے اس کو اپنے لباس،گھر،سواری وغیرہ
کے معیار کی فکر نہیں ہوتی بلکہ کام سے غرض ہوتی ہے۔ایسے ہی ہمیں اس جہاں
میں معیارِ زندگی کے بلند ہونے کی فکر نہیں کرنی،خواہشات کو بڑھا کر آمدن
بڑھانے کی دوڑ میں شریک نہیں ہونا بلکہ خواہشات کو کم از کم کرکے اصل مقصد
کی طرف متوجہ ہونا ہے کہ جس کے لیے ہماری تخلیق کی گئی ہے اوروہ یہ ہے
کہ:’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘(الذاریات:۶۵) کہ ہم نے جن وانس کو
محض اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے۔‘‘اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہم پر فرض ہے
کیونکہ اس نے ہمیں اورہمارے والدین کوتخلیق کیا ہے اوراسی عبادت کے عظیم
مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔دوسری جانب معبودانِ باطلہ ہیں،جنہوں نے ہمیں
بنیا نہیں بلکہ محض دنیا کی چند سہولتوں کے عوض ہماری عبادات کو ہتھیانا
چاہتے ہیں اوروہ سہولتیں بھی ہماری محنت کے عوض دیتے ہیں۔ان میں بہت بڑابت
مالیاتی ادارے ہیں،جس میں بینک بالاولیٰ شامل ہیں۔اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ
دنیا کے امتحان گا ہ میں اس کے بندے خواہشات پر قابوپائے رکھیں اورعبادات
پر اپنی مکمل توجہ مرکوزرکھیں تومرنے بعد بھی ان کی تمام خواہشات کو
پوراکروں گا۔جبکہ بینک چاہتا ہے کہ دنیا میں خواہشات کو جعلی طریقوں سے
بڑھا کر آمدن بڑھانے کے چکر میں یہ بندہ اﷲ کا بندہ نہ بنے بلکہ میرابندہ
بن جائے۔اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے بجائے میری عبادت میں مگن ہوجائے اورمیرے ہی
کام کرتا اس دنیا سے رخصت ہوجائے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ:’’درہم ودینار کا
بندہ ہلاک ہوجائے،اچھے کپڑے کا بندہ ہلاک ہوجائے،وہ الٹا لٹک جائے،اسے
کانٹا چبھے تو کوئی نہ نکالے‘‘(صحیح البخاری،باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل
اﷲ:۲۸۸۷)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک رب کے روپ میں ابھر رہاہے
،یورپ کے معاشرے میں لاکھوں لوگ ساری زندگی بینک کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں
اوراس کی اقساط کی ادائیگی کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔اس نظام نے
دنیا کوجکڑ لیاہے،دنیا کہ ننانوے فیصد لوگوں کے پاس کل دولت کا ایک فیصد
جبکہ ایک فیصد کے پاس کل دولت کا ننانوے فیصد ہے۔اس فتنے کی سرکوبی کے لیے
اوراس پر نقب زنی کے لیے اس کی اصلیت جاننا ضروری ہے۔اسلام کا نظام معیشت
وقانون اورسرمایہ دارانہ نظام کا قانون دو الگ الگ اورمتضاد تہذیبیں ہیں۔ان
دونوں کا طرزِ معیشت اوران کا طرزِ معاشرت ان کا نظام حکومت اوران کا
مالیاتی نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف اورجداگانہ ہیں۔مثلاً اﷲ تعالیٰ نے
سود کو واضح الفاظ میں حرام قراردیا ہے حتیٰ کہ اسے اﷲ اوراس کے رسول ﷺ سے
جنگ کے مترادف قرار دیا ہے،لیکن بینکوں کے کالے قوانین نے اسے تحفظ فراہم
کیا جو کہ اسلام کے برعکس خلافِ فطرت نظام ہے۔اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث کے
سنہری اصول ہیں اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں خود ساختہ
انسانوں کے بنائے ہوئے قواعدوقوانین پر ہیں۔جس میں سرمایہ داروجاگیردار مل
کراپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہیں اورعوام پر مختلف قسم کے
ٹیکس عائد کرتے ہیں ۔ان ٹیکسوں کے ذریعے دولت کھینچ کر خزانے میں لے جاتے
ہیں اورخزانے پر بھی سرمایہ داروں اورجاگیرداروں نے قبضہ جمایا ہوتا
ہے۔خزانے سے ناصرف تنخواہیں بلکہ اپنے لیے بہت سی مراعات بھی جاری کروالیتے
ہیں۔بھاری بھاری قرضے لے کر معاف کروالیتے ہیں اورترقیاتی کام کواتے وقت
کمیشن سے اپنے پیٹ کی جہنم کو بھرنے کی سعی میں مگن رہتے ہیں۔اس طرح طبقاتی
نظام وجود میں آتا ہے جس کی بنیادپرامیر شخص امیر سے امیر تر ہوتا چلا
جاتاہے جبکہ غریب شخص غربت کی لکیر کراس کرتا چلا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام خالصتاً مغربی نظام ہے۔اس نظام کی بنیادی اقدار کیا
ہیں؟اس کی بنیادی اقدار’’آزادی ‘‘ہے۔یہی’’آزادی‘‘مغربی فلسفے کی قدرِ مطلق
ہے۔آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو چاہے خواہش کرسکتا ہے۔وہ کسی کا پابند
نہیں ہے بلکہ وہ آزاد پیدا ہوا ہے لہٰذا اسے کسی الہامی ضابطے کا پابند
نہیں کیا جاسکتا ۔لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام وہ نظام ہے کہ جس میں انسان جس
قدر طلبگا ر ہوتا ہے وہ ’’آزادی ‘‘ ہے اورآزادی کی طلب اورآزادی کی جستجو
بنیادی طور پر مارکیٹ کی جاتی ہے۔دوسرا یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام مارکیٹ پر
منحصر ہوتا ہے بازار پر نہیں ۔مارکیٹ اوربازار دونوں مماثل نہیں ہوتے بلکہ
ان میں بھی بنیادی فرق ہے۔بازار وہ معاشی ادارہ ہے کہ جو روایات
اوراخلاقیات کے دائرے میں محصورو محفوظ ہوتا ہے۔جس میں حلال و حرام کا واضح
فرق کیا جاتا ہے۔جبکہ مارکیٹ میں کوئی حدودوقیود نہیں بلکہ حلال و حرام سب
کچھ چلتا ہے۔بس سرمایہ دار جس چیز کا معاہدہ کرے وہی درست ہے۔اسی طرح ہر
شخص کے نزدیک کسی بھی چیز کا معیار وہی ہے جو وہ مقرر کردے اورجو اس کے نفس
کو اچھا لگے۔واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس
نظام کا نام ہے کہ جو انسان کے نفس میں آرہا ہے ،جووہ کرنا چاہ رہا ہے تو
کوئی شخص اس کو روک ٹوک نہیں سکتا بلکہ وہ اپنے معاملات میں مکمل آزاد
ہے۔جو جی میں آئے کرگزرے یہی آزادی اس نظام کی بنیاد ہے۔اس نظام کی بدولت
’’شر‘‘وجود میں آتا ہے۔یہ نظام بعض لوگوں کے نزدیک حادثاتی طور پر وجود میں
آگیا مگر یہ خیال اوربات غلط ہے۔کیونکہ یہ نظام خودبخود وجود میں نہیں آیا
بلکہ اس کو قائم کرنے میں ریاست کا کردار شامل ہے۔ مثلاًدورحاضر میں اس
نظام کو عالمگیر بنایا جارہا ہے۔عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کا مطلب کیاہے؟اس
کامطلب یہ ہے کہ امریکی قوانین تمام معالات ترتیب دینے کی بنیاد بن جائیں
۔مثلاًآپ WTOکے مقاصد دیکھیں ،IMFکا انٹرنیشنل اکاؤنٹنگ باڈیز پر عمل دخل
دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کے ان کا ماخذامریکی قوانین ہیں۔ اس نظام کا اصل
محافظ امریکہ ہے۔آج اگر یہ نظام عالمگیر بنتا چلا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ
ہے کہ امریکہ ہی اسے عالمگیر بنا رہا ہے کیونکہ وہی تواس کا خالق اورمالک
ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکہ براہ راست یہ کام نہیں کررہا لیکن اس نے کچھ
ایسی ایجنسیاں بنارکھی ہیں کہ جو اس نظام کو اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے اس
کو چلا رہی ہیں۔اس وقت امریکہ ،برطانیہ، فرانس ،اٹلی وغیرہ میں سرمایہ
دارانہ نظام نافذ ہے۔اب ہم بتائیں گے کہ اس نظام کی بنیاد
کس نے رکھی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادایڈم سمِتھ( 1723ء تا1790ء) نے رکھی جو کہ
برطانوی فلسفی اورماہراقتصادیات تھا۔چونکہ سرمایہ دارانہ نظام خالصتاً
مغربی نظام حیات ہے اس لیے اب اس کے بنیادی ستون بیان کیے جائیں گے۔
سود(ربا):
سرمایہ دارانہ نظام مکمل سود پر مبنی نظام ہے۔یہ ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے
ذریعے مغربی طاقتوں نے کئی کئی ممالک کوتباہ وبرباد کردیا ہے۔اس نظام کی
وجہ سے غریب ،غریب تر اورامیر،امیرتر ہوتا چلا جاتا ہے۔دولت چند ہاتھوں میں
سمٹ کررہ جاتی ہے اورملکی معیشت پر چندافراد کا قجضہ ہوجاتا ہے۔
کاغذی کرنسی :
سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا بڑا ستون کاغذی کرنسی ہے۔مغرب نے سونے کی جگہ
کاغذی کرنسی ہاتھوں میں تھما کر سونے پر قبضہ کرلیا ۔ اب تو کاغذی کرنسی کی
جگہ پلاسٹک نے لے لی ہے۔جیسے کریڈٹ کارڈ،ماسٹر کارڈ وغیرہ یعنی اب زیادہ
نوٹ چھاپنے کی ضروت ہی نہیں بلکہ اب تو کمپیوٹر میں انٹری کرنے سے ہی پیسے
آجائیں گے۔اگرا مریکہ کا مرکزی بینک FEDچاہے تووہ ایک سیکنڈ میں ایک ہزار
ارب ڈالر کی دولت پیداکرسکتا ہے۔انہوں نے قانون یہ بنایا ہے کہ جب بھی ہر
ملک جب دوسرے ملک سے تجارت کرے گا توڈالر میں کرے گا تو وہ دنیاکے ہر ملک
سے ہر چیز خرید سکتے ہیں بعوض کمپیوٹر میں دیئے ہوئے برقی رو کی مدد سے۔تو
مغربی نظام معیشت نے ہم سے سونا چاندی چھین کر ہمیں کاغذی رسیدیں وغیرہ
تھما دی ۔
اثاثہ جات کے تحفظ کا جزوی نظام:
اثاثہ جات کے تحفظ کا جزوی نظام(Fractional Reserve System)مغربی معاشی
نظام کا تیسرا ستون ہیں۔یعنی اگر بینک کے پاس سوروپے ہوں تو وہ ہزار روپے
کے قرضے جاری کرسکتے ہیں۔یعنی بینک اپنے اصلی اثاثوں سے دس گنا زیادہ قرض
چیک وغیرہ کی شکل میں دے سکتا ہے۔پھراس پربینک سود لیتا ہے جوکہ مغربی نظام
معیشت میں جائز جبکہ اسلام میں اس کی کوئی اجازت نہیں۔
بینک:
سرمایہ دارانہ نظام کی اصل طاقت بینک ہے۔بینک ہی کے ذریعے وہ سود،کرنسی
اورفریکشنل ریزرو سسٹم کااطلاق کرتے ہیں اوربینک کی بنیاد سود پر قائم
ہے۔بینک لوگوں سے کم شرح سود پر قرض لے کر زیادہ شرح سود پر قرض دیتا ہے۔
درمیان میں جو شرح سود کا فرق ہے وہ بینک کا منافق ہے۔لہٰذا سود کے بغیر
بینک کا وجود محال ہے۔
محصول لگانا(Tax):
اس نظام میں ہر شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر اس پر ٹیکس لگایا جاتا
ہے۔استعمال زندگی کی کوئی بھی چیز آپ نے خریدنی ہو اس پرآپ کو ٹیکس دینا
ہوگا۔جب کرپٹ حکومتیں ملکی خزانہ لوٹ لوٹ کو خالی کردیتی ہیں تو پھر قرضے
لینا شروع کردیتی ہیں۔پھران قرضوں کی ادائیگی کے نام پرعوام سے ٹیکس وصول
کیا جاتا ہے۔لہٰذاآج تقریباً ہر ملک کے باشندے پیدائشی مقروض ہوتے ہیں۔
کارپوریشن:
سرمایہ دارانہ نظام میں چونکہ دولت چندہاتھوں میں سمٹی ہوتی ہے لہٰذابڑے
سرامیہ دار شرکت کی کمپنیاں کھول دیتے ہیں۔جسے کارپوریشن کا نام دیا جاتا
ہے۔اس کارپوریشن میں ہرشخص شراکت کرسکتا ہے لیکن فیصلہ اورحکم اس کاچلے گا
جس کے پاس اکاون فیصد حصے کا مالک ہو۔اس لیے وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ
چلاتا ہے۔باقی 49فیصد والوں کواس کی ماننا پڑتی ہے۔
بیمہ کی کمپنیاں:
سرمایہ دارانہ نظام میں بیمہ کمپنیوں کی بھی بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔یہ
کمپنیاں لوگوں کے صحت،مال،تجارت وغیرہ کی حفاظت کی ذمہ داری مخصوص رقم کے
عوض لیتی ہیں۔لہٰذاجب پورے ملک کے سارے عوام کی صحت کا بیمہ لے کر کمپنی
کودیا جائے تو ملک کے ہرشخص کی آمدنی کا ایک خاص حصہ اس کمپنی کو جاتا
ہے۔جس کی وجہ سے ایسی کمپنیانں راتوں رات انتہائی مالدار بن جاتی ہیں ۔یہ
اپنی آمدن کے 10فیصد کو بھی استعمال نہیں کرتی۔
بازارِ حصص(Stock Market):
اس طریقہ کاروبار میں کمپنی اپنے مختلف حصوں کوفروخت کرتی ہے۔اس بازار کے
ذریعے بین الاقوامی کمپنیاں کسی بھی ملک میں نجکاری کرکے وہاں کے وسائل پر
براہ راست قابض ہوجاتی ہیں اوراس میں اکثر قماربازی،جوا ہوتا ہے۔وطن عزیزکے
وسائل کے ساتھ بھی یہی کھلواڑکھیلا گیا اوروسائل استعمال کے بجائے فروخت
کیے جارہے ہیں۔معیشت کابیڑاغرق ہوتا چلا جارہا ہے۔
نجکاری(Privatization):
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب مغربی طاقتیں کسی ملک کے وسائل پر قابض ہونا
چاہتی ہیں تواس ملک کو مجبور کرکے ملکی خزانوں کو نجکاری کا کہا جاتا
ہے۔پھر یہ مغربی مافیا ان کو اپنی شرائط پر کوڑی دامون خرید کراس ملک کے
وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں۔حالانکہ شرعاً ملکی خزانوں پر تمام عوام کا حق
ہوتا ہے۔لہٰذاکوئی ان خزانوں کو ذاتیات کے لیے استعمال نہیں کرسکتا مگر اس
وقت وطن عزیزکے خزانوں کو کوڑی داموں بیچا گیا۔
قومی قرضہ(National Debt):
اس قرضے کی وجہ سے مغربی طاقتیں ملکوں کی پالیسی پر براہ راست اثرانداز
ہوتی ہیں۔جب حکومت ملکی خزانہ لوٹ لیتی ہے تو ملکی ضروریات پورا کرنے کے
لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے لہٰذاوہ عالمی بینک(World Bank) اورعالمی
مالیاتی فنڈ(IMF)کی طرف رجوع کرتی ہے۔یہ ادارے حکومت کو خاص فیصد پر قرض
دیتے ہیں اوراس کے ساتھ کڑی شرائط بھی لگائی جاتی ہیں کہ جن پر عمل لازمی
ہوتا ہے وگرنہ قرضے سے محرومکردیا جاتا ہے۔پھران شرائط میں وہ اپنی مرضی ان
ممالک پر تھونپتی ہیں۔جن میں عوام پر ٹیکس کا اضافہ سمیت ملک کے داخلی
معاملات میں براہ راست دخل اندازی کی جاتی ہے۔عالمی بینک کہتا ہے کہ اپنے
ملک میں اتنے فحاشی کے اڈے کھول دو،اتنے افراد کو نوکریوں سے نکال
دو،خاندانی منصوبہ بندی عام کردو،ملک میں قمار اورسٹے بازی کے دفاتر کھول
دو تو ہم آپ کو اتنا قرضہ معاف کردیں گے۔لہٰذا جوبدعنوان حکومتیں ہوتی ہیں
وہ سمعنا واطعنا کے اوپر عمل کرتی چلی جاتی ہیں۔ کڑی سے کڑی شرائط تسلیم
کرکے اپنے ملک کی معیشت کو ڈاؤن کرتی چلی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ بھی سرمایہ دارانہ نظام میں بہت سے خرابیاں ہیں کہ جس کی وجہ
سے ملکوں کے ملک بگڑ جاتے ہیں۔ان میں انتشاربرپا ہوجاتا ہے۔وہ تباہی کے
دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔یہ سب اس سرمایہ دارانہ نظام کے سبب سے ہوتا ہے۔اس
وقت وطن عزیزکی کیفیت کو دیکھ یا جائے تو اس سے کچھ جدانہیں بلکہ اسی ڈگر
پر ملک کو چلایا جارہا ہے۔لہٰذا دورِحاضر میں اس نظام سے نکلنے کی اشدضرورت
ہے۔اب چونکہ پاک چائنہ راہداری(سی پیک) پر کام آگے چل نکلا ہے توضرورت اس
امر کی ہے کہ مغرب کے ان نظاموں کو ترک کرکے ملکی حالات کی اصلاح کی کوشش
کی جائے۔ملکی معیشت کو عوم کا خون ٹیکس کی صورت میں نچوڑنے کے بجائے اسلامی
رفاہی سلطنت کے مطابق ڈھالا جائے اورکام چلایا جائے۔مغرب کے نظاموں کو گلے
سے اتار پھینکا جائے ،کیونکہ وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد
اقبال نے کیا ہی خوب اس جانب اشارہ کیا تھا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے ناکر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی |