حکمت آمیز باتیں-حصہ دوم

چھوٹی چھوٹی باتیں اکثر زندگی بدل دیتی ہیں اور وہی اکثر جینا دشوار بھی کر دیتی ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے؟؟؟ کی بجائے ہمیں اس بات کی طرف غور و فکر کرنی چاہیے کہ لوگ کیا کر لیں گے؟؟؟؟

نکاح کا پیام دینا گناہ کیبرہ نہیں ہے مگر اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اس بات پر مرنے مارنے پر تل آتے ہیں اور اس کو اپنی انا و غیرت کے ساتھ خاندان کی ناموس کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔اسلام کی خاطر مر مٹنے والے لوگ پتا نہیں کیوں نیک عمل پر ایسا برتاو کرتے ہیں کہ انکے مسلمان ہونے پر ہی شکوک کھڑے ہو جاتےہیں۔کیا واقعی ہم مسلمان ہیں، ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

آپ کی آنکھ میں آنے والے آنسو آپ کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ کسی نے آپ کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو آپ نے کبھی اپنے لئے سوچ بھی نہیں تھا؟؟؟

اگر بچے اپنی پسند کا اظہار کر دیں یا والدین تک پسندیدگی آجائے تو انکا نکاح کر دینا چاہیے کہ ہمارے دین میں پسند کی اجازت ہے اس سلسلے میں والدین کو بالخصوص کھلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے ،یوں بھی نکاح کے لئے پسندیدگی اتنا برا عمل نہیں ہے ،جتنا بغیر نکاح کے پارکوں میں ملنا اور گھنٹوں موبائل کالز پر وقت کا گذارنا ہے جس کی بابت جب بات والدین تک پہنچتی ہے تو پھر انکو لوگوں سے منہ تک چھپانا پڑتا ہے کہ اُنکی اولاد ایسے غیر اخلاقی فعل میں ملوث ہے اور پھر کچھ نا عاقبت اندیش والدین میں سے کوئی ایک(والد/والدہ) اپنے بچوں کی حرکات کی پردہ پوشی کر کے مزید شہ دیتے ہیں جس سے وہ مزید برائی کی دلدل میں بھی پھنستے چلے جاتے ہیں اور جب ایسے معاملات سامنے آتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اُنکی تربیت میں ایسی کمی کیوں رہ گئی ہے۔

ہم بڑے مومن بنتے ہیں دوسروں کو سبق اخلاقیات کا درس دیتے ہیں مگر جب بات حق کی آئے تو پھر کنی کتراتے ہیں اور بعدازں کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی ہی ایسی تھی کہ ایسا ہو۔

محبت اور عزت بہت کم ہی ایک ساتھ رہ پاتی ہیں۔اگر عزت چاہیے تو محبت سے دور رہیں اور اگرمحبت چاہیے تو پھر عزت کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔یہ اس لئے کہا ہے کہ اکثر لوگ محبت کرنے والوں کو ایک نہیں ہونے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا انکی عزت پر حرف ہے۔دوسرا جب آپ محبت کرتے ہیں تو کسی نہ کسی کی عزت کو روند کر ایسا کرتے ہیں تو پھر عزت کی خاطر محبت کی قربانی ہی کیوں دی جاتی ہے۔آپ جب ایسا کر چکتے ہیں تو پھر آپ کو محبت کو سنبھالنا چاہیے کہ جو محبت کے بعد گھر بسانا چاہتا ہو وہ آپ کو عزت کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ دیتا ہے چاہے دنیا والے ایسے لوگوں کو بےغیرت و بے حیا ہی کیوں نہ کہیں۔

ہمیں اپنی عزت و ناموس تو پیاری ہوتی ہے مگر دوسروں کو بے وقعت سمجھتے ہیں جو چاہے دل میں آئے کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے عزت دار لوگ ہیں۔

کچھ لوگ ہمیں برائی کے راستے پر دھکیلتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم انہی کے ساتھ ہی کیوں غلط برتائو رکھتے ہیں۔

جب آپ سچائی کو چھپاتے ہیں تو پھر آپ کو ذلیل و رسوا ہی ہونا ہوتا ہے کہ جھوٹ سے بنے محل اکثر گر جاتے ہیں۔

ہم اپنی گریبان میں جھانکنے سے ڈرتے ہیں اور ہر جرم کا ذمہ دار عورت کو ہی سمجھتے ہیں جبکہ مرد ہی عورت کے اکثر گناہوں میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔

فقط آپ ہی دنیا میں عقل مند نہیں ہیں باقی دنیا کے لوگ بھی عقل رکھتے ہیں لہذا یہ مت سمجھ لیں کہ کوئی کسی کے سہارے پر ہی کچھ کر سکتا ہے

آپ کے دل میں جو بھی خواہش ہے پوری کر لیں،کسی کو گالیاں دینی ہیں کچھ دل کے ارمان نکانے ہیں،کسی کو چانٹا رسید کرنا ہے تو ایسا کرلیں مگر جب آپ کسی کے ساتھ ایک عہد باندھ کر اُسے دوراہے پر چھوڑتے ہیں تو وہ بے بس ہو جاتا ہے ایسا مت کریں یہ ناقابل معافی جرم ہے۔

مانگنے سے ہم اپنے آپ کو روک لیں تو برا فعل نہیں ہے مگر دینے کے عمل کو روکنا بد ترین ہے کہ اللہ ہمیں بھی بن مانگے عطا کرتے ہیں اور ہمیں دیئے میں سے دیتے رہنا چاہیے۔

میرے نزدیک اگر خاموشی سے مزید جھگڑے پیدا نہ ہوں اور آپس کی رنجش دور نہ ہوتی ہوتو پھر ایسی خاموشی مزید طوفان لانےکا سبب بھی بنتی ہے۔اگر آپ تعلق میں رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ہونا چاہتے ہیں تو بولنا ضروری ہے بصورت دیگر خاموشی نیم رضامندی ہے۔اکثر آپ کے بولنے سے ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ خاموشی ہی ہر مرض کا علاج ہے۔جب آپ بھی دوسرا بھی قصور وار ہوں تو پھر دونوں کو اپنی غلطی تسلیم کرکے تعلق رکھنا یا توڑنا چاہیے اگر آپ کو ڈر ہے کہ بولے تو پھنس جائیں گے تو سمجھ لیں کہ آپ خاموش رہ کر غلط کر رہے ہیں اور تاحیات اس پر آپ کو بہت کچھ سہنا پڑے گا۔

جہیز کی لعنت کی وجہ سے بے شمار لڑکیوں کی شادی یا تو ہو ہی نہیں پاتی ہے یا پھر اسکی کمی کی بدولت اکثر شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں کہ سسرال والوں کو اس بات کا غم ہوتا ہے کہ بہو تھوڑا سا سامان کیوں لے آئی ہے۔اگر ہم اپنی سوچ بدل لیں اور سادگی سے نکاح کرلیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بالخصوص مرد حضرات کو اپنے گھرانے پر زور دینا چاہیے کہ کم سے کم جہیز لیں تاکہ لڑکی والوں کے لئے شادی کا مرحلہ آسان تر ہوسکے۔

ہم چھوٹے ہو کر اگر بڑوں کو کچھ سمجھاتے ہیں تو گستاخ کہلاتے ہیں اور اگر اپنے برابر کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بھی ہمیں طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ہم جھوٹ بول کر دوسرے کو بے عزت تو کر سکتے ہیں مگر سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔یہی دیکھ لیں اگر لباس اچھا بھی لگ رہا ہوتو بھی طنز کریں گے ،جھوٹ بول کر کہیں گے ہم تو مذاق کر رہے تھے۔لباس صاف ستھرا ہو یہی بہت ہے مگر ہمارے ہاں سچے اور کھرے آدمی کی طرح اچھا لباس بھی بہت کم لوگوں کو برداشت ہوتا ہے۔ہم اپنی سوچ بدل سکتے ہیں دوسروں کے لئے بس ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں۔

جو لوگ دوسروں کے سہارے جنگ لڑتے ہیں وہ سہارے جب ڈوبتے ہیں تو اپنے ہی مہربانوں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔

جب تک ہم مجبوریوں میں خود کو گرفتار رکھیں گے نہ تو ہم خود اور نہ ہماری وجہ سے لوگ کچھ حاصل کر پائیں گے۔ہم مجبورخود کچھ معاملات میں ہوجاتے ہیں ورنہ ہمت و حوصلہ سے سب کچھ کر سکتے ہیں بس ذرا سے حوصلہ و ہمت کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522615 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More