فاضلِ جلیل عالمِ نبیل حضرت علامہ عبداللطیف القرشی الھاشمی قدس سرہ العزیز (تراپ)
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
آپ کا اسم گرامی عبداللطیف بن مولوی محمد
شریف بن نور مصطفٰے بن عطا رسول بن محمد حسن بن مولوی میاں شرف الدین بن
حافظ فیض اﷲ بن پیر عبدالکریم بن خواجہ وادیء سواں،حاملِ قرآن وسنت، صاحبِ
کرامات حضرت شیخ المشائخ پیر سید سبز علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ جو علاقہ پیل سے
اپنے بزگوں کے حکم پر بت پرستی ، کفر و شرک کو مٹانے کے لیئے دریائے سوان
کے کنارے قصبہ تراپ میں رونق افروز ہوئے تھے ۔ اس وقت کے حکمرانوں نے آپ کو
وسیع جاگیر دی تاکہ تبلیغ دین میں معاشی دقتیں پیش نہ آئیں۔ آپکے آباو
اجداد نے کوہستان نمک کے اطراف پھیلے ہوئے بت کدوں کے مدمقابل پرچم توحید
بلند کیا۔ خاندانِ نبوت و رسالت نے اس فریضہ کی تکمیل میں کسی قربانی سے
دریغ نہ کیا۔ وطن اور رشتہ داروں کی محبت کو ہمیشہ دینِ مصطفٰے پر قربان
کیا۔ آپ اپنے خاندان سے تنہا یہاں تشریف لائے۔ دریائے سواں کے کنارے یہ
گاؤں ہندو بت پرستوں کا بڑا مرکز تھا۔ ہندو بڑے طاقتور تھے۔ لیکن اﷲ کے
درویشوں کے سامنے یہ طاقت موم بن کر پگھل گئی۔ لاتعداد لوگوں نے اسلام قبول
کیااور یوں بت پرستوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ آپ نے علم دین اور تبلیغِ
دین کا فریضہ اپنی اولاد کو سپرد فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ سات پشتوں تک تو
میرے زور سے ولائت دین میری اولاد میں رہے گی۔ اس کے بعد اپنی اپنی محنت
ہوگی۔ آپ کا یہ فرمان حرف بحرف پورا ہوا۔ راقم الحروف نے اپنے خاندان کے
چند کتب خانے دیکھے اور مکھڈشریف دربار حضرت مولوی خواجہ محمد علی ھاشمی
رحمۃ اﷲ علیہ کے تاریخی کتب خانے میں بھی اپنے خاندان کے بزرگوں کی کتب
دیکھی ہیں۔ایک خانقاہ درس و تدریس کا مرکز جوسوان برد ہوگئی ۔ راقم نے ٹیلے
کی صورت میں دیکھی تھی جسے عوام ملوک علی شاہ کی ڈھیری کہتے تھے۔ رفتہ رفتہ
اس کے نشانات مٹ گئے۔ نسل در نسل فریضہ تبلیغِ دین کا یہ فریضہ ادا ہوتا
رہا۔حبرالامۃ حضرت سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کے فیض گرامی سے اس
خاندان کے سینے قرآ ن اور علوم قرآن سے معمور تھے۔ فمی بشق کی منزلیں پڑھنے
والے حفاظ و قراء کی کثیر تعداد تھی۔گویا کہ علاقے بھر مذہبی سیادت اسی
خاندان میں تھی۔ حضرت ملک منصور اعوان رحمۃ اﷲ علیہ کی اولاد نے فریضہ دین
کی ادائیگی میں ہمیشہ بھرپور خدمات سرانجام دیں ۔ تراپ کی مرکزی جامع مسجد
جو ایک جالی والے درخت وجہ سے جالی والی مسجد مشہور تھی ،ملک محمد یوسف
اعوان نے جگہ بھی دی اور تعمیر بھی کرائی تھی۔ میں نے حضرت علامہ عبداللطیف
قریشی ھاشمی کا دور دیکھا ۔ آپ اس وقت عمر رسیدہ تھے۔ کتب مطالعہ آپ کا
محبوب مشغلہ تھا۔ بینائی کی کمزور کی وجہ سے موٹے شیشے والی عینک استعمال
فرماتے تھے۔ آپ نے مختلف عنوانات پر ماسودات تحریر فرمائے ۔ اگرچہ آپ کسی
شہر میں سکونت پذیر ہوتے تو کئی کت شائع ہوچکی ہوتیں لیکن دورافتادہ قصبہ
میں وسائل نہ تھے۔ سفر ی سہولتیں بھی ان دنوں نہ تھیں۔ میرے استفسار پر
اپنے بتایا کہ مدارس اور کتب کی کمی تھی ۔ہر فن کے جید علمائے کرام تھے
مثلا کہیں صرف صرف و نحو کے ماہرین تو کہیں، فقہ کے، کہیں حدیثاور تفسیر
قرآن کے۔ اس دور میں طلبا کو کئی کئی میل کا سفر کرکے مختلف مدارس میں جانا
پڑتا۔ آجکل کی طرح مدارس میں قیام و طعام اور کتب کی فراہمی نہ ہوتی تھی۔
اکثر طلبا اسباق سنتے اور سینوں میں محفوظ کرتے۔ یا کچھ لکھ لیتے۔ فرمایا
کہ کوہتستان نمک میں ایک مدرسہ میں میں پڑھتا تھا ۔ تعلیم کا معیار بہت
اچھا تھا۔ کھانے کے لیئے طلبا گدا کرکے روٹیاں جمع کرتے کچھ کھاتے اور باقی
جمع رکھتے تاکہ بار بار گدا کرنے سے عزت نفس مجروح نہ ہو اور وقت بھی ضائع
نہ ہو۔ سالن نہ ہوتا تھا۔ سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے تھے ۔ اگر نمک
مرچ کہیں سے میسر ہوجاتی تو وہ بھی پانی میں ڈال دیتے۔ کم خوراک اور سوکھے
ٹکڑے کھانے کے باوجود ہماری صحتیں بہت اچھی رہتی تھیں۔ بس طلب تھی تو علم
کی ۔ کپڑے دھونے کے لیئے صابن نہ ہوتا تھا ۔کیونکہ پیسے ہی نہ تھے۔ پانی کے
کنارے سفید کلر اکٹھا کرکے کپڑوں پر ڈال کر ملتے اور پانی میں ترالیتے۔
البتہ جوئی زیادہ پڑجاتی تھیں ۔ جب کبھی ہم گھروں میں جاتے تو اپنے کپڑے
ساتھ لے جاتے۔ ہماری مائیں بہنیں کڑھا کے اند رابلتے پانی میں ڈالتیں تو
جوئیں مرتیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اس وقت دینی تعلیمی کے حصول کے لیئے بے حد
مشکلات تھیں۔ جو لوگ ان مشکلات کو جھیل کر عوام میں عالم بن کر آتے،وہ پختہ
علم و عمل کے حامل ہوتے تھے۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ ٹمن ضلع چکوال میں بہت
بڑے عالم شیخ الحدیث حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔ جن کے پاس ہم نے
دورہء حدیث کیا ۔ اس وقت میری داڑھی سفید تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس
وقت علما کو علم دین کے حصول کی حرص ہوتی تھی جبکہ آج سند الفراغ کی حرص ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بہت کم عالم ہیں باقی بہروپیئے اور بناوٹی شیخ الحدیث و
التفسیر بنے ہوئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ملتان (چکوال ) کے بڑے غیر مقلد
عالم ولی داد نام کے تھے۔ ایک دن وہ ہمارے مدرسہ میں آگئے اور حضرت امام
غزالی نے فرمایا کہ تیار رہو آج مولوی ولی داد آیا ہوا ہے اور وہ حدیث شریف
کے طلبا پر سوالات کرتا ہے۔ درس شروع ہوا اور مولوی ولی داد صاحب آکر بیٹھ
گئے ۔ حضرت نے فرمایا کہ حدیث شریف کا متن میں نے پڑھنا شروع کیا تو مولوی
ولیداد صاحب نے نکتہ اعتراض اٹھایا ۔ میں نے ان جواب دیا اسی چند مرتبہ
انہوں نے اعتراضات کیئے اور میں نے جوابات دیئے تو وہ بولے کہ دورہ حدیث
صحیح معنوں میں اگر کررہے ہیں تو آپ۔ حضرت علامہ عبداللطیف قریشی ھاشمی
مخدوم تھے لیکن اپنے کام خود کرتے تھے۔ جدی اراضی کا وسیع رقبہ آپ کے پاس
تھا۔ مزارعین کافی تعداد میں تھے لیکن اپنے اپنے مویشیوں کے لیئے کچھ نہ
کچھ چارے کا اہتمام اپنے دست مبارک سے بھی فرماتے۔ مکھڈ شریف بھی علم و
عرفان کا مرکز تھا۔ جسکے بانی حضرت خواجہ مولوی محمد علی ھاشمی رحمۃ اﷲ
علیہ خلیفہ حضرت پیر خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔ آپکے دور میں
حضرت خواجہ مولوی احمد دین رحمۃ اﷲ علیہ علم و عرفان میں بہت بلند مقام
رکھتے تھے ۔ چند مرتبہ ایسا ہوا کہ کچھ کسی مسئلہ میں آپکے پاس حاضر ہوئے
تو آپ نے فرمایا کہ مولوی عبداللطیف صاحب کے ہوتے ہئے تم میرے پاس کیوں آئے
ہو؟ اس سے آپکے علمی مقام کا پتہ چلتا ہے۔ مجھے آپ کی صحبت میں رہنے کا وقت
نہیں ملا ۔ ایک پوست کارڈ سے پتہ چلا کہ اجمیر شریف سے آپکو عرس حضور خواجہ
غریب نواز میں شرکت کا دعوت نامہ آیا کرتا تھا جس سے آپکی سلسلہ چشتیہ
بہشتیہ کے مرکز کے ساتھ روحانی اور طریقت کی وابستگی ثابت ہے۔ بظاہر اس
خاندان نے رسمی پیری مریدی کا لاس قائم نہ کیا تاکہ اس خاندان کے بزرگ
مردوزن لوگوں کی امیدوں اور دعاؤں کے مرکز رہے اور اب بھی ہیں۔ حضرت کا
زیادہ وقت تلاوت قرآنِ کریم اور مطالعہ میں گذرتاتھا۔ اسلاف کی طرح آپ بھی
حکمت کرتے تھے اور یونانی علاج کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اسلاف کسی نہ کسی
ہنر کے ماہر ہوتے تھے ۔ آپ بھی بان بٹائی کے ماہر تھے نہائت باریک بان
ہموار اور خوبصورت ہوتا تھا ۔ اپنے گھر کی چارپائیاں اپنے بان سے تیار کرتے
تھے۔ جمعۃ المبارک عید کا دن ہے ۔ مضافات سے زمیندار لوگ تیار ہوکر گاؤں
میں آتے اور انکی اکثریت حضرت کے آستانہ پر جمع ہوجاتی ۔ وقت ہونے پر ایک
جلوس کی صورت میں جامع مسجد روانہ ہوتے ۔ آپ نہائت پیارے اور موئثر انداز
میں وعظ فرماتے۔ بہترین قاری تھے کہ نماز میں جب قرآن کی تلاوت فرماتے تو
مقتدیوں پر وجد طاری ہوجاتا۔ مسائلِ فقہ پر عبور تھا۔ شریعت کے معاملے میں
غیر متزلزل تھے۔ شرعی معاملات میں کسی کا لحاظ نہ فرماتے۔ کچھ لوگ بدعقیدگی
کاشکار ہوئے اور ایک مسجد میں انہوں نے مولوی رکھا جس نے ایک میت کے جنازہ
کے موقع پر کہا کہ مولوی صاحب اگر نمازِ جنازہ کے بعد دعا نہ مانگیں تو میں
جنازہ میں شریک ہوں گا ۔آپ نے فرمایا کہ جنازہ کے بعد دعا ثابت ہے اور
ہمارے بزرگ اسی پر عمل کرتے رہے ، دعا مانگی جائے گی۔ جس کی مرضی ہوآئے ۔سوائے
اس مولوی کے سبھی لوگ شریک ہوئے۔ عوام کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ عالمِ
ضعیفی میں پیدل چلنا دشوار ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ بڑے معزز زمیندار آپ
کو کندھو ں پر اٹھا لیجا کر منبر شریف پر بٹھا دیتے۔ حافظہ کایہ عالم تھا
کہ ایک دفعہ مجھے کسی حوالے اور سند کی ضرورت پڑی میں نے ذکر کیا تو فرمایا
کہ تفسیر مدارک یا روح المعانی کے فلاں صفحہ پر دیکھو۔ اﷲ اﷲ اس پیرانہ
سالی میں حافظہ کا یہ عالم تھا۔ صاحبِ فراش ہوگئے لیکن انداز گفتگو اور
تلفظ میں فرق نہ آیا۔ میں آپ سے مسلم شریف کی جلد اول لا یابس وہی میرے پاس
آپ کی یادگار ہے۔ رات بہت کم سوتے اور نماز تہجد مسجد میں ہی جاکر
ادافرماتے ۔ فجر ہونے تک ذکر اذکار میں مصروف رہتے اور نماز فجر کے بعد گھر
تشریف لاتے اور چائے نوش فرماتے۔ گرمی ہویا سردی دن کو لسی ضرور پیتے۔ سرپر
ہمیشہ عمامہ باندھاکرتے کبھی صرف ٹوپی کا استعمال نہ کیا۔ نظر کی کمزوری
اور ان دنوں راستے اونچے نیچے تھے تو عصا ہمیشہ اپنے پاس رکھتے۔ باہر
زمینوں کی طرف جاتے تو کلہاڑی اپنے پاس رکھتے۔ ہر ملنے والے سے اخلاق نبوی
کا مظاہرہ کرتے۔ خوش طبع تھے کبھی کبھی مذاح بھی فرماتے ۔ میں نے کبھی آپکو
منہ کھول کر آواز سے ہنستے نہیں دیکھا۔ مسکراتے تھے۔ کبھی کسی کو گالی یا
برا بھلا کہتے ہوئے نہیں سنا۔ غصے میں بھی زیادہ خاموش رہتے۔آپ کی اولاد
نرینہ میں عبدالعزیز، عبدالقدوس اور عزیز الرحمٰن کم سنی میں وصال فرماگئے۔
جبکہ ایک فرزند عبدالحیء حیات ہیں ۔جب حضرت صاحبِ فراش ہوگئے تو اس فرزند
نے حقِ فرزندیت ادا کرتے خود انکی خدمت کی لیکن اپنے والد گرامی کی علمی و
روحانی وراثت حاصل نہ کرسکے ۔کتب دینیہ کا بیش قیمت خزانہ غالبا فروخت
کردیا۔ آپ کثیرالاولادہیں مگر خاندانی مذہبی علمی وراثت سے سبھی محروم ہیں۔
حضرت علامہ کی اولاد میں پانچ دختران ہوئیں جو علم دین سے مزین ہوئیں ۔دوکا
انتقال ہوچکا ہے اور تین بقید حیات ہیں۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔
8 دسمبر 1988 کو اپنے داعیء اجل کو لبیک کہا اور اپنے آقا کریم ﷺ کی زیارت
کے لیئے مرقد مبارک میں تشریف لے گئے۔ تلہ گنگ میں آپکی مرقد مبارک ہے۔ اﷲ
آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ |
|