تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا( اقبال)...
کیا آج یہ قوم مسلم اپائج یا بے بس ہے؟جس قوم کی صرف ایک لڑکی کو ظلم و
اسیری سے بچانے کے لئے ہمارے اسلاف نا مناسب حالات میں بھی اپنا جنگی نقشہ
سمیٹ کر اپنی حکمت عملی کو بدل دی تھی اور بر صغیر پر لشکر کشی کی مہم کا
آغاز کیا تھا 'اور یہی حکمت عملی راجہ دھر کی قسمت کا فیصلہ کیا تھا اور
ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی تقدیر بدل کراسلام اور اسلامی قدروں کو جڑ
پکڑنےکا سبب بنا تھا....لیکن آج کیا ہو گیا ہے اس قوم کی غیرت کو؟معلوم
ہوتا ہے کہ اس قوم کو تو تباہ و برباد ہونا ہے... مگر پورا نہیں.... اگر
نبی کریم صلعم کی دعا نہ ہوتی تو یہ کب کی قوم عاد وثمود کی طرح دنیاے ہستی
سے مٹا دی جا چکی ہوتی' کوئ کچھ کریں'' بولیں االزام لگائں' بدنام کریں' *قتل
کریں* مگر.بے حس؟ یا بے بس؟ آے دن نئے نئے بیانات'زہرافشانی 'الزامات'معصوموں
کی گرفتاریاں'قتل و غارت گری ....کھلی پھانسیاں و دن ڈھاڑے مسلمانوں کی
املاک کی لوٹ مار 'عصمت دری و قتل عام....مگر آخر کیا ہو گیا اس قوم کے
رہبروں کو... کہاں سو گئے ہیں عرب یا رہنمانان قوم وملت؟ کچھ نہیں ... سب
کچھ ہے نہ یہ قوم بے بس ہے اور نہ بےحس و بے غیرت ' نہ ہی بے سروسامان اور
ایسی بات بھی نہیں کے رہبران قوم بالکل خاموش ہیں. ...بہت کجھ کیا جارہا ہے
مگر ؟؟؟ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کے مصداق... حقیقت میں مرض کا علاج صحیح
معنوں میں نہیں ہو پا رہا...مرض سمجھ کر عوارض کا علاج کیا جا رہا ہے.....بھر
کیسے بدلیں گے حالات؟ اور کیسےآے گی نصرت الٰہی؟اصل وجہ یہ ہے کہ صرف دعوت
والی یعنی نبیوں والی یا کلمہ کی محنت چھوٹی یا کمزور و کم ہےجس کی بنا پر
اللہ کی ذات سے ہو نے کا پورا یقین نہیں رہا...جس کے نتیجہ میں خدائ مدد ہٹ
چکی ہے.. زرہ سوجھئے گا وہ اونٹوں کو چرانے والے( چرواہے) کیسے قلیل عرصہ
میں ادھی دنیا کے مالک بن گئے تھے؟ اور کیسے دنیا کو تہذیب و تمدن سے
روشنان کرایا تھا؟ کونسی سائنس و ٹیکنالوجی لے کر دنیا کے سامنے آے تھے' سج
تو یہ ہے وہاں لاالہ الااللہ کے ایٹم بم کو پینکھا گیاتھا, جو سب سے پہلے
کفر کے ایوانوں میں زلزلے پرپا کر دئے تھے اوربڑی بڑی سلطنتوں کو سرنگوں
ہونا بڑا تھا'اورسال ہاسال کی ظلمت کدہ کو اپنے ڈیرے اٹھانے پر مجبور ہوئے
تھے' دراصل یہی وہ کنجی تھی جس ہر عرب و عجم کے مالک بنائے جانے کا وعدہ
تھا... اور دنیا نے اس منطر کو دیکھ بھی لیا ...حقیقت میں وہ اسی کلمہ پر
محنت کر کے اپنا تعلق سارے جہاں کے رب اللہ سے جوڑا تھا اور ہم دنیا کی
چیزون پر محنت کر کے اپنا تعلق بھروسا یا اعتماد دنیوی اسباب پر کرتے ہیں...وہاں
جیزوں/ مال ومتاع سے ہونے کے یقین کو ہٹا کرایک اللہ کی ذات سے ہونے کا
یقین کو لایاگیا تھا..اور دنیا کی محبت کو نکال کر دنیا سے بےثباتی پیدا کر
دی گئ تھیں....مگر آج ہمارا معاملہ یا رویہ اس سے بالکل برعکس ہے' پیارے
نبی کے فرمان کو یاد کریں " ایک زمانہ ائیگا کے قومیں تم پر ٹوٹ پڑینگی
جیسے لوگ کھانے کے لئے. یا دسترخوان ہر... پوچھا گیا کہ کیا ہماری تعداد کم
ہوگی؟ فرمایا نہیں تم تعداد میں بہت ہونگے مگر تمہاری مثال سمندر کے جھاگ
کے برابر ہوگی....پھر وجہ بتائ گئ تھی کے دنیا سے محبت اورموت سے بیزاری(
مفہو م حدیث)...اور.اس حدیث کے مفہوم پر بھی غور کریں....اچانک سرور کونین
صلعم ام المؤمنین عائشہ رض کے حجرہ میں داخل ہوتے ہیں....وہ فرماتی ہیں کہ
میں نے نبی کے چہرے اقدس پر ایک خاص اثر( تغیر) دیکھ کر بھانپ لیا کے کوئ
خاص بات ہے جو آپ کہناچاہتے ہیں ....اس وقت آپنے مجھ سے کوئ بات نہ کی اور
میں دیوار سے کان لگاے کھڑی ہوگئ آپ صلعم ممبر پر جلوہ افروز ہو کر حمد
وثناء کے بعد ادشاد فرمایا لوگو! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو
مبادہ وہ وقت اجاے کہ تم دعا مانگو قبول نہ کی جائے اور دشمن کے خلاف مدد
چاہو مگر مدد نہ کی جائگی....اورآپ صلعم اتنا فرما کر ممبر سےاترے تھے......ایک
اور حدیث کے مفہوم پر غور کریں.... ٍفخر دوعالم صلعم کا ارشاد ہے جب میری
امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ھیبت و وقعت اسکے قلوب سے
نکل جائیگی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کے
برکات سے محروم ہو جائیگی گی اور جب آپس میں گالی گلوج اختیارکرےگی تو اللہ
جل شانہ کی نگاہ سے گر جائیگی- |