حکمت آمیز باتیں-حصہ پنجم

اچھی باتیں اکثر ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔
اکثر وبیشتر مجھے ایسا منظر دکھائی دیتاہے جب کوئی بہن کسی راستے سے گذرتی ہے تو سب اس کو اپنی نگاہوں کا نشانہ بنا لیتے ہیں،یہ بس والا، وہ رکشے والا، وہ اسکول کا چوکیدار، وہ چاٹ والا، وہ پان والا، گلیوں کے آوارہ لڑکے اور یہ سب لوگ ایک بار دیکھنے کے بعد اُس پر اُس وقت تک نظر کرم رکھتے ہیں جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتی ہے یا گھر کے دروازے پر داخل نہ ہو رہی ہو،یا اسکول،کالج و یونیورسٹی بس میں سوار نہ ہو جائے، کہاں تک لکھوں سمجھ نہیں آتی ہے ہم مرد ہی جناب جی ہم مرد ہی عورت کے ساتھ ایسا سلوک کر کے اس کو گندہ،خراب،بدچلن بناتے ہیں اور پھر ہم خود ہی کہتے ہیں کہ فلاں ایسی ہے فلاں ویسی ہے؟

ہماری غیرت کہاں سوئی ہے سمجھی نہیں آتی ہے کہ گھر میں ماں، بہن بیٹی ہو بھی تو بھی ہم دوسروں کی عزتوں کو اپنی نگاہوں کے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں؟ جناب جب تک ہم عورت کو عورت سمجھ کر اسکو وہ عزت نہیں دیں گے جس کی وہ مستحق ہے اس وقت تک معاشرے میں بگاڑ ٹھیک نہیں ہو سکتا ہے،عورت مقدس ہے اس کا احترام ہم پر لازم ہے۔اس پر سوچیے گا کہ کل کو آپ کے ساتھ کوئی ہو اور کوئی نظر رکھے ہوئے ہوتو آپ کو کیسے لگے گا؟؟؟؟

حق کے لئے بولنا شروع ہو ں تو دوسرے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں کہ چپ ہو جاو جن کے خلاف بول رہے ہو وہ تم سے زیادہ طاقت ور ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ چیونٹی ہی اکثر بڑے بڑے ہاتھیوں کو سر کے بل گراتی ہے۔

ہم انسان بھی عجیب فطرت کے مالک ہیں جس سے محبت ہو تو اظہار سے ڈرتےہیں اور گونگے سے بن جاتےہیں مگر جب ہم کسی سے نفرت کرتے ہیں تو پھر منہ پھٹ فرد کی مانند کھل کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔

کسی بھی رشتے کو تا دیر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ غلط فہمیوں کو دل میں پالنے کی بجائے فورا ہی ختم کرنے کی کوشش کریں ورگرنہ ایک دن وہ رائی کاپہاڑ بن جاتی ہیں اور اس کے بعد رشتے کو قائم رکھنے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں۔

ہمیں کب شعور آئے گا؟ کب ہم اپنے آپ کو محض مسلمان سمجھنا شروع کریں گے،جب سے ہوش سنبھالا ہے آپس میں اللہ،رسول،قرآن اور آخرت پر یقین رکھنے والوں کو آپس میں دست و گربیان دیکھا ہے؟ جب روزمحشر سب سچ سامنے آجائے گا تو کیوں ہم سب آج ہی خود خدا بن کر کسی کو اس کے عمل کی سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں کیوں نہیں ہم سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں؟

جب تک آپ معافی دینے اور غلطی تسلیم کرنے کی عادت کو اپنانا شروع نہیں کریں گے آپ کبھی پرسکون زندگی نہیں گزار سکیں گے۔

خوشی فہمی کبھی کبھی کی اچھی ہوتی ہے ہم میں سے اکثر لوگ کسی کے ساتھ برا سلوک کر کے،یا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی میں حصہ دار بن کر یہ سوچتے ہیں کہ بھئی اس کے ساتھ جو ہوا،اب ماضی کا قصہ ہوا اسے بھول کر ہم اب اپنے حال میں رہتے ہیں کہ ہمیں کیا اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو،اور مستقبل کس نے دیکھا ہے تو اسکی فکر میں کیوں اپنے آپ کو عذاب میں ابھی سے ڈال لیں۔تو جناب حضرت عقل مند صاحب! ایک نہ ایک دن جب آپ کو اس بات کا احساس ہونا ہی ہے کہ آپ نے کسی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا تو پھر آپ کو ضمیر جاگ گیا تو کبھی سکون کی نیند نہیں سونے دے گا کہ اللہ بھی جب تک بندہ معاف نہ کرے گا تو معاف نہیں کرے گا تو یہ سوچنا کہ بندہ بن معافی کے معاف کرے گا تو یہ اس کا ظرف ہوگا؟ کیا آپ اپنے عمل کے کسی کو جواب دہ نہیں ہیں، کیا ماضی کو بھول کر،گلے شکوے دور کر کے ایک ہو کر خوش گوار زندگی بسر کرنا گناہ کیبرہ ہے؟ جو آپ اپنے حال میں اچھا برا کر کے خوش رہنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں؟

ہمارا میڈیا پتا نہیں کہاں کہاں سے ایسے لوگ کیمرے کے سامنے لے آتا ہے جن سے بہت کچھ ہمیں سوچنے کا موقعہ ملتا ہے کہیں گانے بجانے والے لے آتے ہیں اور کہیں ایسے کارنامے سامنے لائے جاتے ہیں جن کا بتانا معاشرے میں کوئی اچھائی کا فروغ نہیں دیتا ہے مگر ایسے افراد جن کی حوصلہ افزائی سے انکی زندگی بہتر ہو سکتی ہے یا پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں وہ انکی کیمرے کی آنکھ سے پتا نہیں کیوں اوجھل رہتے ہیں؟ شاید یہ ہمارے مجموعی بے حسی کا عکاسی کرتے ہیں کہ ہم اچھا ہونا دیکھنا نہیں چاہتے ہیں ورگرنہ اچھائی کا فروغ لازمی میڈیا کے ذریعے سے دکھایا جاتا؟ کہیں طوفان بدتمیزی کے پروگرام ہیں اور کہیں ناچ گانا ہے کہ شاید یہی ہماری ثقافت ہو؟ اللہ ایسے میڈیا عناصر کو ہدایت دے آمین ثم آمین

کسی بھی شخص کو اپنے احساسات و جذبات سے کھیلنے کا موقعہ نہ دیں اگر کوئی ایسا کرے تو پھر آپ کو اس کے ساتھ جو بھی حق پر مبنی ردعمل ہو وہ ظاہر کرنا چاہیے کہ کبھی کبھی غلطی پہ غلطی کرنے والے اور مجرم کو سزا نہ دینے سے آپ اسکی غلط کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہو اور وہ پھر ویسا کسی اور کے ساتھ کرتا ہے لہذا ایسے لوگوں کی سرکوبی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ بھی سدھر جائیں اور دوسروں کو بھی تحفظ مل سکے۔

دوستو! اپنی غلطی تسلیم کرنے سے کوئی چھوٹا انسان نہیں بو جاتا ہے یہ ہمارے ضمیر کو مطمن کرنے کا سبب بھی بنتا ہے اور جب ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم پرسکوں ہوجاتے ہیں،مگر اسکے برعکس جو اپنی غلطی کو بھی دوسرے پر ڈالتے ہیں یا اسکی کوشش کرتے ہیں تو ضمیر انکو ہر وقت ڈستا رہتا ہے اور وہ کبھی مطمن ہو کر زندگی نہیں گذار سکتے ہیں بالکل ویسے ہی جب آپ کسی کے ساتھ ناحق زیادتی کر کے کبھی خوش و پرسکون نہیں رہتے ہیں۔لہذا غلطی کو مان لیں اور مسئلے کو حل کریں وقتی طور پر مسئلے کا غلط حل تاحیات آپ کو بے چین رکھے گا اور زندگی برباد ہوگی۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522777 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More