زہر مسیحائی

مردہ خانے میں ہر طرف سفیدی کا راج تھاسفید چادروں سے ڈھکے مردے۔جن کے جسم بے حس و حرکت اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔اس نے آہستہ سے دروازہ کھولااور اندر داخل ہوا۔یہ دنیا اس کے لیے نئی نہ تھی مگر تنہا آج اس نے پہلی بار یہاں قدم رکھا تھا۔اندر داخل ہو کر احتیاطا چٹخنی چڑھائی ۔اس کی آنکھوں کی تلاش ایک جگہ رک گئی وہ اس کی جانب بڑھا آلہ جراحی کو مضبوطی سے تھاما ۔اور سفید چادر ہٹائی ایک جوان جسم اپنے فطری لباس میں اس کے سامنے تھا جس کی آنکھیں چھت پہ مرکوز تھیں گویا ایک نقطے پہ ٹھہر گئی ہوں۔اس کے سرد جسم کو ہاتھ لگاتے ہی ایک سرد لہر دستانے کو پار کر کے اس کی رگ و پے میں اتر گئی اس نے ایک جھرجھری لی گویا موت کی ٹھنڈک سرائیت کر گئی ہو۔خود پہ قابو پانے کے لیے ایک گہری سانس لی تو موت کی نمناک ٹھنڈک سانس میں در آئی ۔اس نے اپنی توجہ سامنے پڑے جسم پہ مبذول کی اور اس کا پیٹ چاک کر دیا ۔سیاہی مائل منجمند خون ذیادہ فاصلہ نہ طے کر سکا اس نے اس کے اعضاء شیشے کے جار میں موجود محلول میں ڈالے اور پیٹ سینے کے بعد خون آلود دستانے ڈسٹ بن میں ڈال کے جار ہاتھ میں لیے آگے بڑھا یکایک اس کا کوٹ کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا۔ایک خوف کی لہر نے اسے مفلوج کر دیا اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں جار اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اعضاء نیچے بکھر گئے اور اسی لمحے اس کے دل نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا کٹے ہوئے درخت کی طرح گرتے ہوئے اس کی آخری نظر اٹھی اس کے سفید کوٹ کا کونہ ایک کیل میں اٹکا ہوا تھا۔