بدترین تشدد اور پھر وہ پتھریلا تنگ وتاریک
قفس، ایک ناتواں وجود نے اپنی زنجیروں کو حرکت دی. کچھ لکھنے کی کوشش میں
.........
پہرے پہ مامور فوجی نے دیکھا
"یہ کیا کررہے ہو. دیواروں کے ساتھ"؟
"روشنی تک سفر"
اسکی مسکراہٹ زندگی کی شادمانی سے بھرپور تھی
وہ تمسخرانہ انداز میں ہنسا
"زنجیروں کے ساتھ"
"نہیں!قلم کے ساتھ"
اس نے جھنجھلا کر وہ چھوٹی سی درز بھی بند کردی جس سے ہلکی سی روشنی چھن کر
آرہی تھی.
صبح دیکھ کے پھر چلایا
"یہ پانی کہاں سے آیا"
"فلسطین کے دریاؤں سے"
"اور یہ درخت"؟
"کشمیر کے باغات سے"
"مجھے نفرت ہے تم سے"
وہ آگ بگولہ ہوکر چلاگیا شام کو پھر لوٹا
"اب یہ چاند کہاں سے آیا"
"بغداد کی راتوں سے"
وہ پھر چلایا
"ان زنجیروں سے آزادی ممکن نہیں"
"میں قید ہی کب تھا "
شدید غصے نے اسے تقریبا پاگل کردیا. آس نے زدوکوب کرنے کے لیئے اپنی اسٹین
گن،بوٹ، ہاتھ سبھی اس نحیف وجود پر استعمال کرڈالے.
اسٹیفن !لگتا ہے تم نے اس قیدی کا کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا. لو ڈرنک پیو
اسٹیفن نے اداسی سے ساتھی کا بڑھایا ہوا ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا!
"نہیں! جان وہ آزاد ہے.پتہ نہیں ہمیں آزادی کب ملے گی؟" |