جھوٹ بولے کوا کاٹے

ہمارے سماجی اور معاشرتی رویئے تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، خاندان جو معاشرے کی اکائی کا درجہ رکھتا ہے بکھر رہا ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں جھوٹ کو سچ پر سبقت حاصل ہو گئی ہے۔
آج یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ موبائل فون، کیبل اور انٹر نیٹ کے آنے سے پہلے ہمارے آپ کے گھروں میں کیا ہوتا تھا۔ ہمارے رویئے کیسے تھے ہم کیا سوچتے تھے۔۔ مثال کے طور پر آج سے بیس سال پہلے شام کی چائے پر سب گھر والے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوتے تھے۔ لیونگ روم ہے یا اس میں ڈرائنگ روم ہے تو اس میں یعنی جس کمرے میں ٹی وی ہوتھا تھا ،وہیں شام میں پورا گھر جمع ہوتا تھا۔ ٹی وی بھی دیکھا جاتا تھا، گپ شپ بھی ہوتی تھی ۔ابا اس دوران پڑھائی کا بھی پوچھ لیتے تھے اور سب گھر والے ایک دوسرے کو دن بھر کی روداد بھی سنا دیتے تھے۔ کھانا بھی عموما ً اسی وقت سب ساتھ مل کر کھاتے تھے۔ اور کھاتے ہوئے بھی بات چیت کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ سب ہنستے بولتے تھے۔ کتنا اچھا لگتا تھا۔

اس دور میں جب گھر کے دروازے پردستک ہوتی تھی تو گھر بھر مہمان کی آمد کا تصور کرکے خوش ہوجاتا تھا۔ سب دروازہ کھولنے کے لئے لپکتے تھے۔ دروازے پر کوئی عزیز، رشتےدار یا دوست ہوتا تھا۔ وہ بتاتا تھاکہیں قریب آیا ہو ا تھا تو سوچا ملتا جاؤں ،بہت دن ہو گئے تھے ملے ہوئے ،خیریت لینے آگیا۔ اماں نہال ہو جاتی تھیں ، ابا مہمانداری میں لگ جاتے تھے، بہن بھائی پانی اور چائے کیلئے دوڑتے تھے۔ کہاں اٹھاؤں کہاں بٹھاؤں ہوتا تھا۔ مہمان کو خدا کی رحمت کہا جاتا تھا۔اکثر اماں نے کوئی اچھی چیز پکا کر رکھی ہوتی تھی جو مہمانوں کیلئے مخصوص کردی جاتی تھی۔ ہم سب بہن بھائی للچائی ہوئی نظروں سے کھیر یا حلوے کو دیکھتے تھے لیکن ہمیں وہ مہمان کے کھانے کے بعد ہی ملتی تھی۔جب تک مہمان گھر میں رہتا اسے وی آئی پی پروٹوکول ملتا ، مہمان جانے کا کہتا تو اسے روکنے پر اصرار کیا جاتا ، ارے بھائی کھانا کھا کے جانا ، ابھی تو آ ئے ہو ابھی سے جانے کی بات شرو ع کردی بس اب شام کو جانا۔ کسی رشتے دار کے ساتھ بچے بھی ہوتے تو ہماری تو موج ہو جاتی ، خوب کھیلتے اور ہلہ گلہ کرتے۔واہ کیا دن تھے۔

شام آ ج بھی ویسی ہے ، گھر آج بھی ویسے ہی ہیں۔ٹی وی بدل گئے ہیں اور ان سے ہمارے رویئے اور خاندانی نظام بھی بدل گیا ہے۔آج گھر کے ہر کمرے میں ٹی وی موجود ہے۔ سب کا اپنا اپنا ٹی وی ہے۔ ٹی وی پر ایک دو نہیں دو سو چینل دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر ایک کی پرائیویسی ہے ، سب الگ الگ بیٹھ کرٹی وی دیکھتے ہیں۔ شام کی چائے پر بھی اب گھر والے جمع نہیں ہوتے۔ گھر کے بوڑھے آنکھوں میں خالی پن بسائے ٹی وی پر نظریں گڑائے جانےخلا میں کیا دیکھتے رہتے ہیں ۔۔کھانے پر اگر کبھی اکٹھے ہو بھی جائیں تو کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتا ہے کسی کی نظریں ٹیب پر جمی ہوتی ہیں۔ اب تو ایک دوسرے سے بات کرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ ماں باپ یا دادا دادی کچھ کہہ دیں تو سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے بوڑھے آؤٹ ڈیٹڈ لوگ ہیں ۔

اب تو مہمان بھی نہیں آتے ، کوئی بھولا بھٹکا کہیں آپ کے علاقے میں کسی کام سے آجائے تو پہلے آپ کو فون کرے گا ، بھائی آپ کے محلے میں آیا ہوا ہوں آپ گھر پر ہیں کیا ، ملنے کیلئے آنا چاہتا ہوں۔کبھی کبھی کوئی گھر کے دروازے پر پہنچ کر کال کرتا ہے ۔ جواب ملتا ہے ارے پہلے سے بتا کر آنا تھا نا، ہم تو گھر میں نہیں ہیں ۔۔ غلطی سے کسی نے دروازہ کھٹکھٹا دیا یا گھنٹی بجا دی تو گھر میں جیسے بھونچال سا آجاتا ہے۔۔ ارے یہ کون آ گیا،، دیکھوں کوئی ڈاکو تو نہیں ، کوئی سیلز مین یا سیلز گرل ہوگی، ارے بابا کوئی فقیر ہوگا۔۔ جس کو دیکھو منہ اٹھا کر چلا آتا ہے۔ دروازہ مت کھولنا۔

اگر کوئی جاننے والا آگیا تو سمجھو گھر والوں کو موت ہی پڑ جاتی ہے۔۔ ارے یہ کہاں سے آگئے۔۔ کہہ دو میں گھر میں نہیں ہو۔۔ ویسے اگر کسی کو گھر میں بلانا پڑ جائے تو کوشش ہوتی ہے مہمان جلد سے جلد واپس چلا جائے۔ کچھ تو چائے پانی کا بھی نہیں پوچھتے کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے۔۔مہمان کو دیکھ کر بچے بڑے سب اِدھر اُدھرہوجاتے ہیں۔ کوئی بڑا بوڑھا مہمان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ اُس بیچارے کو بھی اپنی کہنے سننے کا موقع بڑے عرصے بعد ملا ہوتا ہے ،وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔۔ لیکن صاحب خانہ کی کوشش ہوتی ہے مہمان کو چائے پلائے بغیر ہی باہر کا راستہ دکھائیں۔۔ کوئی بہت ڈھیٹ قسم کا مہمان ہوا تو ٹک کربیٹھ جاتا ہے اور چائے یا شربت پیئے بغیر جان نہیں چھوڑتا ،ورنہ سمجھ دار تو چائے کا انتظار کرتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ چائے آئے گی نہیں خود ہی جانا پڑے گا ۔۔اب ایسے میں کون کسی کے گھر مہمان بن کرجائے گا ، کوّا لاکھ منڈیر پر بیٹھ کر زور زور سے بولتا رہے۔زمانے کے ساتھ کوّے بھی تو بدل گئے ہیں۔
شاہد احمد خان
About the Author: شاہد احمد خان Read More Articles by شاہد احمد خان: 2 Articles with 2685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.