پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، یہاں
کے بسنے والے کھانے کے معاملے میں بہت حساس ہیں، مسلمانوں کو چونکہ دینی
تعلیمات میں اکثر چیزوں کے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے جیسے شراب، مردار٬
نزیر کا گوشت اور دیگر کئی جانوروں کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی
اکثر اشیا دیگر کئی ممالک کے افراد کھاتے ہیں جیسے چینی اور فلپائنی وغیرہ
وغیرہ۔
پاکستانی چٹ پٹی چیزوں کے بڑے شوقین ہیں، اسی حساب سے پاکستان میں کھانے
پینے کی مارکیٹیں بھی بنی ہوئی ہیں، آپ کسی بھی بڑے یا چھوٹے شہر میں سڑک
پر کھڑے ہو کر اپنی من پسند چیز، جیسے سموسہ، گول گپے، دہی بڑے ، چاٹ، تکے
وغیرہ باآسانی کھا سکتے ہیں۔ تاہم گلیوں اور سڑکوں پر دستیاب ان اشیا کا
معیار بہت ناقص ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے ہوتے کہ برتنوں کی صفائی کس
معیار کی ہے، کھانا بنانے میں کس قسم کے اجزاء استعمال کیے گئے ہیں۔ تلنے
کے لیے کس قسم کا گھی استعمال کیا گیا ہے اور کھانا بنانے کی جگہ پر ماحول
کیسا ہے۔ جب کھانے والے کھا رہے ہوتے ہیں تو انہیں اس بات کا علم نہیں کہ
جو وہ کیا کھا رہے ہیں بس وہ چیز میں ڈالے گئے مسالوں کا مزا لے لے کر کھا
لیتے ہیں۔
یہ سب باتیں مجھے تب ایک خوفناک مسئلے میں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں جب
میں نے یو ٹیوب پر ایک نجی ٹی وی چینل کی بنائی ہوئی رپورٹ دیکھی۔ ویڈیو
دیکھنے کے بعد میری جو کیفیت ہوئی اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
کئی بار مجھے ابکائی آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس ویڈیو میں یہ دکھایا گیا ہے
کہ لاہور کے ایک مضافاتی علاقے میں کچھ پاکستانی مرے ہوئے جانورں کی چربی
کو پگھلا کر پکانے کا تیل تیار کر رہے ہیں۔ یہ مرے ہوئے جانور نہ صرف بھینس،
گائے اور بکری جیسے حلال جانوروں پر مشتمل ہیں بلکہ حرام جانور جیسے گدھے،
کتے، چوہے اور پتہ نہیں کیا کیا ایک کیمیائی عمل کر کے چربی حاصل کرنے اور
بعدا زاں تیل بنانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
ان جانوروں کی چربی کے علاوہ ان کی انتڑیاں اور خون بھی کیمیائی عمل کر کے
پولٹری فارموں اور دیگر مچھلی فارموں کو جانوروں کی خوراک کی صورت میں
بھیجی جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں کچھ ایسی خبریں بھی آئیں کہ لاہور میں بلیوں کے لیے مخصوص جوس
انسانوں کو فروخت کیا جا رہا ہے اور اس سے پہلے جیو ٹی وی والوں نے ایسی
کئی رپورٹس تیار کیں جن میں جانوروں کی کھانے والی دالوں سے بیسن بنانا۔
چمڑا رنگنے کے رنگ مٹھائیوں میں فوڈ کلر کی جگہ استعمال کرنا شامل ہیں۔
اس طرح سے بنایا ہوا زہر نما تیل نہ صرف پکوڑے اور سموسے تلنے کے لیے
استعمال ہوتا ہے بلکہ جو مرغیاں اور مچھلیاں اس طریقہ سے بنی خوراک کھاتی
ہیں وہ بھی بعد ازاں بازار میں سے عام صارفین ہی خرید کر لاتے اور کھاتے
ہیں۔
کیا یہی وہ کام ہیں جو ہم اپنے پاکستانی بھائیوں، اپنے مسلمان بھائیوں سے
امید کرتے ہیں۔ جو ہمیں حرام اور مضر صحت کھانا کھلا رہے ہیں۔ سونے پر
سہاگہ یہ کہ متعلقہ شعبوں کے حکومتی افراد بھی اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔
فوڈ انسپکٹر چند روپوں کے عوض خریدے جا سکتے ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا
ہے کہ جب میں ایسے حالات دیکھتا ہوں تو میں تذبزب کا شکار ہو جاتا ہوں کہ
اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی صورت میں ہمارے اوپر جو آفات آ رہی ہیں، جیسے
سیلاب، نااہل حکمران اور غیر مسلموں کا پروپیگنڈا وہ درست ہیں یا غلط اور
مجھے اس بات کا بھی یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنی مخلوق پر ظلم
نہیں کرتے بلکہ یہ مخلوق ہی ہوتی ہے جو اپنی اوپر آنے والی آفات کی ذمہ دار
ہوتی ہے۔ |