امریکہ خود کو دنیا کے امن کا
ٹھیکدار سمجھ رہا ہے جبکہ دنیا میں فساد کی بہت بڑی وجہ خود امریکہ ہے دنیا
کے کسی قانون یا اقوام متحدہ کے کسی چارٹر میں اُسے دنیا میں امن قائم کرنے
کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ امریکی مفادات امریکہ کے لیے بہت بڑا بہانہ
ہیں جبکہ وہ ہر اُس بات کو جو اس کے مخالف ملک کے مفاد میں ہو چاہے اس کا
امریکی مفاد اور نقصان سے کوئی تعلق نہ ہو کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے
اور اسی کو بہانہ بنا کر ہوس ملک گیری کی تسکین کر تا ہے۔ بقول امریکہ وہ
دہشتگردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ خود دنیا کا
سب سے بڑا دہشتگرد ہے اس کا جرم صرف یہ نہیں کہ وہ کسی بھی ملک پر مفروضوں
کی بنا پر حملہ کرتا ہے جو بعد میں باطل ثابت ہو جاتے ہیں جیسے عراق میں
کیمیائی ہتھیاروں کا کوئی ثبوت نہ ملا اور اب تک اسامہ نامی جس سایے کے
پیچھے افغانستان کو تاراج کر رہا ہے اس کو بھی تلاش نہیں کر سکا اور نہ ہی
مستقبل میں اس کے کوئی امکانات نظر آرہے ہیں اس کا جرم یہ بھی ہے کہ وہ جنگ
صرف فوجوں سے نہیں لڑتا نہ ہی حملہ آوروں اور زبردستوں سے لڑتا ہے بلکہ سول
آبادیاں اور غیر مسلح شہری اس کے لیے آسان ٹارگٹ ثابت ہوتے ہیں اور ان
معصوموں کی ہلاکت کو وہ اپنے سنہری کارناموں میں شمار کرتا ہے۔
امریکہ نے عراق، افغانستان اور ذرا پیچھے مڑکر دیکھیں تو ویت نام میں جس بر
بریت کا مظاہرہ کیا یہ ممالک تو کیا پوری دنیا ان مظالم کو نہیں بھول سکتی
اور نہ امریکہ اپنے ان سیاہ کارناموں کو تاریخ سے مٹاسکتا ہے۔عراق میں
امریکی بمباری نے جس طرح عراق کو دہلا کر رکھ دیا تھا آج بھی وہ ان اثرات
سے آزاد نہیں ہو سکا ہے عراق پر برسائے گئے بارود کی مقدار اور شدت ہیرو
شیما پر گرائے گئے امریکی ایٹم بم سے سات گنا زیادہ تھی جو صرف مفروضوں کی
بنیاد پر برسایا گیا اور اس میں سے 93% بارود انتہائی سفاکی سے آزادانہ طور
پر گرایا گیا باقی 7% گائیڈڈ میزائل میں سے بھی امریکی مہارت کی بنا پر 25%
خطا ہوئے اس بارود نے لاکھوں سول عراقی زندہ جلا دیئے اور اس سے بھی بڑا
نقصان اور جرم اس وقت ہوا جب عراقی بچے اور بڑے مختلف موذی اور متعدی
بیماریوں میں مبتلا ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیضہ، ٹائیفائڈ اور
ہیپٹائٹس جیسی وباؤں نے عراقیوں کو مزید عذاب میں مبتلا کیا ان کے روزگار
کے مواقع ختم کر کے بھوک اور ننگ میں مرنے کا پورا پورا بندوبست کیا گیا
معاشی طور پر بھی اس ملک کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا اور وحشت اور بر بریت
کا یہ سارا کھیل عراقی تیل کی خاطر کھیلا گیا اور عراق پر کیمیائی ہتھیاروں
کی تیاری کا الزام لگانے والے امریکہ نے خود وہاں ہر طرح کا غیر قانونی
اسلحہ استعمال کیا جن میں کیمیائی ہتھیار بھی کھلے عام استعمال کیے گئے
مزید اس نے Fuel Air Explosive یعنی جلا کر مار دینے والا اسلحہ اور نیپام
بم بھی بے دریغ استعمال کیے اور کلسٹر بموں سے بھی عام عراقیوں کے ٹکڑے اڑا
دیے گئے۔
جب عراق میں اُس کی وحشت و بر بریت کو سکون نہ ملا تو اُس نے افغانستان میں
بھی انسانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا اور خود کو انسانیت کا علمبردار کہنے
والے اس دہشتگرد نے یہاں کی معصوم اور نہتی آبادی کو جس طرح بھون اور کاٹ
کر رکھ دیا وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے امریکہ ہٹلر کے گیس چیمبرز کا
ذکر تو کرتا ہے لیکن خود اُس سے بڑھ کر جنگی جرائم کا مرتکب ہوا۔ اس کی ایک
مثال اس وقت سامنے آئی جب اُس نے 8000 افغانی ایک کنٹینر میں بھرے اور ان
قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اُس میں ہوا کے لیے سوراخ بنانے کے لیے اُس بھرے
ہوئے کنٹینر پر فائر کیے یوں کچھ قیدی تو ہوا کے حصول کے نظر ہو گئے اور
باقی ہوا اور خوراک کی کمی سے شہید ہو کر تین ہزار روحیں امریکی شغل میلہ
کی نظر ہو کر جسموں سے آزاد ہو گئیں اور اجتماعی قبر میں بغیر کسی پوسٹ
مارٹم یا طبی معائنے کے دفن کر دی گئیں۔ یہ ہوتی ہے دہشتگردی جو امریکہ
مسلسل کئے جارہا ہے اور معلوم نہیں کب تک اس سلسلے کو جاری رکھے گا۔
افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی داستانیں تو خود امریکہ میں بھی عام
ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی دی ٹائمز نے شائع کی جس کے مطابق امریکی فوجی تین
ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کنڑ کے گاوئں غازی خان گئے اور وہاں نو طلبا کو شہید
کر دیا ان معصوم بچوں میں سے آٹھ چھٹی جما عت کے طلبا تھے جن کی عمریں
یقیناً گیارہ بارہ سال سے زیادہ تو نہ ہونگی اور گیارہ بارہ سال کا بچہ
کتنا بڑا دہشتگرد ہو سکتا ہے یہ امریکہ خوب جانتا ہے لیکن سافٹ ٹارگٹ کے
ذریعے اپنی دہشت بٹھانا ظاہر ہے کہ زیادہ آسان تھا اور امریکہ بدنامی سے یا
نیک نامی سے ہر صورت سُپر پاور کہلانا چاہتا ہے۔ اور اسی جذبے کی تسکین وہ
وقتاََ فوقتاََ اپنے ﴿مفتوحہ ممالک﴾ میں کرتا رہتا ہے اور ایسا ہی ایک اور
کارنامہ اُس نے افغانستان میں سر انجام دیا جب 12 فروری 2010 کو گردیز میں
خطابہ کے مقام پر اُس نے ٹارگٹ کر کے دو حاملہ خواتین دو بچوں اور ایک
نوجوان لڑکی کو مار ڈالا اور بقول ڈیلی ٹائمز پہلی بار نیٹو افواج نے کسی
ایسی حرکت کی ذمہ داری قبول بھی کر لی۔ بات یہ ہے کہ مریکہ تسلیم کرے یا نہ
کرے اس کے جنگی جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ وہ اُس پر پردہ نہیں ڈال
سکتا اور یہی وجہ ہے کہ نیویارک ٹائمز جیسے متعصب اور مسلم مخالف اخبار نے
اعتراف کیا کہ 21 مارچ سے 21 اپریل 2010 تک 173 معصوم شہری افغانستان میں
امریکی درندگی کا نشانہ بنے۔
ظلم و ستم امریکہ کی کوئی آج کی پالیسی نہیں بلکہ اپنے عروج کے ابتدا سے ہی
وہ اس کام میں مصروف ہے دوسری جنگ عظیم میں ایک کے بعد دوسرے ایٹم بم کا
استعمال کیا حالانکہ وہ پہلے بم کی ہلاکت خیزی اور تباہی دیکھ چکا تھا لیکن
جذبہ ترحم کسی امریکی حاکم کی خو میں نہیں لکھا گیا یہ اور بات ہے کہ وہ
خود کو انسانی حقوق کا عظیم علمبردار سمجھتا ہے۔
ویت نام کی سر زمین اور وہاں کے باشندے اب بھی امریکی افواج کے مظالم کو
نہیں بھولے سالہا سال تک انہوں نے اس جابراور قابض فوج کا مقابلہ کیا اور
لا تعداد ویت نامی ان کی توپوں کے گولوں اور بندوق کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
جو مسلح نہ تھے ان کو مار دینا تو ویسے ہی امریکی فوجیوں کے لیے آسان تھا
اور انہوں نے یہ کام پورے دل وجان سے کیا اور 6.5ملین ٹن بموں سے ویت
نامیوں کو بھون کر رکھ دیا چار لاکھ ٹن نیپام بم برساتے ہوئے امریکہ کو
کبھی انسانی حقوق کا خیال نہ آیا اور نہ ہی خود کو فطرت سے محبت کرنے والی
قوم کا خطاب دینے والے امریکہ کو یہ خیال آیا جب وہ 11.2 ملین گیلن اورنج
ایجنٹ چھڑکے گا تو فصلوں اور زمین کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ امریکہ نے ویت
نام میں تربیت یافتہ قاتلوں کی ایک فوج بھیجی اور اُسے ٹائیگر فورس کا نام
دیا ان تربیت یافتہ قاتلوں نے اپنا حقِ نمک خوب ادا کیا وہ امریکہ سے یہ
حلف لے کر گئے تھے کہ وہ ہر صورت جنگ جیت کر آئیں گے اور اس کے لیے انہوں
نے ہر ظالمانہ حربہ آزمایا۔ ویت نام کے وسطی پہاڑی علاقوں میں امریک فوج کو
سخت مزاحمت کا سامنا تھا اور وہاں کے لوگوں کو ان کو اس جذبہ حب الوطنی کی
سزا اس فوج نے یہ دی کہ اس کے کسانوں، عورتوں اور بچوں کو اپنے مورچوں میں
لے جا کر مارا اور ان کے کان اور کھوپڑیاں زیادہ بہادروں یعنی زیادہ شقی
القلب فوجیوں کو بطور یادگاری نشانات کے عطا کیے گئے۔ ان کے ظلم اور لالچ
کی انتہا دیکھئے کہ ایک سپاہی نے ایک کسان کے دانت اس لیے توڑے تاکہ وہ اس
کے دانتوں پر چڑھے ہوئے سونے کے خول لے سکے یعنی ایک امیر قوم ایک غریب قوم
سے اس کی ہر دولت چھین لے۔
قارئین! یہ تو امریکی بر بریت کی چند مثالیں تھی ورنہ اس کی جنگی تاریخ
ایسی ہی ظالمانہ کاروائیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور خود کو مہذب ترین سمجھنے
والی یہ قوم ہر تہذیب سے عاری ہے ظاہر ہے کہ جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
لیکن امریکی جنگ کا ایک اصول یہی ہے کہ ہر ذی روح کو مسل دو اور ہر اُس چیز
کو مٹا دو جو انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ بات یہ ہے کہ امریکہ خود کو
کیونکر پوری دنیا کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور ہر ملک کے معاملات میں مداخلت
اپنا حق۔ اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ لوگوں کے دل و دماغ کو فتح کر
رہا ہے تو امریکی تھنک ٹینکس کو چاہیے کہ جس طرح وہ دوسرے ملکوں کے ہر
معاملے کے بارے میں سروے کرواتا ہے امریکی حکومتوں اور ان کی جنگی پالیسیوں
کے بارے میں بھی ایک سروے کر لیں لیکن ایمانداری کے ساتھ اور دیکھ لیں کہ
ایک دنیا امریکہ سے نفرت کرتی ہے چاہے کسی ملک کی حکومت امریکہ کے زیر اثر
ہی کیوں نہ ہو وہاں کے عوام امریکہ کے بارے میں جو منفی بلکہ منتقمانہ
جذبات رکھتے ہیں وہی اُسے آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہونگے۔ دل و دماغ جیتنے
کے لیے دنیا کو محبت کی ضرورت ہے اور امریکہ کے پاس دنیا کے لیے محبت نا
پید ہے اسے صرف اپنے مفادات سے محبت ہے اور اس کے لیے وہ پوری دنیا کی
قربانی دینے کو تیار ہے دراصل یہ ایک حقیقت ہے اور پوری دنیا کو یقین ہے کہ
اس وقت دنیا کے لیے اصل خطرہ اور سب سے بڑا دہشتگرد امریکہ ہے۔ |