مستقبل کی فکر
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
موصوف کے آنے میں کچھ تاخیر تھی، ہم لوگ ان
کے کمرے میں بیٹھ گئے، اُن کے آنے پر مختصر تعارف کا دور چلا، یہ جان کر
انہوں نے مسرت کا اظہار کیا کہ بچوں کے ادب سے وابستہ ایک محترم شخصیت
ڈاکٹر افتخار کھوکھر ان کے دفتر میں موجود تھے۔ انہوں نے وقت ضائع کئے اور
کسی تمہید کے بغیر ہی بولنا شروع کیا، اور بتایا کہ ’’میری ایک پانچ سالہ
بیٹی ہے، دفتری مصروفیات کی بنا پر اسے مناسب وقت نہیں دے پاتا، چنانچہ جب
گھر پہنچتا ہوں، تو وہ ٹی وی پر کسی پروگرام میں مگن ہوتی ہے۔ گزشتہ روز
دیکھا کہ وہ ’فلاں‘ڈرامہ دیکھ رہی ہے، ابھی اس کی کھیلنے کی عمر ہے، وہ
سنجیدگی سے کسی ڈرامے کے نشیب وفرا ز اور مقاصد وغیرہ کے بارے میں تصور
نہیں کرسکتی۔ میں اس کی سرگرمی دیکھ کر چونکا، تو اس نے کہا کہ بابا ! آپ
کو تو کسی بات کا علم ہی نہیں، اس نے ڈرامے کے کرداروں پر روشنی بھی ڈالی‘‘۔
صاحب کے لئے وہ ڈرامہ ناپسندیدہ تھا، اس لئے انہوں نے پریشانی کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ان کے معصوم ذہنوں میں کیا
ماحول راسخ کر رہے ہیں؟بچے کارٹونوں کو بھی اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں، وہ
وہی کام کرنا چاہتے ہیں، جو کارٹونوں میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ غیر
ملکی کارٹون بچوں پر اپنے نظریات ٹھونسنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
کوئی ایک دو کی بات نہیں، جسے دیکھیں بچوں کے لئے پریشان ہے، بدقسمتی سے
اپنے ہاں والدین بچوں کی تربیت کی بھاری ذمہ داری اٹھانے کی بجائے ٹال مٹول
سے کام لیتے ہیں، اور اپنے سر اسے اتارنے کے لئے بچوں کا رخ ٹی وی چینل کی
طرف موڑ دیتے ہیں۔ گویا ٹی وی مصروف رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، مگر یہ خیال کم
ہی کیا جاتا ہے کہ ٹی وی کچے ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑتا ہے، جو زندگی
بھرکے لئے انسان کے ذہن پر راسخ ہو جاتے ہیں۔ اگر بچے ضد کر کے موبائل بھی
مانگتے ہیں تو اکثر لوگ بچوں سے جان چھڑوانے کے لئے موبائل بھی ان کے حوالے
کر دیتے ہیں، جہاں سے وہ نہایت معصوم اور کچے ذہن کے ساتھ انٹر نیٹ کی دنیا
میں اتر جاتے ہیں اور آگے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں، وہ کہاں تک کی سیر کر آتے
ہیں، ان کی رسائی کہاں تک ہو جاتی ہے، کوئی نہیں جانتا۔کم پڑھے لکھے یا ان
پڑھ لوگ اپنے بچوں کو ایسی سہولتیں تو نہیں دے سکتے، تاہم وہ یہ کمی بچوں
کو باہر گلی میں بھیج کر پوری کرتے ہیں، بچے کس کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کیا
کھیل رہے ہیں، کہاں پھر رہے ہیں، ان کے والدین کو ایسے سوالوں سے کوئی غرض
نہیں۔یوں بچے بے توجہی کی بھینٹ چڑھ کر ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، جب والدین کو
ہوش آتا ہے اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی گزر چکا ہوتا ہے۔ گزرا
وقت ایسی چیز ہے جو کبھی واپس نہیں آتا۔
ڈاکٹر کھوکھر کا کہنا ہے کہ بچوں کو مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے، یہ کام
سکولوں کا ہے، کہ وہاں بچوں کے رسالوں کا مستقل بندوبست ہو، بدقسمتی سے
اپنے ہاں یہ رجحان فروغ پذیر نہیں ہے۔ چھوٹے بچے جو مطالعہ کی عمر کو بھی
نہیں پہنچے، وہ بلا شبہ موجودہ زمانے کی چال کے مطابق آئی ٹی کے ذریعے ہی
بہل سکتے ہیں، جن میں وہی کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ کے شامل ہیں۔ اپنے ہاں
آئی ٹی میں بچوں کے لئے کوئی انٹرٹینمنٹ موجود نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے،
کہ کتاب اور رسالے کی عمر کو پہنچنے سے قبل بچے کو آئی ٹی کے ذریعے مصروف
رکھنے کی کوشش کی جائے، جہاں ان کی مثبت انداز میں تربیت ہو۔ چینلز کی اپنی
مجبوری ہے کہ انہیں ریٹنگ کا چکر چڑھا ہوا ہوتا ہے، بچوں کے پروگرام نشر
کرنے سے ان کی ریٹنگ زمین پر آرہے گی، لیکن تمام چینلز کو یہ سوچنا چاہیے
کہ ریٹنگ کی بجائے قوم کا مستقبل بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ آنے والے
وقت کی فکر کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، جب اپنے مستقبل کو ہی نظرا نداز کردیا
جائے گا توحال کی گھڑی میں جینے سے زیادہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔
ایک بہت بڑی تحریک کی ضرورت ہے، جس کے تحت بچوں کے لئے لکھنے والے سامنے
آئیں اور پہلے سے بھی زیادہ محنت سے کام کریں، جدید ٹیکنالوجی کو مدنظر
رکھتے ہوئے بچوں کے لئے ایسا تعلیمی ماحول پیدا کیا جائے کہ بچے جس میں
دلچسپی لیں، انہی کے ذریعے ان کے ذہن کی آبیاری ہو سکے۔ والدین فکر مندی کو
اپنے عمل کے ذریعے ختم کریں، اور بچوں کو بہتر شہری بنانے میں دن رات ایک
کردیں۔
|
|