جامعہ فاروقیہ میں بیتے ھوئے دس سال قسط (7) پارٹ (1)

شاید یہ قسط میرے لئے سب سے دلچسپ ہو، کسی حد تک اضطراب میں ڈالنے والی اور حسین لمحات بھی ذہن کے سکرین میں لانے والی یہ تحریر لکھنے کے لئے قلم وقرطاس ھاتھ میں نہیں بلکہ میں ہوں موبائل اور ماضی کی یادیں.. اور اس وقت حال یہ ہے کہ ذہنی تشتت کی کیفیت ہے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا لکھوں کس بات کا تذکرہ کروں اور کس کو چھوڑ دوں.. چلو آغاز کرتا ہوں جامعہ فاروقیہ میں میرا پہلا دن سے.. مسجد کے صحن میں اپنے ماموں مولانا حبیب اللہ جو اس وقت درجہ سابعہ میں پڑھ رہے تھے اور جن کی ترغیب پر میں نے فاروقیہ کا انتخاب کیا چونکہ میں اسی سال مدینہ منورہ سے واپس آیا تھا اور یہاں اپنے گاؤں کے ایک سکول جہاں سالانہ امتحانات بھی قریب تھے داخلہ لیا تھا رمضان کے مہینے میں جب طلبہ کی چھٹیاں ہوئی تو وہ بھی گاؤں آئے اس دوران مجھے جامعہ کے متعلق بتایا اور یہاں معہد کا تعارف کروایا جبکہ میں گاؤں میں عربی میں بات چیت کے لئے ترس رہا تھا، چنانچہ یہ بات میرے دل کو لگی فوراً یہ فیصلہ کیا کہ جامعہ فاروقیہ کے معہد جانا ہے) کے ساتھ بیٹھا تھا قریب میں عربی توب جسے یہاں جبہ کہا جاتا ھے پہنے ہوئے مفتی عبداللطيف صاحب جو اس وقت دورہ حدیث کے طالبعلم تھے بیٹھے تھے ان سے متعارف ھوئے اور عربی میں کچھ بات چیت ہوئی.. پھر ماموں کے ساتھ مولانا ولی خان صاحب سے پہلی ملاقات تب ھوئی جب دورہ حدیث کی درسگاہ کے بائیں جانب سے اوپر کی طرف مدنی منزل میں سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ملاقات ہوئی بتایا کہ عربی آتی ہے معھد میں پڑھنے کی خواہش ہے فرمایا کہ آپ کا اولی کیا ثانیہ معھد میں ھوجائے گا.. موٹیویشن کا سبق یہیں سے شروع ہوا.. بہر حال ایک دو اور اساتذہ کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد اولی میں پڑھنے کا فیصلہ ہوا.. اولی میں داخلہ ھوگیا جناب شعبہ معھد میں.. اور پہلے روز کسی کونے میں بیٹھ گیا میں.. جب استاد جی کا سبق شروع ہوا جوکہ آخری گھنٹہ تھا محادثة کا جس میں عربی بول چال سکھاتے تھے مجھے بلا کر اپنے بالکل ساتھ ہی بٹھایا اور جس انداز سے طلبہ کو عربی تکلم سکھایا اس کا جواب نہیں.. پھر استاد جی کے سبق میں بوریت نام کی چیز نہیں ہوتی تھی ایک مصری استاد کا بھی گھنٹہ ھوتا تھا ان کا مقام اپنی جگہ مگر بخدا جو عربی ھم نے مولانا سے سیکھی اس کا عشر عشیر بھی ان سے نہیں سیکھا.. جس خوبصورتی سے بولتے اور طالبعلم سے بلواتے اور شفقت فرماتے اور تو اور مدرسہ میں طلبہ کو آزادی جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا وہ دیتے.. مجھے یاد ہے کئی بار ھم کلاس والوں سے کہا کہ باہر گھوما کرو گروپ کی شکل میں کبھی پارک اور کبھی دیگر تفریحی مقامات اور عربی میں بات چیت کیا کرو پھر کبھی آپس میں رقم اکٹھی کر کے باہر ھوٹل میں اکٹھے جایا کرو کھانا کے لئے، کئی بار خود رقم دیتے، پھر کلاس میں کمپٹیشن کا ماحول بناتے تشجیع میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں اور سخاوت میں تو حد کرتے کتابیں ھدیہ کرتے طلبہ کو کبھی کچھ رقم دیتے کھانے کے لئے اور کئی غریب ومحتاج ونادار طلبہ کے ساتھ تعاون فرماتے.. (بقیہ دوسرے حصے میں)
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 813624 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More