عادات جو زندگی بدل دیں

یہ دنیا خوبصورت ہےیا بدصورت اس بات کا اظہار ہر انسان اپنے طور پر کرتا ہے۔جب پانی کا آدھا گلاس مختلف افراد کو پیش کر کے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اس گلاس سے متعلق بیان کریں کہ وہ کیا سوچتے ہیں؟ تو کوئی کہتا ہے کہ یہ گلاس پانی سے آدھا بھرا ہوا ہے جبکہ کسی دوسرے شخص کے نزدیک وہی گلاس پانی سے آدھا خالی ہوتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے۔یہ وجہ کیسے تشکیل پاتی ہے؟کیوں ایک ہی چیز دو مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے وہ اسے نہ صرف الگ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ الک طریقے سے اپناتے بھی ہیں۔اگر ہم غورکریں تو لوگوں کی ہر سوچ کے پیچھے ان کی مکمل شخصیت ہوتی ہے۔ شخصیت جس کی تشکیل کی شروعات اس وقت ہو جاتی ہے جب بچہ ماں کےپیٹ میں باتوں کو سننے لگتا ہے۔اس کا دماغ اور جسم اپنی ماں سے ہر چیز لیتا ہے۔وہ اپنے ماحول کو محسوس کرنے لگتا ہے۔اس کی شخصیت کی تشکیل میں اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اسے جو ملتا ہے وہ لیتا جاتا ہے ۔اس وقت اس کے دماغ کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی خالی ڈبے میں آپ اپنی مرضی کی چیز رکھ لیں لیکن جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے۔ماں باپ کے ساتھ معاشرہ بھی اس کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔شخصیت کی تشکیل ظاہرو باطن کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔کچھ ایسے عناصر ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں مثلاکوئی کالا ہوتا ہے تو کوئی گورا،کوئی موٹا تو کوئی قد کا چھوٹالیکن بہت سے عناصر ایسے ہیں جن کی تشکیل میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے،ہم سوچتے کیسے ہیں ،ہم حاسد ہیں یا حساس،سخی ہیں یا کنجوس،دوسروں کی مدد کرنے والے ہیں یافقط اپنی ذات سے متعلق سوچتے ہیں۔یہ سب چیزیں ہماری شخصیت کو ترتیب دیتی ہیں۔شخصیت جو کسی بھی انسان کو دنیاو آخرت میں کامیاب بنا سکتی ہے ۔اس کی بہتری کیسے ممکن ہے؟یہ ایسا سوال ہےکہ ہر کوئی اس سے متعلق جاننا چاہتاہے ۔جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ شخصیت کاایک بڑا حصہ ترتیب دینے میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے ،یہ اختیار وہ عادات کو تشکیل دے کر استعمال کرتا ہے۔

ایک بہترین کتاب [سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفیکٹیڈ پیپلر ] میں لکھاری کہتا ہے کہ:ہم سوچ کے بیج بوتے ہیں تو عادت کو کاٹتے ہیں۔ عادت کو بوتے ہیں تو عمل کو کاٹتے ہیں ۔عمل کو بوتے ہیں تو کردار کو کاٹتے ہیں اور کردار کے بیج بونے پر ہی قسمت کو تشکیل دیا جاتا ہے ۔شخصیت کا پیڑ جن عادات کی بدولت تناآور اور بہترین بلندی پر پہنچتا ہے ۔وہ سات ہیں۔

رب کا کتنا بڑا احسان ہے کہ انسان خود زمہ دار ہےیعنی انسان طے کرتا ہے کہ اس کو جو محرکات مل رہے ہیں ان پر ردعمل کس طرح کرے جبکہ جانوروں کواس بات کا شعور نہیں ہوتا۔انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ محرک کے آنے کے بعد سوچیں سمجھیں ،اپنی اخلاقی اقدار کو دیکھیں۔محرک جو انہیں پیش آئے،اس پر سوچ سمجھ کرردعمل کریں یا فوری طور پر ردعمل کرلیں سوچنے سمجھنے کی زحمت نہ کریں۔مثلاایک کتے کو جب گوشت پھینکا جاتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس چیز کا ہے وہ کھا لیتا ہے۔ جب انسان کو کوئی کھانے کی چیز دی جاتی ہے تو وہ اس کا مختلف پہلووں سے جائزہ لیتا ہے،چیزکون سی ہے ،دینے والا کون ہے ۔اگر مسلمان ہو گا تو سوچے گا حلال کھانے کی چیز ہے یا کہ حرام،اگر ہندو کو ملے گی تووہ اپنے مذہب و اقدار کے حوالے سے جائزہ لے گا۔رب نے انسان کو ایسا شعور دیا ہے کہ وہ ہر قسم کے محرک پر اپنی سوچوں کو ترتیب دے کر عمل کر سکتا ہے۔

بار بار جب انسان سوچ سمجھ کر غوروفکر کے بعد عمل کرتا ہے تو وہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔عادت کے ذریعے ہم مشکل سے مشکل کام کو آسانی سے کر لیتے ہیں مثلاْ مجھے کہانیاں لکھنے کا شوق ہے چونکہ مجھے دن میں بلکل وقت نہیں ملتا تو میں صبح تین بجے اُٹھ جاتی ہوں ۔تین گھنٹوں میں سے دو گھنٹے پڑھنے اور ایک گھنٹہ لکھنے میں صرف کرتی ہوں جبکہ دوسری طرف میری ایک دوست ہے وہ صبح نماز کے لیے اُٹھتی ہے اور پھر نماز پڑھ کر سو جاتی ہے۔

وہ مجھ پر حران ہوتی ہے اور میں اس پر۔
میں اس لیے حیران ہوتی ہوں کہ اُسے جاگ جانے کے بعد نماز پڑھنے کے بعد نیند کیسے آ جاتی ہے اور وہ مجھ پر حیران ہوتی ہے کہ کوئی الو کی طرح رات کو کیسے جاگ سکتا ہے۔ہماری زندگیاں اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں کہ ایک فرد کے لیے جو کام مشکل ترین ہے دوسرے کے لیے وہی کام آسان ترین۔ آپ اگر بغور مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجہ ہماری سوچ ہے ،جو عادات کی تشکیل میں معاون ہوتی ہے۔سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ان عادات کو ہم اپنی مرضی سے تشکیل دے سکتے ہیں۔جو ہماری ترقی یا ناکامی کی وجہ بنتی ہیں۔جو لوگ نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں وہ ضرور یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ جس رات وہ عشاکی نماز کسی وجہ سے ادا نہیں کر پاتے ،اس رات سکون سے سو نہیں پاتے اس کی وجہ ایمان کے ساتھ ساتھ ان کی عادت ہوتی ہے ۔میرا تین بجے اُٹھنا میری ایک عادت کے سوا کچھ بھی نہیں جو میری اس سوچ کی وجہ سے ہی بنی ہے کہ مجھے لکھنا ہے۔ اس کے لیے یہ وقت ہی مناسب ہے۔اب جب کہ ہم جانتے ہیں کہ عادات ہماری ترقی و خوشحالی کی وجہ ہیں تو کیوں نہ ہم ایسی عادات کے بارے میں جانیں جو ہماری دنیاو آخرت سنوار دیں ۔

1۔سوچ سمجھ کرمثبت عمل کرنا
زندگی عمل ہی کا نام ہے لیکن ہمارا عمل عموماْ عمل نہیں ردعمل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اسلام علیکم بھی خود سے کم ہی کہتے ہیں ۔ہہی انتظار ہوتا ہے کہ کوئی اور پہلے کہیے اور پھر ہم جواب دیں۔ایک ہی محلے میں لوگ رہتے ہوئے ایک دوسرے کو نہیں جانتے ،ہر کوئی سوچتا ہے کہ میں پہل کیوں کروں ؟ میں کیوں اس کی مدد کروں جبکہ وہ میری مدد نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب میں بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو عمل کرنے کی عادت کو اپنا لیتے ہیں۔ کوئی ان سے حال چال نہ بھی پوچھے وہ پوچھتے ہیں یعنی ایسے لوگ سوچتے سمجھتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے یا وہ کیا کریں گئے۔ایسے لوگوں کو سٹیفن آر کوے پرو ایکٹو لوگ کہتا ہے جو ردعمل پر نہیں سوچے سمجھے عمل کے تحت کام کرتے ہیں جبکہ ہم لوگ جب کچھ ہوتا ہے تو اس کے ردعمل کے طور پر کچھ بھی فوری طور پر کر گزرتے ہیں ۔میں یہاں اپنی مثال دینا چاہوں گی ۔مجھے کھانا بنانا تھا جبکہ میرا چھوٹا بچہ بار بار مجھے پریشان کر رہا تھا میں نے اس کے کھیلونوں سے گاڑی اُٹھائی اس کو ایک ڈوری باندھی اور اس کے سامنے کھانے کے میز کے گرد گھوم کر اسے دیکھایا۔اس نے گاڑی کی ڈوری پکڑی اور کھیلنے لگا ۔ میں اپنے کام میں مصروف ہو گئی یہ میراعمل تھا تھا اس چھوٹے بچے کے پریشان کرنے پر جو سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔اگر میں اسے غصہ میں ایک چماٹ لگاتی اور ڈانٹ کر اندر چھوڑ آتی تو کہ میرا ردعمل ہوتا جو عموماْ مائیں کرتیں ہیں۔ جب میرے بڑے بیٹے نے دیکھا کہ چھو ٹا بھائی ٹیبل کے گرد گاڑی کو ڈوری سے چلا رہا ہے تو وہ فوراْ سے آیا اور اس سے گاڑی چھین لی یہ اس کا ردعمل تھا جو اس نے بغیر سوچے سمجھے گاڑی لینے کے لیے کیا۔ایسے میں مجھے غصہ آیا اور میں نے بڑے بیٹے کو ڈانٹا اس سے گاڑی چھین لی اور چھوٹے والے کو دے دی۔جس پر بڑا والا بچہ چیخنے اوررونے لگا چھوٹے والے کو مارا بھی۔اب تو مجھے اور غصہ آیا اور اسے کمرے میں اندر کر کے میں نے اسے باہر نہ آنے کا حکم صادر کیا اور باہر آگئی۔ شور شرابے کی وجہ سے میرے میاں کمرے سے باہر آئے اور پوچھا کیا ہوا؟ تو میں نے بڑے بیٹے کو قصور وار ٹھہرا، جس نے میرے اور چھوٹے بیٹے کے معملات میں مداخلت کر کے ہمارا سکون غارت کیا تھا میرا بڑا بیٹا ابھی بھی بہت زور سے رو رہا تھا۔ میرے میاں اس کے کمرے میں گئے کھلونوں کی باسٹک سے ایک دوسری گاڑی نکالی اس کو دھاگا باندھا اور بڑے بیٹے کو دیے کر بولے چلو اب چھوٹے بھائی سے ریس لگاو دیکھیں کون جیتے گا؟بڑا بیٹا ابھی بھی غصے میں تھا اور روتے ہوئے وہی گاڑی جو چھوٹے کے پاس تھی لینے کی ضد کی ۔میرے میاں چھوٹے کے پاس آئے اوراُسے وہ گاڑی دے کر جو ان کے پاس تھی اوردوسری گاڑی چھوٹے بیٹے کو دیے دی۔دونوں بچے خوشی خوشی گاڑیوں سے ریس لگانے لگے۔

ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ہم ذیادہ تر ردعمل کرتے ہیں عمل نہیں۔میں نے جب بچوں کو خوشی سے کھیلتے دیکھا تو دل میں سوچا کہ میں بھی ایسا کر سکتی تھی، مجھے عجیب سی شرمندگی کا احساس ہوا ۔ہمیں اپنے عمل کو بہترین سوچ سے مزین کرنا چاہیے۔ہم غیر ارادی طور پر باربار جس طرح کا عمل کرتے ہیں وہی ہمارا کردار بنتا ہے لہذا ارادے کے تحت عمل کر کے بہترین کردار کی تشکیکل ممکن ہے ۔علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اگر آپ ذیادہ کام بغیر سوچے سمجھے کرتے ہیں مثلاْ کسی نے کچھ کہا فوراْ سے جواب دے دیا بعد میں پتہ چلا کہ ابھی اس نے بات مکمل ہی نہیں کی تھی۔ایسے میں آپ کو شرمندگی الگ ہو گی اوربولنے والے پر آپ کی شخصیت کا جو اثر پڑے گااس کا انداذہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔عمل سے زندگی تب ہی خوشگوار ہو سکتی ہے جب وہ سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ اب ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ سوچ سمجھ کر غلط عمل کو تشکیل دیتے ہیں تو یہ بھی ان کی عادت کا حصہ بن جاتا ہےمثلاْ چور سوچ سمجھ کر چوری کا منصوبہ بناتے ہیں ،وہ کامیاب چور بنتے ہیں ،ہر بار منصوبہ سازی ان کی منصوبہ سازی کی عادت کو تشکیل دیتی ہےلہذا آپ کو صرف سوچ سمجھ کر ہی عمل کی عادت تشکیل نہیں دینی یہ بھی سوچنا ہے کہ آپ جو سوچ رہے ہیں وہ آپ کو ،آپ کے خاندان کو ،آپ کے ملک کو اور پھر پوری دنیا کو فائدہ دے ،اگر آپ کا سوچا سمجھا عمل کسی بھی دوسرے ایک انسان کے لیے بھی نقصان کا حامل ہو تو اسے انجام نہ دیں۔بار بار سوچ سمجھ کر درست عمل ہی کریں جو سب کے فائدہ کا باعث بنے۔جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہی دنیا میں بھی ترقی کرتے ہیں اورموت کے وقت انہیں کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا۔سات عادات جو انسان کو بہترین شخصیت کا حامل بنا سکتی ہیں ان میں سے سب سے پہلی عادت پرو ایکٹو ہونا ہی ہے ۔جس کی مثالیں میں نے یہاں بیان کی ہیں۔ پرو ایکٹو لوگوں کے لیے محرک باہر کے علاوہ اندر سے بھی جنم لیتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ نئی نئی ایجادات کرتے ہیں مثلاْ ایڈیسن کوکسی نے نہیں کہا تھا تھاکہ بار بار ناکامی کے باوجود بھی اپنے کام میں لگا رہے بلکہ اس کے اندر اس کی سوچ تھی کچھ کر جانے کی سوچ ،ہار نہ ماننے کی سوچ ،یہ اس کی سوچ ہی تھی کہ اس نے اپنے دور میں سب سے ذیادہ ایجادات کی۔سوچنے سمھنے کی عادت اگر ایک دفعہ پیدا ہو جائے تو انسان چیزوں کا مکمل مشاہدہ کرنے کے بغیر رہ ہی نہیں سکتالیکن ہم چونکہ آسانیاں چاہتے ہیں اسی لیے دماغ پر ذور دینے کو حرام سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں بڑے اپنے عمل سے بچوں میں بھی یہی سوچ ڈال رہے ہیں کہ:جو سب کر سکتے ہیں وہ میں کیوں کروں اور جو کوئی نہیں کر سکتا وہ ظاہر ہے مجھ سے بھی نہیں ہو گا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرتا۔بچوں میں تو ہمیں یہ سوچ پیدا کرنی چائیے ۔
جو سب کرتے ہیں وہ میں بھی کر سکتا ہوں اور جو کوئی نہیں کر سکتا وہ میں کروں گا۔
یہ سوچ کہ محنت سے ہم اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔مثبت سوچ سے ہم شخصیت کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ہم سب سے پہلے فرد بن سکتےہیں جوکسی چیز کے بارے میں مختلف انداز سے مختلف پہلووں سے سوچ سکتا ہے تو ایسے ہی لوگ معاشرے کے ستون بنتے ہیں ۔اگر ایسے لوگوں کو معاشرے کے لیے نعمت کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ان لوگوں کا نعمت بن جانا ان کی مثبت سوچ ہوتی ہے ۔جس کو کوئی بھی شخص اپنی محنت سے اپنی مرضی سے تشکیل دے سکتا ہے ۔علامہ اقبالؒ فرماتےہیں
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت ذیادہ
آپ بھی کسی بھی سوچ کا بیچ اپنی مرضی سے بوئیں مثلاْاگر آپ کی سوچ یہ ہے کہ جسم کو چاق و چوبند رہنا چائیے۔

صحت مند جسم ہی سے ہر قسم کی ترقی ممکن ہے تو آپ کی سوچ آپ کو ورزش پر اُکسائے گی۔آپ جب ہر روز ورزش کرنے لگے گے تو وہ آپ کی عادت بن جائے گی۔عادت آپ کے لیے آسانی پیدا کر دیے گی ۔ایسی ہی آسانی جو ایک بچے کو سائیکل چلانے میں محسوس ہوتی ہے جب وہ سائیکل چلانا سیکھ جاتا ہے۔شروع شروع میں وہی بچہ سائیکل کو چلانا نہیں جانتا تو وہ اُسے بہت مشکل محسوس ہوتی ہے۔شروع شروع میں کس بھی چیز کو لگا تار کرنا مشکل ہوتا ہے جب آپ کرتے ہیں تو وہ آپ کے لیے آسان ہو جاتی ہے لہذا مشکل سے نہ گھبرائیں کیونکہ آپ جو بھی بوتے ہیں کاٹتے وہی کچھ ہیں۔ ہو سکے تو سٹیفن آر کوے کی یہ کتاب خود بھی پڑھیں ۔ممکن ہے کہ آپ کو ذیادہ بہتر سمجھ آئے کہ عادت کس طرح سے عمل کی تشکیل کرتی ہے اور کیسے آپ کی عادتیں آپ کی قسمت بدل سکتی ہیں۔
کوے اس کتاب میں کہتے ہیں کہ پرو ایکٹو لوگ اس طرح کی سوچ کے تحت بولتے ہیں ان کے جملے یوں ہوتے ہیں۔
1۔معملات کو بدل کر دیکھیں ممکن ہے کہ کوئی اور نتیجہ بھی نکل سکتا ہو ،جو معاملہ در پیش ہے ۔مزید پہلو دیکھ کر ہی تو کچھ کہا جا سکتا ہے۔
2۔میں کوئی اور طریقہ بھی استعمال کر سکتا ہوں۔ جو مجھے بار بار فیل ہونے سے بچا لے گا۔
3۔میں اپنے جذبات کا خود مالک ہوں۔مایوسی اور جوش میرے پیدا کردہ ہیں ۔میں اپنی مرضی سے اپنے لیے جذبہ چن سکتا ہوں۔
4۔چونکہ میرا عمل میرا طے کردہ ہے تو میں ایک بہترین طریقہ چنوں گا جو میرے عمل کو بہتر بنا دے گا ۔میں بہترین عمل ہی پیش کروں گا۔
5۔میں اپنی ترجیحات خود طے کروں گا۔
6۔میری مرضی
7۔میرا انتخاب
آپ ان باتوں کے تحت جانچ سکتےہیں کہ آپ کے جملے کیسے ہوتے ہیں۔اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں کر سکتا تو آپ ری ایکٹو لوگوں کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ اپنی سوچ بدلیں ،عادت بنائیں کہ اچھا سوچیں۔یہ سوچیں کہ میں کر سکتا ہوں۔ میں ہی تو کروں گا۔آپ کی سوچ بدلے گی تو سب بدل جائے گا۔
جو انسان پہلے سے چیزوں کو سوچ سمجھ کر کرتا یا اپناتا ہے ،وہی ترقی کو پا سکتاہے۔ایسے لوگ ہی شروعات کر سکتے ہیں ،وہ ایسی بھیڑ بننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو گڈریے کے پیچھے پیچھے یا بھیڑوں کے ساتھ ساتھ چلے۔ایسے لوگ ہی معاشرہ میں بہتری کے ضامن ہوتے ہیں۔

2۔انجام کو مدنظر رکھنا

انسان کی ترقی و بہتری کسی بھی میدان میں اسی صورت ممکن ہے کہ وہ اپنےعمل کے انجام کو جانتا ہو اور اسے مدنظر رکھ کر ہی عمل کرے۔ہمارے معاشرے میں مختلف میدانوں میں انجام کو مدنظر رکھے بغیر عمل جاری ہے ،لوگ وقی فائدہ کی خاطر مستقبل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔معاشرہ ایسے لوگوں کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہوتا ہے۔اس کی مثال ہمارا نظام تعلیم ہے،لوگ محض سسٹم چلانے کی کوشش کیے جا رہے ہیں،وہ نہیں سوچ رہے کہ کل جس نسل کو وہ تخلیق کی صلاحتیں نہیں دے رہے وہ کیسے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرے گی۔
ہم اپنے طور پر بھی اگر غور کریں تو ہم انجام کو مدنظر رکھے بغیر عمل کے عادی ہوتے ہیں، اس کی مثال اگر میں اپنی زندگی سے دوں تو مجھے جب غصہ آتا تھا تو جو بھی چیز اس وقت میرے ہاتھ میں ہوتی میں اُسے دور پھینک دیتی ،یہ ہی حرکت میرے بیٹے نے جب پہلی بار کی تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے عمل ایک انجام بھی رکھتے ہیں ،ہمیں ضرور چیزیں شکل بدل کر واپس ملتی ہیں جب کہ چیزیں وہ ہی ہوتی ہیں۔
ایک دوسری مثال جو دینا چاہوں گی ایک عورت کی ہے جو ہمیشہ اپنی دنیا میں رہتی تھی ،اس کا شوہر جب آفس سے آتا تو اس سے بات جیت نہ کرتی بلکہ دوسرے کمرے میں بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہتی۔صرف ضرورت کے تحت اس سے بات کرتی ،یہاں تک کہ اس کے شوہر کو اس کے ساتھ اسی طرح رہنے کی عادت ہو گئ۔کچھ عرصے بعد اس کا شوہر کسی دوسری عورت میں دلچسپی لینے لگا جو اس سے اس کا حال چال باقائدگی سے پوچھتی اس کی خواہشوں سے متعلق جاننے کی کوشش کرتی ،اگرچہ وہ بڑی عمر کی عورت تھی اور عمر میں بھی آدمی سے بڑی تھی۔اس کے باوجود اس کو اچھی لگنے لگی اور اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ وہ کسی کو پسند کرنے لگا ہے اور بہت جلد اس سے شادی کر لے گا۔ہم عمل کرتے ہوئے نہیں سوچتے مگر ہر لمحہ کا عمل ہماری زندگی میں اہمیت کا اسی طرح حامل ہے،جیسے کہ ایک قدم جو منزل کی طرف انسان بڑھنے کے لیے لیتا ہے۔
آپ اپنے بچے کو نمازی بنانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو خود اس کے سامنے نماز پڑھنا ہو گی۔ہمارے معاشرے میں لوگوں کو ساری عمر گزارنے کے بعد بھی نہیں پتہ ہوتا کہ انہوں نے جو کیا وہ کیوں کیا۔یہ مضحکہ خیز ہے۔ایک طالب علم کو ڈگری کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تو اس میدان میں کام ہی نہیں کرنا چاہتا۔اگر آپ کو بہترین لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو اپنی ایک عادت بنا لیں کہ جو بھی کام کرنے لگیں سوچ لیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔اپنی منزل کو مدںظر رکھ کر قدم لینے والے نہ ہی راہ بھولتے ہیں اور نہ ہی ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے۔
کیسی ہی عجیب بات ہے کہ ہم میں سے ہر ایک جنت چاہتا ہے اور کام ایسے کرتا ہے کہ جہنم ہی ملے۔ہمیں سوچنا ہو گا،کیا واقعی ہمارے عمل سے وہ مقصد حاصل ہو گا جو کہ ہم نے سوچا ہےیا پھر ہمارے عمل ہمیں کسی دوسری سمت لے کر جا رہے ہیں۔

3۔ ترجیحات کا تعین۔

ترجیح کیا ہوتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے ۔کسی بھی چیز کو دوسری سے ذیادہ اہمیت دینا ترجیح دینا ہے۔ہر انسان کی ترجیحات دوسرے کی ترجیحات سے مختلف ہیں۔کسی کے نزدیک پیسہ ذیادہ اہم ہے تو کسی کے لیے رشتے،کوئی موجودہ زندگی کے لیے ہی محنت کو ذیادہ اہم سمجھتا ہے تو کسی کے لیے اللہ کی ناراضگی سے دوری ہی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ہر انسان کی ترجیحات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں لہذا ہر کسی کا عمل بھی دوسرے سے مختلف ہو گا مثلاْ جس بچہ کے لیے فسٹ آنا ہی سب سے ذیادہ اہم ہے وہ کم کھیلے گا اور ذیادہ وقت پڑھائی میں لگائے گا جس بچے کے لیے کھیل ذیادہ اہم ہے وہ ذیادہ کھیلےگا اور کم وقت پڑھائی میں گزارے گا۔مسائل وہاں پیدا ہوتے ہیں جب انسان اپنی ترجیحات کا تعین کیے بغیر ہی عمل کرتا رہتا ہے۔اس کی بڑی وجہ زندگی میں موجود بہت سے کام اور وقت کی کمی ہے ہمیں تمام کام ہی سر انجام دینا ہوتے ہیں۔ہم ذیادہ اہم چیز کو اوپر اور پھر کم اہم چیز کو نیچے رکھتے ہوئے کاموں کی ایک لسٹ نہیں بناتے بلکہ اکھٹے ہی سب کاموں کو لیے چلتے ہیں۔بعد میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جو کام ذیادہ اہم تھا وہ رہ گیا۔
اس کی مثال بھی پہلے میں اپنی ذندگی سے دوں گی تاکہ آپ اپنی ذندگی میں اس عادت کا تجزیہ آسانی سے کر سکیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے،لیکن گھر کی زمہ داریاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک دن کچھ پڑھتے پڑھتے مجھے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا اور میں نےرات کے ڈنر کے لیے کچھ بھی نہیں بنایا۔میرے بچے بھی سو کے جاگ چکے تھے۔میں نے جب ٹائم دیکھا تو بہت پریشان ہوئی فوراْ سے ڈنر کا انتظام کرنے لگی کچھ دیر میں میرے میاں بھی آ گئے ۔ابھی میرا بہت کا کام باقی تھا ۔میں نے جیسے تیسے کام ختم کیااور اپنی غلطی کو مان کر اپنے میاں سےآئندہ ایسانہ ہونے کی یقین دہانی کروائی میری وجہ سے سب نے اس دن کافی دیر سے کھانا کھایا۔اس کے بعد سے اب جب تک میرے گھر کے سارے کام ختم نہیں ہو جاتے میں لکھنے پڑھنے کے کام کو ہاتھ نہیں لگاتی کیونکہ میں جان چکی ہوں کہ ذیادہ اہم کیا ہے۔
اسکی دوسری مثال میں روزمرہ زندگی ہی سے اس طرح دوں گی کہ ایک آدمی جو نوکری کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنے بوس کو خوش کرنا ذیادہ اہمیت کا حامل ہے اپنی بیوی کی خوشی سے۔لہذا جب کبھی کسی نے باہر جا کر فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا ہو اور آفس والے بلا لیں تو آدمی فوراْ اپنی ترجیح کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرئے گا نہ کہ اپنے جذبات کو سامنے رکھ کر۔
ترجیحات کے حوالے سے کوئے اپنی کتاب ’سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفیکٹیڈ پیپلز‘ میں لسٹ بنانے میں معاونت کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ترجحات کو متعین کرنے کے لیے کام چار قسم کے خانوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔

1۔اہم اورفوری کرنے والے کام
مثلاْ آفس جانا،سکول جانا ،بچے کو خوراک دینا،،گھر بیٹھے مہمان کی مہمان نوازی،آپ اپنے حساب سے اس کیٹیگری میں اپنے کام ڈال سکتے ہیں اگر آپ دوکان دار ہیں تو دوکان پر وقت پر جانا،گاہکوں کو مال دیکھانا۔ایسا ممکن نہیں کہ آپ کے پاس کسٹمر کھڑے ہوں اور آپ کہیں کہ میں ذرا یہ فلم دیکھ لوں پھر آپ کو کپڑے دیکھاتا ہوں یا جو بھی آپ دوکان میں رکھتے ہیں ۔لہذا اہم اور اُسی وقت کیے جانے والے کام عموما ہم وقت پر کر لیتے ہیں ۔مائیں بھی وقت پر بچوں کو تیار کر کےسکول بھجتی ہیں ،شازو نادر ہی وہ تاخیر کا شکار ہوتیں ہیں۔
2۔اہم مگر ایسے کام جو دیر سے بھی کیے جا سکتے ہیں
اس خانے میں ایسے کام ہیں جو رشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے کرنا لازم ہیں،مثلابچوں کے ساتھ کھیلنا،ان سے بات جیت،بیوی کے ساتھ وقت گزارنا ،دوستوں کی خبر گیری۔مستقبل کی منصوبہ بندی،،پورے گھر کی صفائی وغیرہ وغیرہ
ان کاموں کے نہ کرنے سے فوری طور پر مساہل پیدا نہیں ہوتے اس لیے ہم عموماْ ان کی منصوبہ بندی میں ہی سب سے ذیادہ کوتائی کرتے ہیں۔اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔
3۔غیر اہم کام جو فوری کرنا لازمی ہوں

کوئے ان میں فون اٹینڈ کرنے،میل چیک کرنے وغیرہ کو شامل کرتا ہے ،اگر ہم اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو عموماْہم ٹی وی میں ڈرامہ دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔یہ ایک خاص وقت میں لگتا ہے اور اگر اسی وقت نہ دیکھیں تو اس دن کا ڈرامہ نہیں دیکھ پاتے،لہذا یہ اس کیٹیگری کی عمدہ مثال ہو سکتی ہے۔فرینڈزاگرچہ اہم ہوتیں ہیں لیکن عموماْ غیر ضروری باتوں کو فون کر کے ہم تک پہنچاتی ہیں،ان کی ناراضگی کے پیش نظر ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان باتوں کا ہم سے کیا تعلق ، بس خاموشی سے بے کار کی باتوں کو سنتے رہتے ہیں اور پھر پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنا وقت ضائع ہو گیا۔ایسے میں ہمیں باتوں کو مختصر کرنے کی تکنیک اپنانی چاہیے۔وقت دنیا کی سب سے قیمتی شے ہے ،جو گزرنے کے بعد حاصل کرنا ناممکن ہے۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کسی بھی کام کویا شخص کو اپنا وقت دے رہے ہوتے ہیں تو بلو اسطہ آپ اپنی زندگی دے رہے ہیں ۔جو لمحات سے مل کر ہی بنی ہے۔لہذا کسی کو بھی وقت دینے سے پہلے سوچیں کہ کیا وہ شخص اور کام اتنا اہم ہے کہ آپ اس کو اپنی زندگی دیں۔

4۔غیر اہم اور ایسے کام جو فوری نہ کرنے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا
اس کیٹیگری میں ایسے کام آتے ہیں۔جن کے کرنے یا نہ کرنے سے دیر سے یا جلدی ہماری زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی مثالیں ہمارا بے کار قسم کی سوچوں میں کھوئے رہنا ہے،اس میں ہمارا فالتومیں ٹی وی دیکھنا ،خود فون کرکے فلموں، ڈراموں اور لوگوں کی دوستوں سے باتیں کرنا۔فیس بک میں چیزیں پوسٹ کرنے کے بعد کسی کے کمیٹ کر بیٹھ کر انتظار کرنا۔ دوسروں کی تصاویر پر غیر ضروری کمیٹ دینا۔اس قسم کے بہت سے کام ہیں جو ہم کرتے ہوئے اپنا بہت سا وقت ضائع کر دیتے ہیں اور جب ہمارے اہم اور فوری نہ کرنے والے کاموں کی کیٹیگری کے کام رہ جاتے ہیں۔ان کے نہ کرنے سے جو بُرے اثرات پڑتے ہیں ،ان کی زمہ داری ہم قبول کرنے سے انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ ہمارے پاس وقت ہوتا ہے اگر ہم اپنی ترجیحات کا تعین ٹھیک سے کریں تو یہ با آسانی ممکن ہے۔
کوئے اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ ہمیں آخری کیٹیگری کے وقت کو دوسری کیٹیگری کے لیے بچانا اور استعمال کرنا چاہیے ۔ اس کی مثال میں یوں دینا چاہوں گی کہ عموماْ ماں باپ فیس بک پر یا ٹی وی میں فصول قسم کی چیزیں دیکھنے میں جو وقت ضائع کرتے ہیں وہ وقت اگر بچوں کے ساتھ گزاریں تو بچوں کی یادیں بنتی ہیں جو ان کے لیے زندگی گزارنے میں مددگار ہوتیں ہیں۔ہم بے کار کی باتیں اپنے دوستوں سے تو گھنٹوں کرتے ہیں لیکن بچوں کی ننھی منی کہانی دوسری بات سننے سے انکار کر دیتے ہیں ممکن ہے کہ بچہ کہانی میں جو چیز بھول گیا تھا دوبارہ کہانی سنا کر اس چیز کو بھی شامل کرنا چاہ رہا ہو۔ہم فیس بک کے تو بیسیوں دوستوں سے بات جیت کرتے ہیں اور وقت نہیں ہے نہیں کہتے لیکن اپنے ساتھ زندگی گزارنے والی بیوی یا شوہر کی خواہشوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو آپ کے ساتھ وقت گزارنے کے منتظر ہوتے ہیں۔
اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر اپنے کاموں کو ترتیب دیں ،پہلے کرنے والے کاموں کو پہلے کریں ،اپنی ذات اور اپنے رشتوں کو کبھی بھی نظر انداز نہ کریں۔وقت کو ضائع نہ کریں۔

4۔ جیتئں اور جیتنے دیں

بہترین انسان ہمیشہ اپنی جیت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جیت کے خواہاں بھی ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اکژلوگ خود جیتنے کی بجائے دوسروں کو ہارانے کی کوشش کرتے ہیں،ان کا مقصد ہی دوسروں کو ہارتا دیکھنا ہوتا ہے۔اگر ہم غور کریں تو کچھ کھیلوں میں ہی صرف کوئی ایک ہی جیت سکتا ہے اور دوسرے کا نمبر دوسرا اور تیسرے کا تیسرا ہوتا ہے ورنہ زندگی کے کھیل میں بہت سے لوگ اگھٹے جیت سکتے ہیں۔مثلاْایک کمپنی کا مالک اپنے کام کے لیے ملازم رکھتا ہے وہ انہیں مناسب تنخواہ دیتا ہے جس سے اسے خاطر خواہ کام ملتا ہے جو اس کی جیت کا باعث ہے دوسری طرف ملازموں کو مناسب تنخواہ ملتی ہے جو ان کی جیت کا باعث ہے۔اسی طرح تاریخ میں ہم بہت سے معائدہ دیکھتے ہیں جو دونوں فریقین کی جیت کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ان میں میٹاق مدینہ کا معائدہ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں فریقین کو ہی اس میں اپنی جیت نظر آئی تھی۔
جو لوگ خود جیتنے اور دوسروں کو ہارانے کے خواہاں ہوتے ہیں یعنی صرف اپنی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہیں ان کی ترقی ذیادہ عرصہ نہیں رہتی اس کی بڑی مثال بڑی بڑی کمپنیوں کا ڈوب جانا ہے جو اپنے ملازمین کی خوشحالی کو نظر انداز کر کے بس پیسہ بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ایسے میں وہاں احتجاج کی فضا جنم لیتی ہے جو کہ نہ صرف کمپنی کے مالکان کی ہار کا سبب بنتی ہے بلکہ ملازمین کے لیے بھی اچھی نہیں ہوتی۔اس کی ایک اور مثال معاشرے کا حکومت کا نئی نسل کے لیے ذیادہ بجٹ رکھنا ہے،نوجوانوں کو قابل بنا کر ان کے کام کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جس سے حکومت اور نوجوانوں کو بیک وقت فائدہ ہوتا ہے۔دونوں کی ترقی ملکی ترقی کا باعث بنتی ہے۔
بہترین لوگوں کی یہ ایک اہم خوبی و عادت ہے کہ وہ سب کو بہترین اور اپنی طرح ترقی پانے والا دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جیتنے والے لوگ دوسروں کو اپنی جیت کا راز بتانے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کی جیت ان کی ہار کبھی نہیں بنے گئی بلکہ سب کے جیتنے میں ہی دنیا کی ترقی وخوشحالی ممکن ہے۔
ہمارے ہاں یہ بات شروع میں ہی بچوں کے اذہان میں ڈال دی جاتی ہے کہ اگر آپ کو جیتنا ہے تو آپ کو دوسرے کو شکست دینا ہو گی ،بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ بچبن میں ہی مسابقت میں جھونک دیا جاتا ہے۔خدارا ایسا نہ کریں۔ننھے ذہین شروع ہی سے حسد و بغض کا شکار کر کے ہم اپنے معاشرے کی بنیادیں اپنے ہاتھوں سے کھوکھلی کر رہے ہیں۔جیئں اور جینے دیں ،جیتں اور جیتنے دیں۔

5۔پہلے سمجھیں، پھر سمجھایں

کیسی ہی عجیب بات ہے کہ ہم جس بات کو خود نہیں جانتے اس سے متعلق معلومات پہنچانا شروع کر دیں،جیسا کہ ہمارے ہاں ہر جگہ ہو رہا ہے ۔ہر محکمہ میں نیم حکیم موجود ہیں ،اس کی وجہ کیا ہے ،اس کی وجہ ہے سننے میں کوتائی کرنا،سمجھنے کی مکمل کوشش نہ کرنا۔ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی بات مکمل دھیان سے نہیں سنتا،اس کی عادت ہی نہیں ہوتی جب بھی کوئی دوسرا بات کر رہا ہوتا ہے ہم کبھی تو اپنی سوچوں میں گم ہوتے ہیں ساتھ ہی ہوں ،ہاں کرتے جاتے ہیں تاکہ سامنے والا بھی لگا رہے ،اپنی باتیں بتاتا رہے،یا پھر ہم انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ چپ ہو تو ہم ایسا ،یا ویسا بولیں۔
یہاں چند مثالیں دینا چاہوں گی تاکہ آپ اس عادت کو مدنظر رکھ کر اپنے معمولات کو جانچ سکیں۔طالب علموں کی یہ عادت کہ وہ استاد کی پورے دھیان سے نہیں سنتے ان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے،بعض اوقات تو ان کے سارے نوٹ ہی غلط بنتے ہیں۔اسی طرح جب تک آپ دوسرے کی بات پورے دھیان سے نہیں سنتے آپ کو اس کا مدعا جاننے میں مشکل ہوتی ہے لہذا بہترین بنانے والی عادات میں پانچواں نمبر کوئے ،سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفیکٹیڈ پیپلز میں اسی عادت کو دیتا ہے وہ اس کی مثال اپنی زندگی سے دیتا ہے کہ ان کی چھوٹی بیٹی جو صرف ایک مہینے کی بھی نہیں تھی سخت بیمار ہو گئی ،اس دن چونکہ عام چھٹی تھی تو ڈاکڑ میسر نہیں تھا ،اس کی بیوی نے ایک ڈاکڑ کو فون کیا جو اس وقت کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا ،اس کو اپنی بیٹی کی حالت سے متعلق بتایا۔اس نے بیماری کی ساری نشانیاں بھی مکمل بتائیں ۔ڈاکڑ نے دوا لکھوا دی اور دینے کا طریقہ بھی بتا دیا۔اتفاق سے دوا گھر میں موجود تھی جب کوئے کی بیوی بچی کو دوا دینے لگی تو کوئے نے اس سے پوچھا کیا ڈاکٹر کو معلوم تھا کہ ہماری بیٹی کی عمر کیا ہے؟ تو اس کی بیوی نے کہا ہاں شاہد۔
کوئے نے پھر کہا۔کیا تم سمھتی ہو کہ شاہد کے پیش نظر بچی کو دوا دینا درست ہو گا۔تو اس کی بیوی چونک گئی اور بولی پھر کیا کرنا چاہیے۔کوئے نے کہا دوبارہ ڈاکڑ کو فون کر کے پوچھو کہ کیا وہ جانتا ہے کہ بچی ایک مہنے سے بھی کم عمر کی ہے؟کوئے کی بیوی نے چڑ کر کہا آپ اب فون کریں۔کوئے نے فون کر کے ڈاکٹر سے پوچھا تو اس نے فوراْ سے دوسری دوا بتائی اور بولا کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ بچی کی عمر اِتنی ہے یہ دوا تو بڑوں کے لیے ہوتی ہے۔
ہم عموماْ اپنی ذندگی میں ایسا ہی کرتے ہیں دوسروں کی باتیں غور سے نہیں سنتے ،یہاں تک کہ کتابوں کو بھی مکمل دھیان سے نہیں پڑھتے ،مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہم ایسا کر رہے ہیں کیونکہ ہماری عادت ہی غلط طور پر استوار ہوتی ہے۔اپنی عادت کو درست کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ دوسروں کی بات کس طرح سے سنتے ہیں اور کس طرح سے سننی چاہیے۔
ایک استاد نے کیا خوب کہا ہے کہ دوسروں کو بتانے کے لیے لازم ہے کہ پہلے خود اپنے علم کی اچھی طرح سے کانٹ چھانٹ کرو ممکن ہے کہ جو تمہارے پاس ہے وہ ہی پورا نہ ہواور دوسرے جو تم سے لے رہے ہیں وہ پورا سمجھ کر لے رہے ہوں۔مکمل طور پر پورے دھیان سے دوسروں کو سننے کی عادت اپنایں۔

6۔مل جل کر مقاصد کی حصولی

انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے جو اکیلا نہیں رہتا اس کی زندگی دوسروں میں مل جل کر رہنے سے ہی بہترین بنتی ہے اس لیے لازم ہے کہ وہ اپنی صلاحتوں کو دوسروں کی صلاحتوں کے ساتھ ملا کرمقاصد کو حاصل کر لے۔وہ کہتے ہیں نا کہ ایک سے بھلے دو۔سچ کہتے ہیں۔
جو لوگ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں ،دوسروں سے کام لے سکنے کی صلاحتوں سے مذین ہوتے ہیں وہی رہنما بن سکتے ہیں۔اکیلا رہ کر کام کرنے والا رہنما نہیں بن سکتا۔کچھ کام یا کھیلیں ایسی ہیں کہ انسان اکیلا محنت سے اول نمبر پر آسکتا ہے مثلاْ دوڑ میں اول آنا لیکن عموما زندگی کے کھیل میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہی پڑتا ہے۔گھر ہی کی مثال لیں،آدمی اور عورت باہمی تعاون سے گھر چلاتے ہیں ،اگر عورت یہ کہنے لگے کہ مجھے تو کیریر بنانا ہے بچے پیدا نہیں کرنےاور آدمی یہ کہنے لگے مجھے گھر میں ہی رہنا ہے باہر کے کام سارے کے سارے میری بیوی ہی کرئے گی تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جائے۔بہت سی عورتیں آج مردوں کے شانہ بشانہ دفتروں ،بازاروں میں کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن وہ مکمل طور پر مرد کی زمہ داریاں اٹھا نہیں سکتی نہ ہی مرد عورت کی طرح کے سارے کام کر کے تنہا رہ سکتا ہے دونوں کو برحال ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے ،اپنی اپنی خدمات ایک دوسرے سے بانٹ کر بہترین زندگی کا حصول ممکن ہے اسی کو کوئے نے سینرجی کہا ہے یعنی لوگ اپنی اپنی صلاحتیں ایک مقصد کے تحت دے کر مقصد کا حصول ممکن کرتے ہیں۔
ماں و باپ اپنی تما تر صلاحتوں کو اکٹھا کر کے بچوں کی بہترین پرورش

کے لیے کوشش کرتے ہیں یہ باہمی تعاون کی ایک اہم مثال ہے۔ہر انسان مختلف قسم کی بہترین قوتوں اور صلاحتوں سے مذین ہوتا ہے ،ایک بہترین رہنتما لوگوں کی بہترین صلاحتوں کو استمال کرنا جانتا ہے،آپ نے دیکھا ہو گا لوگ ذیادہ تر سیکٹری کی جاب کے لیے عورت کو رکھتے ہیں ،اس کی وجہ صلاحتوں کا اختلاف ہی ہے عورت چونکہ نرم مزاج ،بات جیت میں آدمی سے مختلف ہوتی ہے لہذاعموماْ کمپنیاں عورت کو ہی ریسپشن کے لیے انتخاب کرتیں ہیں۔ایسے ہی فوج میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے نوجوان مردوں کو چنا جاتا ہے نہ کہ نازک نازک لڑکیوں کو۔اس طرح ترقی و خوشحالی کا حصول مل جل کر کام کرنے میں ہی ہے۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی ہر کام کر سکتے ہیں وہ ترقی میں ہمشہ ان لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو دوسروں کی صلاحتوں کو استعمال کرکے فائدہ دینےاور فائدہ اُٹھانے پر یقین رکھتے ہیں۔آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا ایک اور ایک گیارہ۔وہ بلکل سچ ہے۔

7۔ ذاتی ترقی کے لیے کوشش

انسان روح و جسم کا مجموعہ ہے ،کسی بھی انسان کی بہتری روح و جسم کے لیے یکساں محنت کرنے سے ہی ممکن ہے ۔آپ نے اپنے ارد گرد بہت سے لوگ دیکھے ہوں گئے جو دوسروں کی بھلائی و بہتری کے لیے دن رات محنت میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ان کو اپنا کوئی خٰیال نہیں ہوتا ان کے جسم بے وقت کھانے ،ورزش نہ کرنے کی وجہ سے بے ڈول ہو چکے ہوتے ہیں اگرچہ وہ روحانی طور سے اچھے کام کرنے کی وجہ سے خود کو پرسکون پاتے ہیں لیکن یہ سکون ذیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا جب ان کا جسم بیمار اور توانائی کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔کسی بھی انسان کی بہتری کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی بہتری کے لیے تمام پہلووں کو مد نظر رکھے ۔جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔جسمانی پہلو
اس کے لیے لازم ہے کہ ورزش یا یوگا کیا جائے ۔آپ مختلف کھیل بھی اپنا کر خود کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔کھانا کھانے میں احتیاط سے کام لیں ۔صرف بھوک لگنے پر کھائیں اور کھانے میں غذا کے متوازن ہونے کا خاص خیال رکھیں۔
2۔معاشرتی پہلو
دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا ،دوستوں کے کام آنا ،اپنے کاموں کے لیے دوستوں سے مدد لینا۔رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ تعاون کرنا ان کی پریشانی میں مدد کرنا اور خوشی میں خوش ہونا۔وغیرہ

3۔ذہنی پہلو

جسم کے ساتھ ساتھ زہنی ترقی کا خیال رکھنا بھی لازمی ہے ۔عموماْ ہمارے ہاں ڈگری کر لینے کے بعد لوگ خود کو عقل کل سمجھ لیتے ہیں۔کسی دوسروی کتاب کو ہاتھ لگانا بھی وقت کا ضائع سمجھتے ہیں۔ان کے پاس ہمشہ یہ بہانہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ کسی کتاب کا مطالعہ کریں،ایسے میں ان کا دماغ سوچنے سمجھنے کی محدود صلاحیت کو کبھی بڑھا نہیں سکتا۔اس لیے ذہنی ترقی کے لیے لازم ہے کے نئی معلومات کا حصول ممکن بنائیں ۔غورو فکر کی عادت کو اپنائیں۔حدیث مبارک ﷺ ہے کہ ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔کیسی تعجب کی بات ہے کہ ہم قرآن مجید کو بھی بغیر سوچے سمجھے ہی ثواب کی غرض سے پڑھتے ہیں جبکہ بار بار مشاہدہ کا غورو فکر کا حکم دیا گیا ہے۔
4۔روحانی پہلو
خواہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔انسان کا اپنے مالک سے تعلق اسے روحانی طور پر مضبوط بناتا ہے۔کوئی بھی مذہب انسان کو دوسرے کو یا خود کو تکلیف دینے کا درس نہیں دیتا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سب مذہب انسان سے انسان کی محبت کا درس دیتے ہیں ،دوسروں کے کام آنے کو پسند کیا جاتا ہے اور جھوٹ،منافقت ،چوری اور حق تلفی کو کسی بھی مذہب میں اچھا نہیں کہا گیا ۔اس لیے آپ ضرور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کریں اور رب سے قریب رہیں۔

ان سب پہلووں کو پیش نظر رکھنا ایک عادت کے طور پر اگر اپنا لیا جائے تو بہت آسان ہو جاتا ہے۔ہمیں ورزش یا عبادت اس لیے مشکل لگتی ہے کہ اس کی عادت نہیں ہوتی یا کتاب پڑھنا اس لیے غیر دلچسپ لگتا ہے کہ ہم اسے شروع سے اپنی زندگی میں کام کے طور پر لیتے ہیں۔کچھ لوگ دوست بنانے کے قاہل ہی نہیں ہوتے ،محفل میں بھی اکیلے اکیلے رہنے کو فخرسے جتاتے ہیں لیکن اگر ہم دوسروں سے بات جیت کرتے ہیں کسی اہم موضوع کو اپنا کر دوسروں کی معلومات و تجربات کا پتہ چلتا ہے یوں ہمیں نہ صرف اچھے دوست ملتے ہیں بلکہ ان کے تجربات کو جان کر اپنے کاموں کو بہتر کرنے کا ایک ذریعہ بھی ملتا ہے۔سٹیفن کوئے اپنی کتاب[سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفکیٹیڈ پیپلز] میں جو مثال بیان کرتا ہے وہ بھی بہت زبردست ہے وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے ایک بزرگ کو درخت کاٹتے دیکھا جو بہت دیر سے درخت کاٹ رہا تھا اس نے دیکھا کہ اس کا آرا بہت کنڈ ہے ،اس نے بزرگ کو مشورہ دیا کہ وہ آرے کو تیز کر لے اس سے وہ جلدی اپنا کام ختم کر لے گا۔اس کی محنت بھی کم ہو گی،اس پر اس بزرگ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے پاس آرے کے تیز کرنے کا وقت نہیں ہے ۔ہم بھی اپنی روز مرہ زندگی میں ورزش نہیں کرتے، وقت پر کھانا نہیں کھاتے اور یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے جبکہ بیمار ہونے کی وجہ سے کہیں ذیادہ وقت بستر پر گزار کر اپنی بُری خوراک اور ورزش نہ کرنے کی قیمت دیتے ہیں۔
اسی طرح بچوں کے ساتھ نہ ٹائم گزارنے اور ان کی نہ سننے کی وجہ سے جب وہ بدتمیز ہو جاتے ہیں ،ماںِ ،باپ سے ذیادہ دوستوں اور دوسرے لوگوں کو اہمیت دینے لگتے ہیں تو پھر پریشانی میں،بے کار کی سوچوں میں ماں ،باپ وقت ضائع کرتے ہیں جبکہ وہی وقت اگر انہیں دیا ہوتا تو اچھا تھا۔

یہ سات عادات جن کو باری باری میں نے کتاب [سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفکیٹڈ پیپلز ] سے پڑھا اور جس حد تک مجھے سمجھ آیا ہے،ان کو اگر ہم اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو نہ صرف زندگی بہترین و خوبصورت ہو گی بلکہ تکمیل ذات کا سامان پیدا کر دے گی ۔جو دنیا و آخرت کی ترقی کا موجب ہے۔یہاں کتاب کا تجزیہ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جو لوگ کم وقت میں کسی قسم کی بہترین معلومات کا حصول چاہتے ہیں ،تا کہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ ان کو فائدہ دیا جا سکے۔
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281068 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More