جزبے کسی کے بس میں نہیں (پہلی قسط)

نایاب :تم ایک جگہ ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتے ہادی ،پاپا کو گاڑی چلانے میں کس قدر مسئلہ ہو رہا ہے ،ایک جگہ بیٹھ جاؤ اب۔(نایاب بار بار کبھی آفتاب کی طرف تو کبھی ہادی کی طرف دیکھتی ،اسے لگ رہا تھا کہ آفتاب ہادی کو ڈانٹ دیں گے اور وہ اسے ڈانٹ سے بچانا چاہ رہی تھی)
آفتاب :اپنی گاڑی چلاتے ہوئے روزمرہ کی طرح کوئی بھی بات نہیں کر رہا تھا۔
نایاب:کافی دیر ہو چکی ہے، کیوں نہ تندور سے روٹیاں لے کر چلیں ،دھیرے سے آفتاب کی طرف دیکھ کر نایاب نے اپنی بات آفتاب کے سامنے رکھی تھی ۔
آفتاب:اچھا ،ایک تندور کے سامنے گاڑی روک کر آفتاب تندور کی طرف بڑھ گیا
نایاب :اپنی عادت کے تحت نایاب ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی نظر تندور کی دوسری سائیڈ پر پڑی جہاں دو لوگ لڑائی کر رہے تھے اور بہت غصے میں تھے۔یہ ڈبل روڈ تھی اور جھگڑا کرنے والے ٹھیک تندور کی دوسری سائیڈ پراب ہاتھا پائی پر اُتر آئے تھے۔ان کی لڑائی جھگڑے کی کوئی آوازنایاب کو سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن وہ اپنے دماغ میں گھنٹیاں محسوس کر رہی تھی ،ان میں سے ایک نے اچانک ریوالور نکال لی،نایاب کوایسے لگا کہ جیسے گولی آفتاب کو لگنے والی ہے۔ اس نے اپنی گود میں لی ہوئی حریم کو اپنی گود سے اُتار دیا،ابھی لڑنے والوں میں سے جس کے ہاتھ میں ریوالور تھی تقریباْ گول گول گھوم رہا تھا جبکہ دوسرا جھگڑا کرنے والا اس سے ریوالور لینے کے لیے ہی اسے گھما رہا تھا۔نایاب نے ہادی کوبہن کا خیال رکھنے کا کہا اور گاڑی کا دروازہ نہ کھولنے کا بول کر فوراْ آفتاب کو سامنے ہونے والے جھگڑے سے آگاہ کرنے چلی گئی ۔اس کی نظر انہی پر تھی کہ اُسے گولی آتی ہوئی دیکھائی دی، آفتاب جو تندور والے سےروٹیاں لے رہا تھااچانک سے نایاب کے دھکے سے دور جا گرا جبکہ نایاب کو پیٹھ میں گولی لگی۔
آفتاب :حواس باختہ نایاب کو دیکھ رہا تھا،یہ کیا ہوا ،تم یہاں کیسے ؟یہ کیا ہے ؟اس کی ہلکی ہلکی آواز نایاب کے کانوں سے ٹکرائی اور پھر نایاب بے ہوش ہو گئی۔
سڑک پر ایک ہجوم اکھٹا ہو گیا گولی مارنے والے کو بھی کچھ لوگوں نے پکڑ لیا۔آفتاب کو اچانک بچوں کا خیال آیا،اس کی آنکھوں میں اس قدر آنسو تھے،کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ہمت کر کے اس نے نایاب کو گاڑی میں ڈالا اور گاڑی ہوسپٹل کی طرف چلا دی،ہادی تمام راستے ماما ،ماما چلا رہا تھا وہ کیا کہہ رہا تھا یا حریم کتنی دیر تک روتی رہی ،آفتاب کو کچھ معلوم نہ تھا،وہ تو بس کبھی نایاب کے بہتے ہوئے خون کو دیکھتا اور کبھی سڑک کے راستے کو جو بہت طویل ہو گیا تھا۔
آخر کار ہوسپٹل آ گیا۔
آفتاب: سر گولی لگی ہے دیکھیں نا! بہت خون بہہ گیا ہے،آپ لوگ کچھ کر کیوں نہیں رہے۔
ڈاکٹر :یہ پولیس کیس ہے ۔جب تک پولیس نہیں آتی ہم کچھ نہیں کر سکتے ،آفتاب یوں تو یہ مر جائے گی ،آفتاب نے گود میں لی ہوئی حریم کو نیچے اُتارا ،اب اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے ،اسے اپنی بے بسی اور ڈاکٹر کی بے حسی پر شدید غصہ آرہا تھا۔اس نے نایاب کے بھائی کو فون کیا اور سارے حادثہ کی خبر دی پولیس کچھ دیر بعد ہوسپٹل پہنچی ،نایاب کو آئی، سی ،یو میں لے جایا گیا۔
احمر: نایاب کا بھائی ہوسپٹل میں آیا تو سوا دو گھنٹے گزر چکے تھے ،نایاب کی سرجری ہو چکی تھی اور گولی نکال لی گئی تھی۔ لیکن ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔نایاب کی بھابی نے دونوں بچوں کو سنبھال لیا ،آفتاب جس کرب میں مبتلا تھا یہ وہ ہی جانتا تھا۔
احمر:نایاب کو گولی کوئی کیوں مارے گا۔آپ کی کسی کے ساتھ دشمنی ہے کیا؟گولی اُسے ہی کیوں لگی۔ (آفتاب کو احمر کی باتیں مذید تکلیف دے رہی تھی) وہ وہاں سے اُٹھا اور واش روم جانے کے بہانے وہاں سے چلا گیا۔وہ تنہائی میں بیٹھ کر خوب رو رہا تھا،،آغا خان ہوسپٹل کی مسجد میں اس نے وضو کیا ۔عشا کی نماز وہ تہجد کے وقت پڑھ رہا تھا۔ویسے وہ نماز پڑھتا کہاں تھا۔مگر آج اسے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ مالک کائنات کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی نایاب کی بھیک مانگ رہا ہو۔اس کے ذہن میں آنے والے خیالات اسے مذید کرب میں مبتلا کر رہے تھے۔اسے باربار حریم کا خیال آ رہا تھا جو کچھ دن پہلے ہی ایک سال کی ہوئی تھی۔نایاب کیسے اس کو چوم کر کہہ رہی تھی۔اللہ میری بیٹی کو میری بھی عمر لگا دیے۔اُسے ایک دھچکا سا محسوس ہوا ،جیسے کوئی قیمتی چیز اس کے ہاتھ سے گِر گئی ہو۔اس نے آنکھیں کھول لیں۔
بوڑھا آدمی:اس کے قریب ہی ایک بوڑھا آدمی جس کے سر پر کچھ ہی بال تھے ، اپنی بھیگی آنکھوں کو صاف کر رہا تھا۔آفتاب نے اس کی طرف دیکھا اور اس بوڑھے آدمی نے آفتاب کی طرف۔
بوڑھا آدمی : کیا ہوا بیٹا تمہارا یہاں کون ہے؟
آفتاب :میری بیوی
بوڑھا آدمی:کیا ہوا اُسے؟
آفتاب : گولی لگی ہے؟
بوڑھا آدمی : اوہ،کیسے؟
آفتاب :میرے آگے آکر کھڑی ہو گئی ،مجھے بچانے کے لیے۔
بوڑھا آدمی:اب کیسی ہے؟
آفتاب :ابھی آئی سی یو میں ہی ہے۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ہوش میں آ جائے پھر ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
بوڑھا آدمی:اللہ بہتر کرئے گا بیٹا۔وہی تو ہے،وہ ہر وقت دیکھتاہے،ہر وقت سنتا ہے، ہر لمحہ کا حساب رکھتا ہے،وہ ضرور ہماری مشکل حل کرئے گا،اس وقت کو گزار دے گا۔
آفتاب :وہ ہر لمحہ کا حساب رکھتا ہے ،ہر لمحہ کا حساب ،آفتاب کو بہت سی باتیں یاد آنے لگی تھی،اس کے دماغ میں جیسے ہزاروں بلب ایک ساتھ روشن ہو گئے تھے۔کیسے کیسے لمحے تھے ،جو اس نے نایاب کے ساتھ گزارے تھے ۔کس قدر مشکل سے ایک طویل خزاں کے بعد ان کی زندگی میں بہارکا موسم آیا تھا ابھی تو پھول کھلے ہی نہ تھے فقط ننھی منی کونپلیں تھیں،جن پر ان کی معصوم سی محبت نے انگڑائی لی تھی۔وہ سوچوں کے ایک گہرے سمندر میں کھو گیا۔
آفتاب :امی آپ کو پتہ ہے مجھے نایاب پسند نہیں وہ بہت نخرے والی ہے ،اس کے بات کرنے کا انداز بھی کبھی دیکھا ہے آپ نےاور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ لوگوں نے رشتہ طے کر دیا ہے۔
امی:میری سگی بھانجی ہے وہ مجھے اس سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ،تمہیں اسی سے شادی کرنا ہو گی ،اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو جس سے چاہو شادی کرو ۔میں تمہاری شادی میں شریک بھی نہیں ہوں گی اور نہ ہی تمہاری اس دُلہن کو دیکھوں گی۔
آفتاب :امی،امی(وہ اپنا فیصلہ سنا کر کمرے سے باہر نکل گئیں)
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 264843 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More