مگر اب وہ ان باتوں سے بہت دور نکل گئی تھی-
حماد اس کی زندگی کا جز بن گیا تھا سانس کی طرح جو آتے جاتے دیکھائی نہیں
دیتی لیکن ہوتی ہے اور بہت ہی ضروری ہوتی ہے اس کا سب کچھ اب حماد تھا اس
سے بات کرنا ، اس کو سوچنا اور سوچتے ہی رہنا -
حماد اکثر کہتا پری جب میں نے پہلی دفعہ تمہاری آواز سنی تو مجھے لگا تھا
جیسے میں تمہیں بہت پہلے سے جانتا ہوں ہزاروں برس پہلے سے- تم میری زات کا
وہ گمشدہ حصہ ہو جو صدیوں پہلے ٹوٹ کر الگ ہوگیا تھا- کیا تمہیں بھی ایسا
لگتا ہے پری؟
پری بولتی ہاں مجھے بھی اسے واقعی ایسا ہی لگتا تھا-
حماد نے اسے بتایا کہ وہ جانوروں کا ڈاکٹر اس لیے بنا ہے کیونکہ اسے بے
زبان جانوروں سے بے حد پیار ہے ورنہ اس کے بابا کی خواہش تھی کہ وہ ایم بی
بی ایس ڈاکٹر بنے--- اس کے علاوہ اور بھی ایسی باتیں تھیں جس سے پریشے کے
دل میں اس کی قدر قیمت اور بھی بڑھ گئی تھی- حماد نے جب کہا کہ وہ کسی غریب
انسان کو نہیں دیکھ سکتا اسے ترس آتا ہے اس پہ - پری کو وہ بے حد اچھا لگا
تھا جب کہا کسی بیمار کو بیمار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا پری کو اس پر ٹوٹ
کر پیار آیا -مظلوم کو بھی نہیں دیکھ سکتا- پری کو اس پر فخر ہوا اور اس نے
کہا کہ وہ غریب لوگوں کے ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور ان کے جانوروں کا
ٹریٹمنٹ فری میں کرتے ہیں تو پری کو خود پر رشک آیا اور ے تحاشہ رشک آیا کہ
اتنا اچھا انسان اسے چاہتا ہے ایک بات اس میں یہ تھی کہ وہ سچ بڑے دھڑلے سے
بولتا تھا ایک دن اس نے پریشے کو بتایا کہ وہ اتنا اسمارٹ ہے کہ ہر لڑکی
چاہتی ہے کہ وہ اس کی دوست بنے مگر اسے یہ سب پسند نہیں ہاں اگر لڑکی کیوٹ
ہو تو پھر چند دنوں کے لیے ٹائم پاس کر ہی لیتا ہو اور ایک بات یہ کہ
خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر آنکھ بھی مارتا ہوں جب اس نے یہ کہا تو پریشے
خاموش ہوگئی
لڑکیوں کو دوست بناتا ہوں ٹائم پاس کے لیے یہ بات پریشے کو بری لگی تھی اسے
بے عزتی کا احساس ہوا بے حد اس احساس میں بھی وہ اسے برا نہیں لگا تھا صرف
اس کی بات بری لگی تھی
کیا ہوا اس نے پوچھا
وہ خاموش ہی رہی-
ناراض ہوگئی ہو کیا وہ مسکرا کر بولا تھا
پریشے اب بھی کچھ نہ بولی-
سنو پری یہ سچ ہے کہ بہت سی لڑکیاں مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہیں بہت سو سے
میں بات بھی کر لیتا ہو اور بہت سو کو آنکھ بھی مارتا ہوں لیکن میری کوئین
آف ہارٹ صرف تم ہو صرف تم سمجھی اور قدر کرو میری میں کتنا سچ بولتا ہو
چاہتا تو تمہیں ان لڑکیوں کا نہ بتاتا تو کیا تم معلوم لر لتیں یہ؟
اس نے اتنی بڑی دلیل دی کہ پری کو اپنے سوچ پر بھی شرمندگی ہوئی تھی
پری نے اس سے کہا ان سب لڑکیوں سے بات کرنا چھوڑ دو اور آنکھ مارنا بھی
اس نے قہقہہ لگایا اور کہا-
ٹھیک ہے نہیں کرتا بات لیکن آنکھ تو ماروں گا اور ضرور مارو گا اس نے شرارت
سے کہا-
حماد میں سیریس ہوں اوکے وہ روہانسی ہوگئی-
میں بھی ڈیڈ سیریس ہوں میری پیاری سی پری- وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا-
حماد آپ بہت برے ہو بہت بہت، اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ پھنسنے لگا-
ہاہاہاہا وہ تو میں ہو تمہیں واقعی آج پتا چلا ہے؟
وہ دل کھول کے ہنسا تھا-
پریشے نے غصے سے فون بند کر دیا
ناراض ہوئی ہو کیا؟ اب پلیز رونا نہیں میں مزاق کر رہا تھا ایسا کچھ بھی
نہیں ہے پریشے جو رونے ہی لگی تھی مسیج آتے ہی مسکرا دی تھی---
ایک دن حماد کا فون آیا ساتھ میں ایک نئی فرمائش ، میں تمہیں دیکھنا چاہتا
ہوں اپنی پکچر سینڈ کرو اور میں بھی اپنے پکس سینڈ کرتا ہوں تم بھی تو
دیکھوں نا اپنا شہزادے کو کہ کتنا گڈلکنگ ہے
کتنی عجیب بات تھی دونوں کو بات کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوا تھا اور دیکھنے کا
خیال اب آیا تھا-
پری ہنسی اوکے پہلے آپ سینڈ کرو پھر میں
وہ فورا مان گئی تھی جانے یہ کیسے محبت تھی کہ وہ گناہ اور ثواب کو ہی بھول
گئی تھی-
حماد نے اپنے دو تین پکچر اسی وقت سینڈ کر دی پری نے جب اسے دیکھا تو حیران
رہ گئی کیونکہ ہر وقت اپنی تعریف کرنے والا خود کو مسٹر پاکستان سمجھنے
والا صرف مسٹر بھی نہیں تھا- جاری ہے) |