جہاں جہاز گرا، بچپن وہاں بِتایا تھا

’’حویلیاں کے پاس پی آئی اے کا جہازلاپتہ ہو گیا‘‘ 7دسمبر کی شام5بجے کے قریب ذرائع ابلاغ نے خبر نشر کرنا شروع کی تویک لخت سوچوں کے دھارے اسی طرف مڑ سے گئے۔ تھوڑی دیربعد پتہ چلنا شروع ہوا کہ جہاں جہاز گرا ہے، اس کا نام مجاہتھ ہے، پھر کبھی بٹولنی تو کبھی کوئی اور نام آنا شروع ہو جاتا۔ سوشل میڈیا خاص طور فیس بُک پر علاقے کے لوگوں نے تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کیں،تب صحیح اندازہ ہوا کہ یہ تو وہی علاقہ اور اس کی پہاڑیاں ہیں، جہاں بچپن بتایا تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں ہمیں کسی زمانے میں سکول سے سالانہ چھٹیاں ہوتیں یا ویسے کبھی کبھاراونچائیوں کا کچھ لمبا سفر کرنے کو جی چاہتا تو ہم انہی پہاڑیوں کا رخ کرتے۔ دوستوں ،ہم جولیوں کے سنگ گھنٹوں انہی کوہ و دمن پر پیدل چلتے۔جب جی بھر جاتا تو واپس گھر کی راہ لیتے۔ یہیں کبھی کبھار شکار کا دور چلتا، کبھی غلیل سے تو کبھی بندوق سے، کبھی پرندوں کا تو کبھی خرگوش کا…… انہی پہاڑیوں کے دامن میں کھیل کے میدان سجتے۔ یہیں سے رنگا رنگ اور موسم در موسم طرح طرح کے مقامی پھلوں کا مزا اٹھاتے تو ان پھلوں ہی نہیں یہیں کے سبزے اور پھولوں کے رنگوں اور خوشبوؤں سے زندگی کی بہار میں بھی کتنے رنگ بھرجاتے۔ موسم گرما میں یہاں بہتے ٹھنڈے ٹھارچشموں سے دن بھر اور صبح و شام نہانے کے دور چلتے تو موسم سرما میں انہی چشموں کا پانی سخت سردی میں اتنا گرم ہو جاتا کہ نہانے میں بھی نیا ہی لطف پیدا ہو جاتا۔ آج یہاں کے وہ بے شمار چشمے خشک ہو چکے ہیں ، بہاریں جیسے روٹھ چکی ہیں۔ یہاں جیسے جیسے سوئی گیس آتی گئی، سارے درخت اور جنگلات جڑ سے کاٹ کر ختم کر ڈالے گئے ۔آج انہی پہاڑوں کے بیچ آگ کے مرغولے بلند ہو رہے تھے۔ گھاس، جھاڑیاں اور چھوٹے موٹے درخت شعلوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ دور سے ہی یہ جہنم زار دل دہلائے جاتا تھا تو علاقے بھرسے لوگ اسی طرف دوڑے چلے آ رہے تھے۔ جہاز گرنے والی جگہ تک پہنچنے کے لئے کوئی معمولی راستہ تک نہ تھا لیکن جیسے ممکن ہوا سبھی کا رخ اسی جانب تھا۔ ’’جہاز گر گیا، جہاز گر گیا‘‘ کی صدا جیسے جیسے پھیلتی جاتی،چہار اطراف سے لوگوں کا ہجوم دوڑا چلا آتا تھا جن میں جوانوں کے ساتھ بچے بوڑھے اورعورتیں بھی شامل تھیں۔ ان سب لوگوں نے جھاڑیاں توڑیں،ڈنڈے پکڑے ہاتھوں میں پتھر مٹی اٹھائی اور ان سے ہی جیسے تیسے آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ شاید کسی نہ کسی کو زندہ بچا لیں۔ اسی تگ و دو میں انہیں آہستہ آہستہ انسانی جسموں کے ٹکڑے ملنا شروع ہوئے تو انہوں نے سردی سے بچنے کے لئے اوڑھی چادریں اتاریں اور ان میں ہی ان ٹکڑوں کو باندھنا شروع کر دیا۔ اگر ایک طرف جہاں ساری فضا میں دکھ ،تکلیف اور رنج و غم کی گھڑیاں تھیں تو دوسری طرف سب کے جذبوں کو ایک ہی امید مہمیز کئے جا رہی تھی کہ شاید کسی ایک انسان کو ہی زندہ آگ سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہی لگن ان سب کے ہاتھوں کی رفتار کو تیز اور جسم کی گرمی کو مہمیز دیتی تھی۔ ہزاروں فٹ کی بلندی سے گرنے اور آگ میں گھرنے کے بعد صاف ظاہر ہے کہ کسی کا زندہ ملنا محال تھا، سو وہی ہوا۔ اسی جستجو میں کئی لوگ جل کر اور کئی گر اور گھسٹ کر زخمی ہوئے۔

لاہور میں پروفیسر حافظ محمد سعید کے پاس بیٹھے تھے کہ انہوں نے اس سانحے کی خبریں سنتے ہی جماعۃ الدعوۃ ہزارہ کے مسؤل غازی ابو ولید کو فون کیا کہ یہاں اپنی امدادی ٹیمیں روانہ کرو…… ان کا جواب تھا کہ جہاں جہاز گرا ہے وہاں ہمارے جماعتی ساتھی کافی تعداد میں آباد ہیں اور وہ پہلے ہی پہنچ کر امدادی کاموں کا آغاز کر چکے ہیں،میں مزید ساتھی لے کر پہنچ رہا ہوں۔ جی ہاں! جہاں جہاز گرا وہیں قریب ہی توعظیم کمانڈر ابو طلحہ ہزارو ی شہید کا گاؤں ہے۔یہیں سے تحریک دعوت و جہاد کے لئے دن رات خون پسینے بہانے والے سجیلے جوانوں کی تعداد سارے خطے میں سب سے بڑھ کر رہی ہے اور آج یہاں کے باسی اور اس قافلے کے سجیلے جواں ایک نئی طرح کی آگ میں کودے ہوئے تھے کہ بس کسی کی جان بچا لیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ہزارہ کے ذمہ دار برادرم مرتضیٰ کا فون آیا جو یہاں سے دور علاقہ گلیات کے باسی ہیں۔ حادثے کے مقام پر پہنچنے کا راستہ پوچھ رہے تھے اور جیسے ہی انہیں پتہ سمجھ آیا، وہ اس طرف دوڑ پڑے…… یہاں اب ایک طرف رات چھا چکی تھی، چاند کے ابتدائی دن اور پھر گھپ اندھیری رات…… پر پیچ پہاڑی سلسلہ، جلے جسموں کی تکلیف اور جہاز کا دور دور تک پھیلے ملبہ اور زمین سے اٹھتی بو، شعلوں سے دہکتی زمین اورگرم پتھر، جہاز کے بکھرے آہنی و فولادی ٹکڑے جو جسم کو چیرنے میں دیر نہیں کرتے، ہر طرف بکھرے ہوئے تھے لیکن پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار اب بھی زندگی بچانے کی تگ و دو میں جسم لڑا رہے تھے۔ یخ بستہ رات میں اور کھلے آسمان تلے یہ جنگ معمولی ٹارچوں کی روشنی کے ہتھیاروں سے جاری تھی لیکن جب زندگی کے آثار مکمل ناپید محسوس ہوئے تو اب اگلا مرحلہ شروع ہوا کہ جن جسموں کے ٹکڑے مل چکے ہیں، انہیں ہسپتال پہنچایا اور لواحقین کے حوالے کیا جائے۔ سو انہیں ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد پہنچایا گیا تو انہیں کندھے دینے کیلئے بھی یہاں رضاکار موجود تھے۔ ہسپتال کے مردہ خانوں سے لے کر انہیں کفن دینے اور تابوت میں ڈالنے، انہیں اسلام آباد پہنچانے اور اس عرصے میں یہاں آئے سوگواروں کے لئے کھانے تک کا انتظام، سبھی اعمال انہی خدائی خدمت گاروں کے ہاتھوں انجام پارہے تھے ۔یہ جسموں سے آرام کو یوں دور کئے بیٹھے تھے کہ جیسے اس کا زندگی میں وجود ہی نہیں۔

یہاں کیسے کیسے زخم دیکھنے کو ملے، میری مادر علمی گورنمنٹ غازی داؤد شاہ ہائی سکول حویلیاں کا ایک طالب علم بتانے لگا ، جب وہ جائے حادثہ پر پہنچے تھے توانہوں نے ایک ایسا منظر بھی دیکھا کہ ایک معصوم بچے کا جلا جسم ایک دوسری جلی لاش کے سوختہ بازوؤں میں جکڑا ہوا تھا ۔جہاز میں سوار ماں نے اپنے بچے کو اس لمحے بھی بچانے کے لئے اپنے بازوؤں میں یوں حمائل کر لیا تھا لیکن لکھی موت کو تو کوئی ٹال نہیں سکتا ،سو وہ توٹل نہ سکی لیکن مامتا کی محبت کی ایک اور داستان تاریخ انسانی کے اوراق میں پیوست ہو گئی۔ گوگل ارتھ کے نقشے سے سارے علاقے کا فضائی جائزہ لیا تو عجیب کہانی سمجھ آئی۔ خوفناک موت کے لمحات میں جہاز کے پائلٹ نے جب یہ سمجھ لیا تھا اب ہر صورت جہاز کی تباہی یقینی ہے اور جہاز چند ہی سیکنڈ اس کے کنٹرول میں ہے تو وہ زمین پر پھیلی وسیع اسلحہ و ایمونیشن ساز فیکٹری اور اس سے متصل ملک کے سب سے بڑے ایمونیشن ڈپو سے آگ میں لپٹے دہکتے جہاز کو انہی لمحوں میں انتہا ئی مہارت اور پھرتی سے دور لے گیا اور پھر انہی قیامت خیز گھڑیوں میں یہ تک خیال کیا کہ اس کے جہاز کے گرنے سے زمین پر چلتے کسی ایک انسان کو بھی گزند نہ پہنچے، سو اس نے انہی گنتی کی سانسوں میں ہر طرف بچ بچا اور سمٹ سمٹا کر جہاز کو ایک ایسی پہاڑی کے پہلو پر گرا دیا ،جہاں سے ہر ممکن اور آخری حد تک بچاؤ ممکن تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی موت تو یقینی ہے لیکن اس کا یہ جذبہ کہ کوئی دوسرا اس سے معمولی متاثر نہ ہو، کیا اس کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔

حویلیاں سے ایبٹ آباد اور پھر اسلام آباد تک فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کو ایک عالم دیکھ رہا ہے جوبغیر کسی لالچ و معاوضے کے بس بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ سانحہ حویلیاں کتنی یادیں اور کتنے واقعات کتنی نئی سے نئی کہانیاں اپنے دامن سے نکال کر دنیا کو دے کر چلا گیا…… اور اب آخری بات ،یہاں اس حادثے کا شکار بننے والوں کے لئے کہ جنہیں حدیث پاک کی رو سے کتنے مراتب سے شہادت کی موت ملی۔ گر کر فوت ہونے والے کیلئے شہادت، جل کر فوت ہونے والے کے لئے شہادت، دب کر فوت ہونے والے کے لئے شہادت، ناگہانی و حادثاتی موت کا شکار ہونے والے کے لئے شہادت۔
 
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.